آج بھی ہندوستانی مسلمان اور انصاف پسند عوام کے جذبات بابری مسجد مقدمہ سے جڑے ہوئے ہیں:ارشدمدنی

Taasir Urdu News Bureau: Uploaded | 28 Apr 2018

نئی دہلی27 اپریل(پریس ریلیز) بابری مسجد ملکیت تنازعہ کی سماعت آج دو پہر دو بجے چیف جسٹس کی سربراہی والی بینچ کے سامنے شروع ہوئی جس کے دوران جمعیة علماءہند کی جانب سے سینئروکیل راجو رام چندرن نے اپنی بحث کا آغاز کیا اور عدالت کو بتایا کہ اس معاملے میں کئی ایک پیچیدگیاں ہیں جس کا لحاظ رکھتے ہو ئے اس مقدمہ کی سماعت کثیر رکنی بینچ کے سپرد کردینا چاہئے نیز انہوں نے ڈاکٹر اسماعیل فاروقی فیصلہ میں ہوئی غلطیوں کی نشاندہی کی اور عدالت سے اس معاملے پر از سر نو غور کرنے کی گذارش کی ۔جمعیة علماءہند کی جانب سے گذشتہ کئی سماعتوں سے بحث کرنے والے سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیو دھون خرابی صحت کی وجہ سے آج عدالت کے سامنے حاضر نہیں ہوسکے جن کی غیر موجودگی میں راجو رام چندرن نے بحث کی۔ امید ہے کہ معاملے کی اگلی سماعت پر ڈاکٹر راجیو دھون اپنی نا مکمل بحث کو پورا کریں گے۔ ایڈوکیٹ راجو رام چندرن نے دوران بحث عدالت کو بتایا کہ سینئر ایڈوکیٹ ہریش سالوے کا یہ کہنا کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعدسے ملک کے حالات تبدیل ہوچکے ہیں اور اس معاملے کی اتنی اہمیت نہیں رہ گئی ہے جتنی عدالت میں میں بتائی جا رہی ہے بالکل بھی درست نہیں ہے ، آج بھی مسلمانوں اور ملک کے انصاف پسند عوام کے جذبات اس مقدمہ سے جڑے ہوئے ہیں ۔عیاں رہے کہ آج جمعیة علماءکے وکیل راجو رام چندرن کی بحث کے بعد ہندو تنظیموں کی نمائندگی کرتے ہوئے ہریش سالوے نے کہاکہ عدالت میں کہنا کہ اس معاملے سے دو کمیونیٹی کے جذبات جڑے ہوئے ہیں اور اس کے اثرات پورے ملک پر پڑیں گے کوئی جواز نہیں ہے اس معاملے کو کثیر رکنی بینچ کے حوالے کرنے کے لیئے نیزہمیشہ سے یہ ہوتا رہا ہے کہ ہائی کورٹ کے فیصلوں پر نظر ثانی تین رکنی بینچ ہی کرتی ہے ۔ہریش سالوسے نے عدا لت کو مزید بتایا کہ عدالت عظمی کو جذبات کو کنارے رکھ کر اس مقدمہ کا فیصلہ کرنا ہوگاکیونکہ یہ ایک زمین کی ملکیت کا مقدمہ ہے، ہریش سالوے کی اس بات کا سخت جواب دیتے ہوئے کہاکہ حالانکہ یہ ایک زمین کے ملکیت کا معاملہ ضرور ہے لیکن اس زمین کی بہت اہمیت ہے کیونکہ وہاں مسجد تھی جسے دن دھاڑے شہید کردیا گیا لہذا عدالت کو ان سب باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ہوگا اور معاملے کی نوعیت کے مد نظر اس مقدمہ اسے کثیر رکنی بینچ کے حوالے کرنا چاہئے ۔دوران بحث راجو رام چندرن نے عدالت کے سامنے ۳۲ ایسے حکم ناموں کو پیش کیا جب عدالت نے بابری مسجد سے کم نوعیت اور اہمیت کے معاملات پانچ یا سات ججوں کی بینچ پر کیئے جانے کا حکم نامہ جاری کیا تھا ۔جمعیةعلماءہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے وکلاءکی بحث پر نہ صرف اطمینان کا اظہار کیا ہے بلکہ اس موقف کی تائید بھی کی ہے کہ اس معاملہ کو ایک کثیر رکنی بینچ کے حوالہ کیا جانا چاہئے انہوں نے کہا کہ ہم قانون اور عدلیہ پر مکمل اعتمادرکھتے ہیں ، اور امید کرتے ہیں کہ بابری مسجد کی ملکیت کے مقدمہ میں تمام شواہد اور ثبوتوں کو مدنظررکھتے ہوئے عدالت اس کی بنیادپر ہی اپنا فیصلہ دیے گی ، مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ بلاشبہ اس مقدمہ سے مسلمانوں اور ملک کے تمام انصاف پسند لوگوں کے جذبات وابستہ ہیں اس لئے فریق مخالف کے وکیل کا یہ کہنا سراسر غلط بات کہ اب یہ معاملہ زیادہ اہمیت کاحامل نہیں رہا انہوںنے کہا کہ معاملہ کی اہمیت آج بھی اتنی ہی ہے جتناکہ روز اول تھی اس لئے کہ یہ تنہا ایک مسجد کا معاملہ نہیں بلکہ ملک کے سیکولر اور جمہوری کردارسے جڑا ہوا معاملہ ہے اور آئین وقانون کی بالادستی کا بھی کیونکہ ہرشخص جانتا ہے کہ کس طرح جبرا ایک مسجد کو شہید کرکے آئین وقانون کے رہنما اصولوں کی دھجیاں اڑادی گئی تھی ۔چیف جسٹس دیپک مشراءکی سر براہی والی تین رکنی بینچ میں جسٹس عبدال نظیر اور جسٹس بھوشن شامل ہیں نے کے روبرو آج جمعیة علماءکی جا نب سے راجو رام چندرن نے بحث کی جبکہ ہندو فریقین کی جا نب سے ایڈوکیٹ ہریش سالوے، ایڈوکیٹ مہاجن ، ایڈو کیٹ ششیل جین و دیگر نے کی، آج کی کارروائی کے بعد عدا لت نے معاملے کی اگلی سماعت ۵۱ مئی تک ملتوی کردی ۔ بابری مسجد کی ملکیت کے تنازعہ کو لیکر سپریم کورٹ آف انڈیا میں زیر سماعت پٹیشن نمبر 10866-10867/2010 پر بحث میں جمعیة علماءکی جانب سے سینئر وکیل راجو رام چندرن نے بحث کی جبکہ ان کی معاونت کے لیئے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ جارج، ایڈوکیٹ تانیا شری، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے ، ایڈوکیٹ قراة العین، ایڈوکیٹ مجاہد احمد و دیگر موجود تھے ۔