شوق یا مجبوری، مصری خاتون نے ’لوہار‘ کا پیشہ اپنا لیا

قاہرہ 10جنوری ( آئی این ایس انڈیا ) مصرمیں ایک 26 سالہ خاتون اسماءالسید کو حالات کی ستم ظریفی اور شوق نے ایک ایسا پیشہ اپنانے پرمجبور کردیا جو عام طورپر مردوں کے لیے خاص سمجھا جاتا ہے، یعنی لوہار کا پیشہ‘۔ ذرائع کے مطابق چھبیس سالہ اسماءالسید ایک عرصے سے لو ہا رن کا کام کررہی ہیں حالانکہ یہ صنف نازک کے لیے ایک مشکل کام ہے، مگراسماءنے اپنے پیشے سے بھرپور انصاف کیا ہے اور وہ لوہے کی مختلف مصنوعات تیار کرتی ہیں۔ حتیٰ کہ اپنے کام میں لگن کی وجہ سے انہوں نے شادی سے بھی انکار کردیا ہے۔شمالی مصرکی مشرقی گورنری میں اسماءنے ایک ورکشاپ بنا رکھی ہے جہاں وہ لوہے کے مختلف اوزار ڈھالتی ہیں۔ اسماءکا کہنا ہے کہ لوگ اس پر اعتماد کرتے ہیں اور وہ اپنے گاہکوں کو مایوس نہیں کرنا چاہتیں۔ اگر میں نے شادی کی تو میرے گاہک ختم ہوجائیں گے۔ ذرائع سے با ت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لوہے کا کام اس کے لیے نیا نہیں بلکہ وہ بچپن سے اس پیشے سے وابستہ ہیں۔اس کے والد ایک لوہار تھے اور وہ انہیں گھر میں یہ کام کرتا دیکھتی تھیں۔ اسے بھی یہ پیشہ پسند آیا اور اس نے اپنے والد سے کہا کہ وہ اسے اس پیشے کی تعلیم دلوائیں ۔اسماءکا کہنا ہے کہ پہلے تو والد نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ ان کے خیال میں لوہے کا کام خواتین کے بس کی بات نہیں۔ اس میں جسمانی مشقت بھی زیادہ کر نا پڑتی ہے تاہم اسماءکے مسلسل اصرار کے بعد انہیں اپنی بیٹی کو یہ کام سکھانا شروع کردیا۔وقت گذرتا گیا اور اسماءالسید کے والد کی صحت بگڑتی چلی گئی اور انہیں کام چھوڑنا پڑا۔ گھر کا خرچ چلا نے کے لیے اسماءنے ورکشاپ ا پنے ہاتھ میں لے لی اور لوہے کے اوزار تیار کرنا شروع کر د یے۔ایک سوال کے جواب میں اسماءنے کہا کہ پہلے پہل بہت سے لوگوں نے اس کے اس کام کی مخالفت کی مگر اس نے کسی کی مخالفت یا حمایت پرکوئی توجہ نہیں دی بلکہ وہ پوری لگن اور محنت کے ساتھ کام کرتی رہیں۔ایک سول کے جواب میں اسماءالسید نے کہا کہ اس نے لوہارکا پیشہ اس لیے اپنایا تاکہ وہ خاندان کی معاشی ضروریات پوری کرسکیں۔ وہ شادی نہیں کرنا چاہتی کیونکہ شادی کی صورت میں اس کا یہ پیشہ بھی اس سے چھوٹ جائے گا اور گھر کا چولہا چلانے کے لیے کوئی متبادل نہیں ہوگا۔