موجودہ غذائی نظام اور اسلامی ہدایات

مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی
اسلام فطری دین ہے، یہ نہ صرف انسان کی اخروی کامیابی وکامرانی کا ضامن ہے؛ بلکہ اس کے دونوں جہاں کی فلاح وبہبود کا راز بھی اسی میں پنہاں ہے، جو شخص مکمل اسلامی تعلیمات کو اپنا وظیفۂ حیات اور زندگی کا اوڑھنا وبچھونا بنالیتا ہے، نہ صرف وہ اپنے لئے ذخیرہ آخرت اکٹھا کر لیتا ہے ؛ بلکہ ساتھ ہی ساتھ اسے دنیوی سعادت ونیک بختی بھی حاصل ہوتی ہے، اسلام کے تمام احکام اور ساری ہدایات فلاحِ دارین کے باعث ہیں، اسی کو اللہ عزوجل نے یوں فرمایا : ’’جس نے کیا نیک عمل خواہ وہ مرد ہو یاعورت اور وہ ایمان پر ہے، تو ہم ان کو زندگی دیں گے، اچھی زندگی ‘‘(النحل : ۹۴) مطلب یہ ہے کہ جو مرد وعورت بھی ایمان او رمعرفتِ صحیحہ کے ساتھ نیکی کے عادی ہوں گے، اسلام کے ہر حکم کو اپنی زندگی میں نافذ کریں گے تو ہم انہیں پاک، ستھری اور مزیدار زندگی عطا کریں گے، یعنی حلال رزق، غنائے نفس وقناعت، سکون وطمانینت سے سرفراز کریں گے۔
ہم درج ذیل تحریر میں موجودہ انسان کے غذائی نظام او راس حوالے سے اسلامی نقطۂ نظر اور نسانی صحت جسمانی اور اس کے بگاڑ وخراب کے وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں : موجودہ دور میں انسان نے جو انواع واقسام کے کھانے، نت نئی غذائیں، رنگی برنگی ڈشش، چٹ پٹے اور مزیدار مرغن غذائیں اپنی غذائی نظام میں شامل کر لی ہیں، یہ ا نسان کی صحتِ جسمانی اور اس کے نظامِ ہضم کے لئے بالکل غیر موزوں اور ضرر رساں ہیں، یہ کہہ دیں تو بے جا نہ ہوگا کہ آج کا انسان خواہشات کا غلام اور اسیر ہوچکا ہے، وہ اپنی ذت اور اپنی صحتِ جسمانی سے بے بہرہ ہے، وہ اپنے غذائی نظام میں شامل اشیاء کے حوالے سے مفید وغیر مفید کا اندازہ کئے بغیر اپنی زبان کی لذت کی تکمیل کی راہ پر گامزن ہے، گذشتہ زمانے میں جن بیماریوں کا نام ونشان نہیں تھا، جن کے تعلق سے ہم نے کبھی سنا نہیں تھا، یہ بیشتر امراض انہیں مصنوعی اور خوشنما غذاؤں اور ان کے منفی اثرات کے نتائج ہیں، ان غذاؤں کی وجہ سے انسان کے نظام ہضم او رمعدہ پر زبردست چوٹیں پڑتی ہیں، انسان کا دفاعی نظام بالکل معطل ہو کر رہ جاتا ہے۔
دراصل ہمیں یہاں اسلام نے غذاؤں اور کھانے پینے کے حوالے سے اعتدال ومیانہ روی پر مبنی جو ہدایات او ررہنمایانہ خطوط بیان کئے ہیں، اس کا ذکر مقصود ہے، جس پر عمل پیرا ہو کر صحتِ جسمانی کی بہترین حفاظت ونگہداشت کی جاسکتی ہے۔
(۱) کھانے پینے کے حوالے سے اسلام کا سب سے پہلا نقطۂ نظر یہ ہے کہ کھانوں اور غذاؤں کا استعمال یہ مقصود بالذات نہیں ہے، (یعنی زندگی کھانے کے لئے نہیں، کھانا زندگی کے لئے ہے ) ایک مسلمان کے کھانے پینے کا مقصد لذت اندوزی یا حظ نفس نہیں ہوسکتا، یہ کھانے پین سے مقصود صرف لذت کام ودہن کی تکمیل یہ ایک غیر کا مقصود تو ہوسکتا ہے، ایک مومن کامل کا نہیں ؛ بلکہ اس کا مقصود تقوّی علی العبادۃ( عبادت کے کے لئے قوت وطاقت کا حصول ) ہوتا ہے، اسی حوالے سے ارشادِ باری عزوجل ہے : ’’ کافر لذت اندوزی کرتے ہیں اورکھاتے ہیں جیسے جانور کھاتے ہیں، ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا‘‘( محمد: ۱۲)کافروں کا کھانا پینا حیوانوں کی طرح ہے : اس جملہ کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ جس طرح چوپایوں کو یہ تمیز نہیں کہ ان کا کھانا حلال ذرائع سے آیا ہے یا حرام ذرائع سے اسی طرح کافروں کو بھی یہ تمیز نہیں ہوتی، چوپائے جہاں سے بھی ملے کھا لیتے ہیں انہیں اپنے بیگانے کی تمیز نہیں ؛نیز کمزور جانور کو مار دھاڑ کر طاقتور جانور کمزوروں کا کھانا بھی خود کھا جاتے ہیں، یہی حال کافروں کا ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ جانوروں یا چوپایوں کا کھانا کھانے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ وہ اپنی بھوک دور کریں اور اپنی زندگی کو باقی رکھیں۔ کافروں کا بھی کھانے سے اتنا ہی مقصد ہوتا ہے، اس سے آگے وہ یہ نہیں سوچتے کہ اللہ نے ہمیں جو عقل اور تمیز چوپایوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ دی ہے آخر یہ کیوں دی گئی ہے؟اس کے ورء الوراء بھی بے شمار مقاصد ہیں، اللہ کی عبادت وبندگی وغیرہ(تیسیر القرآن)۔
(۲) اسلام نے غذاؤں کے استعمال کے حوالے سے عدل واعتدال اور میانہ روی کے اختیار کرنے کو کہا ہے نہ کہ شتر بے مہار کی طرح جہاں چاہے چرتا چگتا پھرے ؛ بلکہ اللہ عزوجل نے صحت جسمانی کی حفاظت ونگہداشت کا سب سے پہلے حکم کیا ہے کہ یہ زندگی اور صحت یہ اللہ عزوجل کا انعام ہے، اس میں کسی قسم کا تغییر بندے کے عمل سے آئے اور عبادات اور اعمال اور اللہ کی رضاجوئی کے لئے رکاوٹ بنے یہ اللہ عزوجل کی امانت کے خیانت کے مترادف ہے، لہٰذا مومن کے لئے یہ بالکل زیب نہیں دیتا کہ وہ غذاؤں کے استعمال کے حوالے سے کوئی ایسا اقدام کر گذرے جس کا راست اثر اس کے صحت جسمانی اور اس کے اطاعت واعمال پر پڑتا ہو، اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے : ’’ اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو‘‘( البقرۃ : ۱۹۴)
غذاؤں میں بے اعتدالی کے نتیجے میں ایک عام مرض جو انسانی زندگی کو لاحق ہورہا ہے وہ’’ موٹاپا ‘‘ہے، جو دیگر امراضِ خبیثہ کا باعث بن رہا ہے، جب کہ یہ کھانے پینے میں بد احتیاطی، بے جا افراط، احتیاطی تدابیر کو نہ اپنانے، بے وقت کھانے، مختلف غذاؤں اور ان کے اثرات ونتائج کوپیش نظر نہ رکھنے کی وجہ سے پیدا ہورہا ہے، آج کل اطباء کھانے پینے میں کمی، احتیاط کا مشورہ نہیں دیتے جو کہ دراصل اس مرض کے در آنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتا ہے ؛ بلکہ وہ موٹاپے کے در آنے کے بعد ورزش، چہل قدمی وغیرہ کا مشورہ دیتے ہیں، جب کہ اسلام اور احادیث نبوی میں کھانے پینے میں افراط سے ہی منع کیا گیا ہے، جو کہ موٹاپے کے درآنے اور اس کے نتیجے میں نظام ہضم میں خلل کی وجہ سے مختلف امراض کے جنم لینے کا سبب ہوتا ہے، آج کل جدید ذہنیت نے تین وقت کے علاوہ اور بھی ’’ٹیم پاس‘‘ اور ’’وقت گذاری‘‘ یا ’’تفریحِ طبع ‘‘ یا ’’چائے نوشی‘ ‘ کے وغیرہ کے نام سے مختلف چٹ پٹے غذاؤں کانظام چلارکھاہے، جو کے انسان کی صحت کے لئے نقصاندہ اور باعث ضرر ثابت ہورہا ہے۔