ریسرچ اسکالر شیخ الہند اکیڈمی، دارالعلوم، دیوبند

شمس تبریز، قاسمی،موتیہاری
کی تاریخ پڑھنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے، کہ تمام مذاہب وادیان کے ماننے والے روز اول سے ہی ملاقات کے شروع میں جذبہ مسرت و خوشی کا اظہار کرنے اور ایک دوسرے کو مسرور کرنے کے لیے مخصوص جملے ادا کرتے ہیں. اظہار مسرت اور شادمانی کہ یہ سلسلہ آج بھی ہر قوم اور ہر مذہب میں مختلف طریقوں سے رائج ہے. وہ طریقہ اس قوم ومذہب کا مذہبی شعار ہوتا ہے،جس سے وہ پہچانا جاتا ہے، کہ اس شخص یا جماعت کا تعلق کس مکتب فکر سے ہے؟ اور کس مذہب کا یہ پیروکار ہے؟.
سلام کا رواج ہرقوم وملک میں ان کی ثقافت، تہذیب وتمدن، رسم و رواج اور زبان کے مطابق رائج ہے؛ چناں چہ انگریز صبح و شام اور رات دن کے دورانیے میں، اپنے ملنے والے کو good morning, good day, good evening اور good night جیسے الفاظ سے الگ الگ انداز میں اظہار مسرت پیش کرتے ہیں؛ جب کہ برادران وطن ”نمستے”، ”آداب”اور ”رام رام” کے الفاظ اپنے بھائی بندو¶ں سے ملاقات کے وقت استعمال کرتے ہیں.
لیکن اسلام چوں کہ دنیا کا سب سے زیادہ جامع اور پرکشش مذہب ہے، جس کا ہر ہر حکم تہذیب وشائستگی سے پہلو مار رہا ہے، اس نے ان تمام مذاہب سے الگ ہٹ کر ایک نہایت ہی پاکیزہ اور جامع لفظ کو بہ طورِ سلام عرض کرنے کا حکم دیا، جو یقیناً الفت و محبت سے مملو اور سیکڑوں دعا¶ں سے لبریز ہے. یہ لا ریب اسلام کا معجزہ اور کرشمہ ہی ہے، کہ اس نے ایک لفظِ سلام کے ذریعہ اتنی عظیم دعا دے دی ہے، کہ دنیا کے دیگر مذاہب وادیان اس کی مثال لانے سے قاصر ہیں.
سلام کی ابتداءکے بارے میں ”بخاری”، ”مسلم” اور ”مشکات شریف ”میں بہ روایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ:حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ:اللہ تعالٰی نے حضرت آدم علیہ السلام کو مکمل طور پر ان کی صورت میں پیدا کیا:ان کی لمبائی ساٹھ ہاتھ تھی. جب اللہ تبارک و تعالٰی ان کو پیدا کر چکے، تو ان سے فرمایا کہ جا¶! اور ان فرشتوں کو، جو بیٹھے ہوئے ہیں، سلام کرو! اور وہ جو جواب دیں گے، اس کو غور سے سننا؛ کیوں کہ وہی تمہارا اور تمہاری اولاد کے لیے جواب ہوگا، چناں چہ حضرت آدم علیہ السلام نے ان کو جا کر سلام کیا، تو فرشتوں نے سلام کا جواب ”ورحمة اللہ” کی زیادتی کے ساتھ دیا.
مگر مرورِ ایام اور نبیوں کی تعلیمات سے دوری نے اللہ تبارک و تعالٰی کی دی ہوئی اس انوکھی اور پرکیف دعا کو پردہ خفا میں ڈال دیا تھا اور انسانی سماج میں دیگر طور طریقے رواج پا گئے تھے:کوئی” ا¿نعم الل بع¸نا ”تو کوئی” ا¿نعم صباحا” کہنے لگا تھا. جیسا کہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے. وہ فرماتے ہیں، کہ ہم لوگ قبل از اسلام آپس میں ملاقات کے وقت ”ا¿نعم الل ب ع¸نا” یا پھر ”ا¿نعم صباحا” کا استعمال کیا کرتے تھے؛ لیکن جب ہم حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے، تو ان الفاظ کے ادا کرنے کی ممانعت کردی اور اس کی جگہ ہمیں ”السلام علیکم” کی تعلیم دی گئی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم لوگوں سے ارشاد فرمایا، کہ اس لفظ کے ذریعے ایک دوسرے کو سلام کیا کرو!
مذہبِ اسلام ایک ایسا خوب صورت اور مکمل ضابطہ زندگی ہے، جس نے حیاتِ انسانی کے کسے بھی گوشے کو تشنہ نہیں چھوڑا ہے؛ بل کہ زندگی میں پیش آنے والی ہر چھوٹی بڑی بات کی پورے شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا ہے اور اپنے پیرو کاروں کو زندگی کی کسی بھی منزل پر تنہا نہیں چھوڑا ہے؛ یہی مذہب اسلام کا امتیازی وصف ہے کہ وہ ہر دم اپنے ماننے والے کے ساتھ ہم قدم رہتا ہے اور خوشی وغم بہر صورت زندگی گزارنے کا طریقہ بتاتا ہے؛ لہذا اسلام نے ہمیں باہمی ملاقات کا طریقہ بھی بتایا ہے. چناں چہ ملاقات کا احسن طریقہ ہمیں حدیث مبارک سے ملتا ہے، کہ جب ہم کسی مسلمان سے ملاقات کریں، تو ”السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ” کہیں!
سلام کی فضیلت
”سلام کی فضیلت و اہمیت” مختلف احادیث مبارکہ سے ثابت ہے. چناں چہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم سے مروی ہے، کہ ایک شخص نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم سے دریافت کیا کہ ”اسلام میں کون سا عمل افضل ہے؟” تو جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جواب دیا کہ ”ایک تو یہ ہے کہ تم اللہ کے بندے کو کھانا کھلا¶ اور دوسرا یہ ہے کہ تم سلام کرو ہر کسی کو، خواہ وہ آشنا ہو یا غیر آشنا”.
مشکات شریف کی حدیث ہے، جس کو صاحب مشکات نے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے:
” Êن ا¿ول الناس با الل، من بدا¿ بالسلام”. یعنی اللہ تبارک و تعالٰی کی رحمتوں اور برکتوں کا سب سے زیادہ حق دار وہ ہے، جو سلام میں پہل کرے. ایک دوسری حدیث شریف میں جناب سرورِ کونین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ہے کہ ”جب کوئی دو شخص آپس میں ملتے ہیں اور سلام کے بعد مصافحہ کرتے ہیں اور اللہ تبارک و تعالٰی سے یہ دعا کرتے ہیں کہ:
” ¸غفر الل لنا ولم ”، تو اللہ ان دونوں کے جدا ہونے سے پہلے ہی بخشش کا پروانہ دے دیتا ہے.
سلام سے متعلق چند اہم مسائل:
سلام کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ مسلمان سے ملاقات اور جدائی کے وقت ” السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ” کے الفاظ کے ذریعے پورا سلام پیش کرے۔
فقہا کرام نے یہ مسئلہ لکھا ہے کہ بہتر یہی ہے کہ ” السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ ”کے ذریعے سلام کیا جائے اور جواب” وعلیکم السلام و رحمة اللہ و برکاتہ ” کے ذریعے دیا جائے.
(کتاب النوازل بہ حوالہ تاتار خانیہ)
وضو، اذان اور کھانا کھاتے وقت سلام کرنا مسنون نہیں ہے، اور کوئی کردے، تو جواب دینا واجب نہیں؛ تاہم اگر کوئی جواب دے دے، تو کوئی حرج بھی نہیں ہے.
محرم عورت کو سلام کرنا اور جواب دینا؛ دونوں جائز ہیں اور نامحرم بوڑھی عورت کو بھی سلام کرنا جائز ہے؛ البتہ جوان غیر محرم عورت کو ابتداً سلام نہ کیا جائے، لیکن ہاں! وہ اگر سلام کردے، تو آہستہ سے جواب دے دیں.
ہمارے مسلم نوجوان، بچے اور یہاں تک کہ عمر دراز؛ سب کے سب دینی تعلیمات سے دور ہونے کی وجہ سے گمراہی کے عمیق غار میں گرتے چلے جا رہے ہیں اور اپنی صاف شفاف تہذیب و تمدن کو چھوڑ کر، غیروں کی رسم و رواج میں ہی اپنی کام یابی باور کرنے لگے ہیں. آج کل ایک فیشن ہوگیا کہ ہم لوگ ہاتھ اٹھا کر، یہود و نصارٰی کی طرح سلام کرتے ہیں؛ حالاں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس طرح سلام کرنے سے منع کیا ہے، کہ کوئی آدمی سلام کا لفظ زبان سے بولے بغیر صرف ہاتھ اٹھا کر سلام کرے.
اسی طرح ہمارے معاشرے میں ایک خرابی یہ بھی سلام کے باب میں آگئی ہے، کہ لوگ آہستہ سے جواب دیتے ہیں، جب کہ اس سلسلے میں مسئلہ یہ ہے کہ سلام کا جواب اتنی آواز میں دینا واجب ہے کہ سلام کرنے والا جواب سن لے اور اگر سلام کرنے والا دور ہو، جس کی وجہ سے سننا ممکن نہ ہو، تو پھر اس صورت میں ایسا اشارہ ضروری ہے کہ سلام کرنے والے کو پتہ چل جائے، کہ اس نے جواب دے دیا ہے.
” مصافحہ اور معانقہ”
مصافحہ در اصل ”سلام” کی تکمیل ہے اور حدیث شریف میں آیا ہے کہ ”جب دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں اور مصافحہ کرتے ہیں، تو جدا ہونے سے پہلے دونوں کے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں. اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ دونوں کے گناہ اس طرح جھڑتے ہیں، جیسے درخت کے پتے جھڑتے ہیں.
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اکثر سلام کے ساتھ مصافحہ بھی فرماتے تھے اور کبھی کبھار معانقہ کرنا بھی ثابت ہے. مصافحہ کرنے کا افضل اور بہتر طریقہ تو یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں سے کیا جائے. یہ طریقہ سنت سے ثابت ہے؛ تاہم اگر ایک ہاتھ مشغول ہو، تو ایک سے بھی مصافحہ کیا جا سکتا ہے. عید اور بقرعید کی نماز کے بعد مصافحہ یا معانقہ کرنا محض ایک رسمی چیز ہے، جس کا شرعا کوئی ثبوت نہیں ہے؛ اس لیے اس کو عیدین کے دن کا اہم اور اچھا فعل ماننا اور اس کو دین کی بات سمجھنا بدعت ہے، چناں چہ یہ رسم واجبِ ترک ہے.
آج امت مسلمہ کے لیے ایک بہت بڑا المیہ ہے، کہ مسلم معاشرے میں دن بہ دن سلام کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے. ہر کوئی کہتا ہوا نظر آ رہا ہے، جو بہت ہی غلط بات ہے؛ لہذا آئیے! آج ہم سب عہد کریں، کہ ہم سلام کو عام کریں گے اور اپنے معاشرے میں پھیلی ہوئی غلط رسم و رواج کو دور کریں گے. اللہ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین یا رب العالمین.