بالی وڈ میں ادھیڑ عمر میں محبت پر فلم کیوں نہیں بنتی؟

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 21-May-2018

‘ کبھی اس کے کھانے کی تعریف نہیں کی، سوچا اسے پتہ ہوگا’

‘کبھی اس سے یہ نہیں کہا کہ تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو، سوچا اسے پتہ ہوگا۔

‘کبھی یہ نہیں کہا کہ میں اس سے پیار کرتا ہوں، سوچا اسے پتہ ہوگا’

یہ مکالمے 52 سال کے ایک شخص (اداکار سنجے مشرا) کے ہیں جو روزانہ دفتر جاتے ہیں۔ نوکری کرتے ہیں اور خاندان کا خیال رکھتےہیں۔ ان کے لیے شادی کا بس یہی مطلب ہے۔

لیکن ان کی بیوی انھیں صرف ذمہ داری کہتی ہیں، محبت نہیں۔ انھیں اس کے ساتھ زندگی میں تھوڑی سی محبت بھی چاہیے۔

ہمارے معاشرے میں محبت، عشق، رومانس جیسے سارے الفاظ اور جذبات و احساسات کو لڑکپن اور نوجوانوں سے منسلک کر کے دیکھا جاتا ہے لیکن کیا 40 یا 50 کی عمر کے بعد زندگی میں محبت کی ضرورت یا گنجائش نہیں رہ جاتی؟ اگر ہوتی بھی ہے تو دنیا بھر کے مسائل۔ نوکری، گھر اور خاندان کے درمیان کہیں کھو سی جاتی ہے؟

رواں ہفتے ‘انگلش’ میں کہتے ہیں’ فلم دیکھنے کے بعد ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا۔

اس فلم میں تین جوڑوں کی کہانی ہے جن کے لیے محبت کے مختلف معانی ہیں۔

کہانی 52 سالہ یش بترا (سنجے مشرا) اور ان کی بیوی کرن (اكاولی) کے گرد گھومتی ہے جن کی زندگی میں اب کوئی رومانس بچا ہی نہیں۔

وہ کوئی ولن نہیں ہے، لیکن درمیانی عمر میں بھی محبت ہوتی ہے اور اسے بتایا جاسکتا ہے کہ یہ شاید اس نے سیکھا نہیں ہے۔

درختوں کے ارد گرد گھومتے، ڈسکو میں جاتے، کبھی چوری چوری تو کبھی کھلم کھلا عشق فرماتے جوان جوڑوں کی کہانی پر مبنی بہت سی ہندی فلمیں مل جائیں گی، لیکن بڑی عمر میں محبت کی کہانی والی کہانیوں کو کم ہی جگہ ملتی ہے۔

اگر اصل زندگی کی بات کریں تو سنہ 2011 میں اداکارہ سوہاسنی مولے نے 60 سال کی عمر میں محبت کی شادی کی تھی۔ وہ بھی حیران تھیں کہ ان کی شادی ایک بڑا مسئلہ کیوں بن گئی اور لوگوں نے انھیں ‘فیمینزم آکون’ بنا دیا۔

اگر اس طرح کا کوئی منظر یاد آتا ہے تو وہ سنہ 1965 میں آنے والی فلم ‘وقت’ کا گیت ‘اے میری زہرہ جبیں’ جو ادھیڑ عمر کی محبت کو الفاظ کا جامہ پہناتا ہے

یا پھر سنہ 2007 میں آنے والی فلم ‘ہنی مون ٹریولز’ جس میں کئی جوان جوڑے ہنی مون کے لیے جا رہے ہیں اور انھی کے درمیان ایک بومن ایرانی اور شبانہ اعظمی کا جوڑا ہے۔ دونوں درمیانی عمر کے ہیں، ان کے پاس بچے ہیں اور دونوں کی یہ دوسری شادی ہے۔

فلم میں ایک سین ہے جہاں بومن ایرانی کے دل میں کوئی پرانی یاد تازہ ہو جاتی ہے اور وہ نئی دلہن شبانہ کو سڑک کے درمیان زور سے گلے لگاتے ہیں اور چومتے ہیں۔

دونوں کو زندگی نے بہت زخم دیے اور پیار کا دوسرا موقع بھی دیا اور وہ عمر کو اس میں آڑے نہیں آنے دینا چاہتے۔

فلم ‘دل چاہتا ہے’ میں ایک مڈل ایج کی طلاق شدہ خاتون (ڈمپل كپاڑيا) کی کہانی بھی ہے جو اکیلی ہے اور اس کی تنہائی کا ساتھی اس کا پڑوسی (اکشے کھنہ) بنتا ہے جو عمر میں اس سے چھوٹا ہے۔ لیکن دونوں کی نامکمل محبت میں عمر حائل نہیں ہے۔

اسی طرح کی ایک فلم شرمیلا ٹیگور اور انوپم کھیر ‘مارننگ واک’ ہے۔

اپنی پوتی کے پاس کچھ دن کے لیے رہنے آئے انوپم کھیر جب ایک دن مارننگ واک پر جاتے ہیں تو ان کی ملاقات شرمیلا ٹیگور سے ہوتی ہے جو جوانی میں ان کی قریبی دوست ہوا کرتی تھی۔ فلم کی کہانی ان دو بڑی عمر کے لوگوں کے ماضی اور مستقبل کو ٹٹولتي ہوئے آگے بڑھتی ہے۔

باسو چیٹرجی کی فلم ‘کھٹا میٹھا’ مزاحیہ انداز میں اس رشتے کی عکاسی کرتی ہے۔

اس فلم میں اشوک کمار کی بیوی کا انتقال ہو گیا ہے اور وہ بڑی عمر میں ایک ساتھی کے خواہاں ہیں جو ان کے چار بیٹوں کا بھی خیال رکھے لیکن جب وہ پارسی بیوہ سے شادی کرتے ہیں تو ان کے بچے ان سے ناراض ہو جاتے ہیں۔

سنہ 2004 میں دو جوان دلوں کی محبت کی کہانی پر مبنی فلم ‘نوٹ بک’ آئی تھی۔ اس انگریزی فلم میں ایک شخص ایک نرسنگ ہوم میں پڑی بوڑھی عورت کو ایک نوٹ بک یا ڈائری سے روز کہانی سناتا ہے۔

اپنی آخری سانس گننے والی خاتون کو نسیان یا ڈیمنشیا ہے اور اسے روزانہ کہانی سنانے والا کوئی اور نہیں بکہ اس کا شوہر اور محبوب ہے اور وہ اس کی اپنی زندگی کی حقیقی کہانی ہے۔

دل کے دورے کے بعد اسے بھی اسی ہسپتال میں داخل کرایا جاتا ہے اور نصف رات کو وہ اپنے کمرے سے نکلتا ہے اور اپنی محبوبہ اور بیوی کے ڈیمنشیا وارڈ میں جاتا ہے۔

دھندلی یادداشت کے درمیان ایلی اسے پہچان لیتی ہے اور پھر دنوں ہاتھ پکڑ کر ایک بستر پر لیٹ جاتے ہیں۔

انڈیا میں پیار کے اظہار کے طریقے مختلف ہیں۔ اور ابھی نغمہ نگار اندیور کا سالوں پرانا ایک گیت ذہن میں ابھرتا ہے۔

نہ عمر کی سیما ہو، نہ جنم کا ہو بندھن

جب پیار کرے کوئی، تو دیکھے کیول من

نئي ریت چلا کر تم، یہ ریت امر کر دو

ہونٹوں سے چھولو تم، میرے گیت امر کر دو