تاریخی لال قلعہ کا سودا؟

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 30-Apr-2018

تاریخی اہمیت کی حامل عمارتیں ملک کی شان ہو تی ہیں اس لئے متعلقہ حکومتیں تاریخی عمارتوں کے تحفظ اور رکھ رکھاﺅ کا بہتر سے بہتر انتظام کر تی ہیں ۔دہلی کا لال قلعہ بھی ایسی ہی اہم عمارتوں میں شامل ہے ۔اس عمارت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتاہے کہ اسی لال قلعہ کی فصیل سے ملک کے وزیر اعظم یوم آزادی کے موقع پر قوم سے خطاب کر تے ہیں ۔ اور قومی پرچم لہراتے ہیں ۔اس تاریخی عمارت کو حال ہی میں مرکزی حکومت نے ایک معاہدہ کے تحت ڈالمیا گروپ کو پانچ برسوں کیلئے سونپ دیاہے ۔یہ معاہدہ مرکزی حکومت کیلئے گذشتہ سال ستمبر میں لانچ کئے گئے منصوبہ اڈاپٹ اے ہیری ٹیج (وراثت کو گود لیں ) کے تحت اسی ماہ طے پایا ہے ۔معاہدے کے مطابق ڈالمیاگروپ نے پانچ سال کیلئے لال قلعہ کو گود لے لیا ہے ۔اس کے عوض کمپنی حکومت کو 25کروڑ روپے ادا کر ے گی ۔اور آئندہ پانچ برسوں تک اس تاریخی عمارت کے رکھ رکھاﺅ کی ذمہ داری نبھائے گی ۔اورسیاحوں کوبہتر سہولیات مہیا کرائے گی ۔لال قلعہ کو گود لینے کے لئے انڈیگو ایئر لائنس اور جی ایم آر جیسی کمپنیاں بھی مقابلے میں تھی مگر بازی ڈالمیا گروپ نے ماری ۔
حکومت نے لال قلعہ کے انتظام و انصرام کا کام کسی نجی کمپنی کو کچھ سوچ کر ہی سونپا ہوگالیکن اس کا یہ فیصلہ کانگریس ،سی پی آئی ایم ،ترنمول کانگریس اورآر جے ڈی جیسی اپوزیشن کی پارٹیوں کو بالکل راس نہیں آیاہے ۔کانگریس نے اس فیصلے کو ہدف تنقید بناتے ہوئے حکومت سے جاننا چاہاہے کہ کیا حکومت کو پیسے کی کمی ہوگئی ہے یا لال قلعہ جیسی تاریخی عمارت کے رکھ رکھاﺅ میں اس کی دلچسپی نہیں رہ گئی ہے ؟اور کیا لال قلعہ کے بعد حکومت پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کو بھی کسی پرائیوٹ کمپنی کے حوالے کرے گی ؟سی پی آئی ایم نے حکومت کے اس فیصلے کی سخت تنقید کر تے ہوئے کہا ہے کہ ملک کے عظیم ثقافتی ورثہ کی نج کاری ہر گز نہیں ہونی چاہئے ۔ مرکزی حکومت اس طرح کی عمارت کو کسی پرائیوٹ کمپنی کے ہاتھ کیسے سونپ سکتی ہے ؟جس کمپنی کے ساتھ اس کا سودا ہواہے وہ لال قلعہ کا تجارتی استعمال کرے گی ۔اور لال قلعہ میں منعقد ہونے والے ہر پروگرام میں اپنے نام کا استعمال کرے گی ۔ترنمول کانگریس کی سربراہ اورمغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے حکومت کے فیصلے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے سوال کیا ہے کہ کیا ہماری حکومت تاریخی لال قلعہ کی دیکھ بھال بھی نہیں کر سکتی ہے ؟لال قلعہ ہماری قومی علامت ہے ۔یہاں یوم آزادی کے موقع پر قومی ترنگا لہرایا جاتاہے ۔اسے لیز پر کیسے دیا جاسکتاہے ؟آر جے ڈی کے رہنما تیجسوی یادو نے بھی اس فیصلے کا مذاق اڑا تے ہوئے ٹیوٹر پر لکھا اب وزیر اعظم کی یوم آزادی کی تقریب بھی پرائیویٹ کمپنی کی ملکیت یا کنٹرول والے اسٹیج سے ہوگی ۔
حالانکہ اپوزیشن کے اعتراضات کا حکومت کی طر ف سے جواب دیتے ہوئے وزیر ثقافت مہیش شرما نے کہاہے کہ صدر جمہوریہ نے 2017کے عالمی یوم سیاحت کے موقع پر مرکزی حکومت کے ایک منصوبے کا اعلان کیا تھا کہ جو کوئی بھی تاریخ عمارتوں کے رکھ رکھاﺅ میں کسی طرح کی حصہ داری نبھانا چاہتاہے وہ آگے آسکتاہے ۔اسی پیشکش کے تحت یہ معاہدہ ہواہے ۔اور معاہدے کے تحت لال قلعہ کی کچھ خدمات کو ڈالمیا گروپ کے حوالے کیا گیا ہے ۔یہ کوئی منافع کمانے والے سرگرمی نہیں ہے ۔لیکن ایسا لگتاہے کہ اس جواب سے اپوزیشن اور عوام میں سے کوئی بھی مطمئن نہیں ہیں ۔کیوں کہ یہ سوال اب بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ یہ کام خود حکومت کیوں نہیں کر سکتی ہے ؟لال قلعہ کوئی معمولی عمارت نہیں ہے جس کا ذمہ کسی کو بھی محض 25کروڑ روپے میں سونپ دیاجائے ۔کون نہیں جانتا کہ 1857کی پہلی جنگ آزادی اسی لال قلعہ کی فصیل سے آخری مغل بادشاہ بہادر شا ہ ظفر نے لڑی اور آزادی کے بعد پہلی بار ترنگا اسی قلعہ سے لہرایا گیا۔اس لئے یہ قلعہ ملک کی آزادی کی علامت ہے ۔جس کی حفاظت اور رکھ رکھاﺅ حکومت پر لازم ہے ۔اعتراض اور تشویش کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ڈالمیا گروپ نہ صرف اس عمارت کا استعمال اپنے برانڈ کی تشہیر کیلئے کرے گا بلکہ مختلف سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے چھوٹی موٹی تعمیرات اور توڑ پھوڑ بھی کرے گا۔ اس طرح کی کارروائی سے عمارت کو نقصان ہو سکتاہے ۔اس کے علاوہ اور اس طرح کا سودا دوسری اہم اور حساس نوعیت کی عمارتوں کا بھی ہو سکتاہے ۔جو بعد میں کسی بڑے تنازعہ کا سبب بھی بن سکتاہے ۔اس لئے حکومت کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی کر نی چاہئے ۔اور کسی تنازعہ سے بچنے کی کوشش کر نی چاہئے ۔