مومن کا رگاہِ حیات میں

اُسامہ ناصر عبداللطیف الکندی
  بنی آدم نے جب جب اپنی وجود کی طرف نظر ڈالی تواسے معلوم ہوا کہ میں خلق کردہ ہوں ، تو اسے خالق کا تصور آجاتا ہے۔ایسے خالق کا جس نے عالمِ ا رواح  میں تمام ا نسانی روحوں سے وعدہ لیا کہ میری عبادت کرنا اور عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرانا ۔ بحیثیت مخلوق انسان کو اپنی زندگی میں ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے خالق کی معرفت وخوشنودی حاصل ہو اور جب ہم دنیا کے تمام آسمانی والہامی مذاہب کی کتابوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک ایسے خالق کا تصور ہمارے سامنے آتا ہے ، جو بذاتِ خود ہر چیز کو وجود بخشتا ہے ۔ جن سے  ہمیں خالق کائنات کا تصور ملتا ہے مگر اصل اور حقیقی تعارف ہمیں صرف اللہ کی آخری کتاب یعنی قرآن مجید سے حاصل ہوتاہے کیونکہ بقیہ کتابیں تحریف شدہ ہیں۔ قرآن میںخالق کاتعارف ہمیں ہر پارے ، سورے ، آیت حتیٰ کہ ہر لفظ میں ملتا ہے ۔چنانچہ سورۃ اخلاص میں یوں آیا ہے :’’کہو کہ اللہ ایک ہے ، وہ بے نیازہے، اس سے نہ کوئی جنا ہے اور نہ وہ کسی سے جنا ہے اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے‘‘۔اگر اس کے برعکس ہر زمانے کا باطل وطاغوت اپنے معبودان کے بارے میں مختلف الآ راء ہے ،کوئی کہتا ہے کہ ہمارے بہت سے خد اہیں، ایک وہ جو ہمیں اولاد دیتا ہے اور دوسرا وہ جو ہمیں رزق دیتا ہے، تیسرا وہ جو زندگی اور موت دیتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ باطل کے ان پرستاروں کے یہاں اوہاماور اصنام سمیت خدا کے باغیوں اور شیطان کے کارندوں کی پوجا کی جاتی ہیں ۔ جب کہ ہمارا حقیقی خالق ومالک وہ الہٰ واحد ہے جو کسی کا محتاج نہیں بلکہ ہم سب اسی کے محتاج ہیں ۔
رب نے  پہلے فرشتوں کو پیدا کیا اپنی بندگی کے لئے اور وہ نور سے پیدا کئے گئے ۔انہیں جو حکم رب کی طرف سے ہوتا ہے وہ کرگذر تے ہیں اور تمام فرشتوں کے سردار حضرت جبریل ؑ ہیں۔دیگرفرشتے اللہ کی طرف سے مختلف کاموںپر مامورہیں ۔ جیسے روح قبض کرنے والے حضرت عزرائیل،ؑ صور پھونکنے والے حضرت اسرافیل ؑ ، آسمان پکڑنے والے ، کاتب الحسنات و کاتب السیأت ، قبر میں سوال پوچھنے والے ، جنت اور جہنم سے متعلق ملائکہ وغیرہ ۔فرشتوں کو موت نہیں آتی ،پھراس مخلوق کے بعد اللہ نے آگ سے جنوں کو پیدا فرمایا جو اللہ کی بندگی کے لئے پیدا کئے گئے تھے ،ان میں ابلیس بھی شامل ہے۔ حضرت آدمؑ کی تخلیق کے بعد ہی ابلیس نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی،گرچہ اس سے قبل اللہ کے یہاں اسے بہت ہی عظیم مرتبہ حاصل تھا۔اللہ رب العزت نے زمین پرا نسان کو بطورِ خلیفہ پیدا کرنے کا اِرادہ  فرشتوں کے سامنے ظاہرکیا توفرشتوں نے وضاحت چاہی کہ اے رب ! ہم تو تمہاری ہی عبادت کرتے ہیںتو ایسی مخلوق کی تخلیق جو دنیا میںخون ریزی ،فتنہ،فسادبپا کرے ، قتل و غارت کرے ، کیا مدعارکھتی ہے ۔ رب نے جواب دیا کہ ’’میںوہ جانتا ہوںجو تم نہیں جانتے‘‘  فرشتوں اس جواب پر سکوت فرماگئے، پھر چھ دنوں میں ارض و سماں کی تخلیق ہوئی ۔حضرت آدم ؑکو مالک و خالق نے بنا کر فرشتوں اور جنوں کو حکم دیا کہ آدمؑ کو سجدہ کیا جائے ، فرشتوں نے بلاچوں چرا رب کا حکم مانا مگرجنوں میں ابلیس جو عظیم مرتبہ کا حامل تھا ،انکار کر بیٹھا کہ اے رب! میںجو آگ سے پیدا کیا گیا ( بہت مضبوط بہ نسبت مٹی) میں کیونکر ایسی مخلوق کو سجدہ کروں جو مٹی سے پیدا کیا گیا۔ رب نے اسے ہمیشہ کے لئے مردود کر دیا اور اسے اپنی رحمت سے دور کردیا ۔شیطان نے کہا ٹھیک میں تو چلا جاتاہوں مگر میری ایک گزارش ہے کہ قیامت کی صبح تک مجھے مہلت دیجئے۔ابلیس نے کہا اب میں اپنے کام پرلگ جاتا ہوں ، کہ ہر بندے کو گمراہ کروں گا۔ رب نے ارشاد فرمایا کہ جب تک میرے مخلص وموحد بندے مجھ سے مانگتے رہیں گے ،میں انہیں معاف کرتا رہوں گالیکن جب جب وہ مجھ سے مانگنا چھوڑ دیں توان کو بھی سزا  کا مزا چھکادیاجائے گا۔
اللہ نے حضرت آدم ؑ کو جنت میں بھیجا او ر اسی سے ہماری ماں حضرت حوا ؑکو پیدا کیا اور دونوں کوحکم ہو اکہ جنت میں جو چاہے کروں لیکن ایک ایسے درخت کے پاس تک نہ جانا کہ اس کا پھل کھا بیٹھو۔ یہاں سے چونکہ شیطان نے اپنی گمراہی کا جال پھیلایا ۔ وہ  ان دونوں کے پاس ابدی زندگی کافسانہ تراش کر انہین اپنے دام ہمر نگ زمیں پھنسانے میں لگارہا کہ انہوں نے اس ممنوعہ درخت کا پھل کھایا۔اس پر ان دو نوںکو وہ و سزا ہوئی جس کا ان کا وعدہ کیا گیا تھا۔ آدم ؑ وحوا کو جنت سے نکال کر دنیا میں لایا گیا مگر آدمؑ نے اپنی لغزش پر پھر بہتسال تک توبہ واستغفارکیاجسے قبولیت ملی۔ اس کے بعد رب کا یہ کرنا تھا کہ حضرت حواؑ کی  بطن سے دو دو بچے تولد ہوتے،جن میں ایک بچی اور ایک بچا ہوا کرتا، پھر رب کے قانون کے مطابق ان اولاد کی شادیاں ہوا کرتی تھیں اور نسل انسانی آگے بڑھتی گئی ۔حضرت آدمؑ کے بعدقرنوں بعد اشرف المخلوقات میں شیطان کے بہکاوے سے شرک ، کفر ،بدعات اوربہت سارے گناہ اور  سر کشیاں اُبھر تی گئیں ۔اس لئے انسان کے ایمان کی تازگی کے لئے ،رب کریم نے وقتاً فوقتاً مختلف ادوار میں مختلف اقوام میں مختلف پیغمبران کرام ؑ مبعوث کئے تاکہ انسانوں کی رہبری و رہنمائی کا سامان ہوسکے ۔دنیا کے پہلے پیغمبر حضرت نوح علیہ السلام نے لوگوں کی تبلیغ 950 سال تک کی۔ اسی طرح زمانہ آگے بڑھتا گیا ۔ حدیثوں کے مطابق اللہ کے برگزیدہ پیغمبروں کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے اور 69 قومیں گزری ہے ۔ ہماری قوم مسلم دنیا میں 70 ویں قوم ہے اور نبی آخرالزماں ﷺ بحیثیت رہبر و رہنمابنائے گئے ،آپ ؐ نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام جہانوں کے لئے رحمۃللعلمین ؐ بنا کر بھیجے گئے ۔آپ ؐ جنوں اور کافروں کی طرف بھی رحمت بنا کر بھیجے گئے۔ آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا ہے ۔ آپؐ کے بعد خلفائے راشدینؓ اور صحابہؓ کا دورِ زریں گذرا ۔صحابہؓ کا دور بہترین دور تھا اور اس کے بعد تابعین کا ، تبع تابعین کا ، مفسر ین کا، محدثین کا ،ا ئمہ دین کا، بزرگانِ دین کا دور ہدایت و رحمت کا زمانہ تھا ۔
آج اسلام پر عمل ناپید ہے اور جہالت ،شر ک و بدعات ، گناہ عام ہیں ۔ جوں جوںزمانہ آگے بڑھ رہاہے گناہ بھی تیزرفتاری کے ساتھ بڑھتے جارہے ہیں ۔ آج وہ کون سا گناہ ہے جو روئے زمین پر موجود نہیں ۔لکھوکھا لوگوں کو قتل کیا جارہا ہے،چھوٹی بچیاں تک محفوظ نہیں ،جوانوں کی جوانیاں لٹ رہی ہیں بگڑ رہی ہیں ۔ آج چاروں طرف خرابی ہی خرابی ہے ، فسادات کی کثرت ہے ، اختلاف بڑھ رہے ہیں، بے حیائی اپنے عروج پر ہے، گویا شیطان اپنے سفلی مقاصد میں کامیاب ہورہا ہے ۔ قیامت کی چھوٹی نشانیاں نصف سے زیادہ پوری ہوچکی ہیں ۔قیامت کی چھوٹی نشانیوں میں سے علم کا اُٹھ جانا، شرک کی کثرت، فتنوںکا ظہور، آنے والا زمانہ پہلے زمانے سے برا ہونا، جھوٹے نبیوں اور دجالوں کا ظاہر ہونا، بدبختوں کا اُستاد بننا ، مال و دولت کی فراونی ہونا ، ابلیسی نشر واشاعت کے کام کاچرچا ہونا ، عمل کا فقدان ہونا، گانے بجانے کارواج عام ہونا ، زنا کاری کا دور دورہ ہونا ، جھوٹ کی کثرت ہونا ، جھوٹی گواہیاں دینا ، سود پھیل جانا، حلال و حرام کی تمیز کئے بغیر مال کمانا ، خواتین کا کاروبار میں شریک ہونا ، ہمسائیگی بری ہونا ، بدعات پھیل جانا ، مساجد میں خوب تزئین و آرائش عام ہونا، لوگوں کا ایک دوسرے کے ساتھ اجنبی جیسا ہونا ، دھوکہ بازی عام ہونا ، نا اہل عہدوں کو عہدے ملنا، لونڈی کا اپنے مالک کو جنم دینا ، بلند و بالا عمارتیں بنانے میں مقابلہ بازی کرنا ، بازاروں کا قریب ہونا ، قتل و غارت کا عام ہونا ، اچانک اموات کا واقعہ ہونا ، دین کو دنیوی متاع کے عوض بھیجنا ،دنیا کی محبت اور موت سے نفر ت کرنا ، گمراہ حکمرانوں کا ظہور ہونا، زلزلے بہت ہونا ، یہودو نصاریٰ کی مشابہت شروع کرنا وغیرہ وغیرہ ۔
اگر ہم ان نشانیوں کو من جملہ طور دیکھیں تو یہ سب تو ظاہر ہوچکی ہیں ۔ اب خالص بڑی نشانیوں کا پورا ہونا باقی ہے، جیسے امام مہدی کا ظہور ہونا اس وقت جب دنیا ظلم سے بھر چکی ہو تو وہ زمین کو امن وآشتی سے اس طرح بھر دیں گے جیسے وہ ظلم سے بھر گئی تھی۔ وہ تقریباً 7-9 سال تک حکمرانی کریں گے، وہ نبی ﷺ کی اولاد میں سے ہوںگے اور نام بھی آپؐ کے نام پر ہی ہوگا اور کنیت بھی ۔ اس کے بعد اچانک دجال کا ظہور ہوگا جو خراسان سے نکلے گا ،جو عراق اور شام کے درمیان کی ایک جگہ ہے۔ وہ اُس وقت رب کے حکم کے مطابق سمندر میں زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ وہ وہاں سے ریگستان سے نکلے گا اور70,000یہودی اور اس کے ماننے والے وہاں اس کا انتظار کررہے ہوں گے ۔ آج اگر ہم دیکھیں تووہاں پہلے ہی بہت سے لوگ جمع ہوئے ہیںاور اس کا انتظار کررہے ہیں ۔ وہ جب نکلے گا تو اس کے دائیں بائیں اس کی بنائی ہوئی جنت و جہنم ہوں گے اور لوگوں کو اپنی طرف بلائے گا اور کہے گا کہ میں ہی تمہارا رب ہوں ۔جن لوگوں نے اس کا انکار کیا تو انہیںاپنی جہنم میں ڈالے گا اور جو لوگ اس کے ماننے والے ہوں گے انہیں اپنی جنت میں ڈالے گا ۔ اس دور کے مومن کو پہلے ہی معلوم ہوگا یہ دجال ہے، اس لئے کہ اس کے ماتھے پر ’’  ک۔ف۔ر ‘‘ کندہ ہوگا اور وہ ایک آنکھ سے کانا بھی ہوگا۔ وہ چاروں طرف تباہی ہی تباہی مچائے گا۔ وہ مدینہ شریف جانے کی کوشش بھی کرے گا لیکن اللہ کے قانون کے مطابق وہاں کے پہاڑو ں پر پہلے ہی فرشتے مقرر کئے ہوں گے جو اس کو داخل ِمدینہ منورہ نہیںہونے دیں گے ۔پھرحضرت عیسیٰ ؑ بحیثیت اُمتی آسمان سے اُتریںگے اور مسجد اقصیٰ میں فجر کے وقت نازل ہوں گے ،جس میں امام مہدی نمازِ فجر پڑھائیں گے۔ نماز فجر کے بعد کفار کو قتل کیاجائے گا۔ اس وقت زمین گواہی دے گی ، پیڑپودے گواہی دیں گے کہ میرے پیچھے کافر ہے، اسے قتل کر ڈال ، پتھر بھی گواہی دیں گے ۔ پھر لدّ کے مقام پر حضرت عیسیٰ ؑ دجال کا قتل کریںگے اور پھر عیسیٰ ؑ بھی انتقال فرمائیں گے۔ وہ چالیس سال تک زندہ رہیںگے ۔  انہیں کے دور میں یاجوج و ماجو ج کا خروج ہوگا جو چاروں طرف تباہی در تباہی پھیلائیں گے اور دنیا کا سارا پانی پی جائیںگے حتیٰ کہ وہ دیکھیں گے کہ ایک انسان کے جسم سے خون بہہ رہا ہے تو اس کو پینے کے لئے وہ باقی انسانوں کا قتل کرکے ان کا خون پی جائیں گے ۔ وہ آج اس دیوارکے پیچھے ہیں،جس کو ذوالقرنین نے تعمیر کرایا تھا۔ ان کا امیر ہر رات یہی کہتاہے کہ کل ہم دنیاکے لوگوں کے ساتھ ملاقات کریں گے مگر اللہ کے حکم سے وہ رات میں ہی دیواردوبارہ پوری ہوجاتی ہے جس رات ان کا امیر یہ کہہ کہ ’’ان شاء اللہ ‘‘ کل ہم دنیا کے لوگوں کے ساتھ ملاقات کرین گے تو اس کے اگلے روز ہی وہ دنیامیں داخل ہوں گے ۔ ان کی تباہیوں کے بعد مسلمان حضرت عیسیٰ ؑ سے دعا کروائیں گے کہ اے اللہ! انہیں ہم سے ہٹا ۔ اجابت دعا کے ساتھ ہی رب ان کی گردنوں میں جراثیم ڈال دے گا اور وہ خود کو خروشتے خروشتے مرجائیں گے ۔ اس کے بعد جلد ہی آسمان سے دھواں ظاہر ہوگا جو کافروں اور منافقوں کے آنکھوں اور کانوں کو بے کار بنا دے گالیکن مومن پرا س کا کچھ بھی اثر نہیں ہوگا ۔ اس کے بعد سورج طلوع من المغرب ہوگا ،یہ سلسلہ چالیس سال تک رہے گا۔ اس کے بعدجلد ہی دابتہ الارض کا ظہور ہوگا ،جو مومن اور کافروں کے ساتھ کلام کرے گا ،جیسے کہ حضرت عباسؓ نے فرما یا کہ وہ کافر اور مومن کی پیشانی پر لکھ دے گا’’کافر‘‘ و ’’مومن‘‘۔اس کے بعد جلد ہی زمینیں تین جگہ دھنس جائیں گی ۔ ایک مغرب کی جگہ دوسرا جزیرۂ عرب ،تیسرا مشرق کی جانب سے ۔ پھر ایک ہو ا چلے گی جس سے باقی سب لوگ مرجائیں گے اور کچھ وقت کے بعد حضرت اسرافیل ؑصور پھونکیں گے اور لوگ قبروں سے اُٹھائیں جائیں گے ۔ سب سے پہلی قبر جو کھلے گی، سب سے پہلا شخص جو قبر سے اُٹھا یا جائے گا ،وہ حضرت محمد ﷺ ہوں گے ۔ اسی طرح یمن سے ایک آگ ظاہر ہوگی، جو دنیا کے تمام لوگوں کو ملک شام کی طرف بھگائے گی اور ملک شام میں جمع کروائے گی۔ اس وقت سب ننگے بدن ہوں گے۔ جوانی کی حالت میں ہوں گے اور اگر کوئی عورت حمل سے ہوتو اُسے یہ تک پتہ نہ چلے گاکہ اس کا بیٹا کب تولد ہوا اور وہ بھی محشر کی طرف دوڈے گا ۔ وہاں سب اپنی اپنی فکر کررہے ہوں گے ۔وہاں نہ باپ بیٹے کا ہوگا نہ بیٹا باپ کا ۔اس دن سورج قریب ہوگا ،رب کے سوال ہوں گے اور بندے کے جواب۔ ایک دن ہزار سال کے برابر ہوگا۔ سورج کی تپش سے لوگ اپنے پسینے میں غرق ہورہے ہوں گے ۔ پیغمبران کرام ؑ تک کپکپائین گے ،سب نفسی نفسی کررہے ہوں گے ،صرف ایک شافع محشر پیغمبرﷺ اُمتی اُمتی پکارتے ہوں گے ۔ جو مومن کامیاب ہوں گے وہ جنت کو جائیں گے اور جو کافر ، منافق ، مشرک ہوں گے تو ان کے لئے جہنم کا عذاب برحق ہے ۔ بہت سارے لوگ مختلف شکلوں میں اُٹھائے جائیں گے جیسے تکبر کرنے والا چیونٹی کی شکل میں اُٹھایا جائے گا ، امام کی اقتداء پوری طرح نہ کرنے والا گدھے کی شکل میں اُٹھا یا جائے گا، بدکار لوگ تو سوراور بندروں کی شکل میں اُٹھائے جائیں گے اور اپنے اپنے اعمال کے مطابق اس امت کے نیک لوگوں کو وضوء کے اعضاء چمکتے ہوں گے۔
افسوس جو لوگ مسلمان ہونے کے باوجود جہنم میں ہوں گے ، انہیں نبی اکرم ؐسفارش وشفاعت سے جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا۔ وہاں جنتی جس چیز کی خواہش کریں وہ اسے حاصل ہوگی ۔ آخر پر رب اپنے بندوں کو یادد لائے گاکہ کوئی اور نعمت کی ضرورت تو نہیں ہے، تو بندہ وہا ں کی نعمتوں میں یہ بھول جائے گا کہ مجھے کسی اور نعمت کی بھی ضرورت ہے ۔ بار بار یاد دلانے پر رب اپنے دیدار کے بارے میں فرمائیںگے تو جنتی کہیں گے :ہاں ہمارے رب! آج ہمیں اپنا دیدار نصیب فرما ، تو رب اپنا پردہ ہٹا کے دیدارکرائے گااور جنتی دیکھتے ہی رہ جائیں گے اور کہیں گے : اے رب! توُ تو سب سے سچا ہے اور اپنے وعدوں کو پورا کرنے والا ہے ۔ جنت و جہنم کے فیصلے کے بعد موت کو ذبح کیا جائے گا۔ موت کو جنت و جہنم کے درمیان سب لوگوں کے سامنے ذبح کیا جائے گا اور اعلان کیا جائے گا کہ آج کے بعد موت نہیں آنے والی۔جو جہنم میں ہیں وہ وہیںاو رجو جنت میں ہیں، وہ جنت میں ہی رہیں گے۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمیں ایسی  مومنانہ و موحدانہ زندگی نصیب فرمائے کہ جو ا س کی بندگی سے معمور ہو اور دنیا وآخرت کے خدائی انعامات سے آسودہ وبہرہ مند ہو(آمین )