خون کے قطرے سے مرض کی شناخت کرنے والی ڈبہ نما تجربہ گاہ

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 30-Apr-2018

ڈبے نما چھوٹی سی لیبارٹری دوردرازعلاقوں اورپسماندہ خطوں میں کئی امراض کی کامیاب نشاندہیخون کے ایک قطرے سے کرسکتی ہے، یہاں تک کہ اس سے خسرے اورریوبیلا کی اینٹی باڈیز بھی شناخت کرسکتی ہے۔ اسے ایم آر باکس کا نام دیا گیا ہے جس میں ایم کا مطلب میزلس اور آر کا مطلب ریوبیلا ہے لیکن اسے دیگرامراض کی شناخت کےلیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں ایک اہم چپ کو انک جیٹ پرنٹرز اور تھری ڈی پرنٹنگ مشینوں سے کم خرچ میں تیار کیا گیا ہے۔

ابتدائی طور پر اس باکس لیب کو کینیا میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں آزمایا گیا ہے جہاں بچوں اور بڑوں میں اس کی افادیت نوٹ کی گئی، تاہم اس کے تخلیق کاروں نے کہا ہے کہ بہت جلد ڈبہ لیبارٹری میں تبدیلیاں لاکر اسے کئی امراض کی شناخت کےلیے بھی استعمال کیا جاسکے گا۔ اس طرح یہ تجربہ گاہ ان امراض کی وبا پھوٹنے یا تحقیق کی صورت میں لاتعداد جان بچانے میں کام آئے گی۔

کسی مرض کی اینٹی باڈی کی شناخت کا مطلب یہ ہے کہ آیا وہ شخص پہلے اس مرض کا شکار ہوا ہے یا پھراس مرض کے خلاف ویکیسن لگوا چکا ہے۔ اس طرح کسی علاقے میں اس مرض کی وبا کو سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے۔ اس چھوٹی سی لیبارٹری کے ذریعے بہت کم خرچ میں خسرے کے سیمپل 86 فیصد اور ریوبیلا کی 91 فیصد کامیابی سے شناخت کئے گئے ہیں۔ یعنی پہلے نمونوں کو اس آلے سے شناخت کیا گیا اور پھر انہی نمونوں کو ایک باقاعدہ لیبارٹری میں بھیجا گیا تھا۔ اس طرح دونوں کے نتائج میں بہت کم فرق دیکھا گیا تھا۔

واضح رہے کہ یہ دونوں امراض وبا کی صورت میں پھیلتے ہیں اور ان کا نوالہ عموماً غریب عوام بنتے ہیں جہاں طبی سہولیات عموماً کئی گھنٹوں کی مسافت پر ہوتی ہیں۔ اس طرح فوری طور پر ہزاروں لاکھوں افراد کی جانیں بچانا ممکن ہوگا۔ دنیا بھر میں لاکھوں کروڑوں متاثرین دربدر ہیں۔

ہر سال خسرے کا وائرس  134,000 افراد کی جان لیتا ہے جبکہ ایک لاکھ بچے ریوبیلا سے متاثر ہوکر کسی نہ کسی عیب کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں اور ان دونوں امراض کو ویکسین کے ذریعے ٹالا جاسکتا ہے۔