عمر کی تحدید غلط

مرکز کی نریندر مودی حکومت نے کٹھوعہ ،اناﺅ اور سورت سمیت پورے ملک میں کمسن بچیوں کی عصمت دری کے بڑھتے ہوئے واقعات اور اس کے خلاف ملک گیر اور بے نظیر عوامی غم وغصہ اور احتجاج کو دیکھتے ہوئے بچوں کے خلاف جنسی جرائم کی روک تھام سے متعلق قانون پاکسو میں ترمیم کرکے 12سال سے کم عمر بچوں، بچیوں کی آبرو ریزی کا ارتکاب کرنے والوں کو سزائے موت دینے کا قانون بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور فی الوقت چونکہ پارلیمنٹ کی کارروائی نہیں چل رہی ہے اس لئے اس قانون کو فوری طور پرنافذ کرنے کیلئے آرڈیننس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ وزیراعظم نریندر مودی کی صدارت میں ان کی رہائش گاہ پر ہوئی مرکزی کابینہ کی میٹنگ میں لیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی ضابطہ فوجداری کے متعلقہ دفعات میںتبدیلی کرتے ہوئے کم سنوں کی عصمت دری کے معاملے میں پیشگی ضمانت کی گنجائش کو ختم کردیا گیاہے۔
یہ فیصلہ اپنے آپ میں ایک تاریخی اور انقلابی فیصلہ ہے مگر اس کا خیرمقدم اس طرح نہیں ہوسکا ، جس طرح ہونا چاہئے تھا۔ کیونکہ اس سے صرف 12 سال سے کم عمر کی بچیوں کو ہی راحت ملے گی۔ اس سے زیادہ عمر کی بچیوں کے سلسلے میں ابھی بھی قانون ڈھیلا ڈھالا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس فیصلے پر کالجوں اور یونیورسٹیوں کی طالبات نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عصمت دری ایک ناقابل معافی گناہ ہے ۔ اس لئے اس کی سزا بلاتحدید عمر سزائے موت ہونی چاہئے۔ یعنی وہ اس بات سے بالکل خوش نہیں ہیں کہ مجوزہ قانون میں عمر کی حد 12 سال رکھی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پھر ان جیسی لڑکیوں کے تحفظ کی کیا ضمانت ہے؟عمر کی کوئی حد ہونی ہی نہیں چاہئے۔ متاثرہ کی عمر چاہے جو بھی ہو عصمت دری کے قصوروار کی سزا ،سزائے موت ہونی چاہئے۔ تبھی لوگوں میں خوف پیدا ہوگا اور وہ عصمت دری جیسے سنگین جرم سے بچنے کی کوشش کریںگے۔ ابھی جو صورتحال ہے اس میں اگر متاثرہ کی عمر 12 سال سے کچھ ماہ بھی زیادہ ہوئی تو قصوروار سزائے موت سے صاف بچ جائے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس قانون کے نفاذ کے بعد کچھ زیادہ عمر کی لڑکیوں کے خلاف جنسی زیادتی کے واقعات بڑھ جائیں۔
ہم نے اسی کالم میں پہلے بھی اس بات پر زور دیا تھا کہ ہندستان میں عصمت دری کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کیلئے ضروری ہے کہ اسلام جیسے قانون سے روشنی حاصل کی جائے اور ایسا سخت قانون بنایا جائے جس سے مجرموں میں خوف پیدا ہو اور وہ جرم کے ارتکاب سے پہلے سو بار سوچنے پرمجبور ہوجائے۔ قانون سازوں کا اسلام سے بھلے ہی کوئی تعلق نہ ہویا وہ اسلام کو قابل تقلید مذہب نہ مانتے ہوں ،لیکن اگر کسی بیماری کا علاج اسلام میں ہے تو اس سے استفادہ کرنے میں کیا حرج ہے؟ ابھی تک 16 سال سے کم عمر کی بچیوں کے جنسی استحصال کے معاملے میں سزا کی حد بڑھانے کا فیصلہ کیا گیاہے۔ اسے اگر عمر قید میں بھی تبدیل کردیا جائے تب بھی وہ بات نہیں پیدا ہوگی جو اسلامی قانون میں ہے۔ عصمت دری کی سزا بلاامتیاز عمر سزائے موت ہونی ہی چاہئے۔ اس کے علاوہ اس میں قانونی عمل بہت طویل اور پیچیدہ نہیں ہونا چاہئے۔ فاسٹ ٹریک کورٹ سے معاملے کو جلد ازجلد انجام تک پہنچاکر زانی کو کیفر کردار تک پہنچانے کا نظم ہونا چاہئے۔ تبھی اس قانون کا مطلب ہوگا۔ ہمارے ملک میںپیسے اور پاور کے زور پر جس طرح میڈیکل رپورٹ یا عصمت دری کے بعد قتل کی صورت میں پوسٹ مارٹم رپورٹ کو بدلنے کی روایت ہے اسے بھی ختم کرناہوگا۔ کیونکہ مجرم ہر قانون سے بچنے کا طریقہ بھی نکال لیتا ہے۔ اس لئے عصمت دری کے معاملے میں اسلامی قانون کو من وعن نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ تبھی اس لعنت کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔کیا ہمارے ملک کے قانون ساز اس تجویز پر سنجیدگی سے غور کریںگے؟