عالمی یومِ آزادیِ صحافت: کیا صحافیوں پر ہونے والے حملوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے؟

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 04-May-2018

سال 1990 سے لے کر اب تک دنیا بھر میں 2500 صحافیوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے اور تین مئی کو آزادی صحافت کے عالمی دن صحافتی حقوق کی نمائندگی کرنے والی تنظیموں کے مطابق صحافیوں کو نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

30 اپریل صحافیوں کے لیے بہت سخت دن تھا جب افغانستان میں دو علیحدہ واقعات میں 10 صحافیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

پہلے کابل میں ایک خودکش دھماکے کے بعد جب جائے وقوع پر صحافی جمع ہوئے تو 15 منٹ کے بعد وہاں پر خود کو صحافی کی طرح پیش کرنے والے ایک اور خودکش بمبار وہاں پر حملہ کر دیا۔

شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی جس میں نو صحافی ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔

دوسری جانب، اسی دن افغانستان کے خوست کے علاقے میں بی بی سی کے نمائندے احمد شاہ کو موٹر سائیکل پر سوار دو نامعلوم افراد نے ان کے گھر کے نزدیک قتل کر دیا۔

انٹرنیشنل فیڈریشن برائے جرنلسٹس (آئی ایف جے) کے مطابق ان دونوں واقعات میں ہلاک ہونے والے صحافیوں کے بعد سال 2018 میں اب تک 32 صحافیوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے۔

آئی ایف جے کے اعداد و شمار کے مقابلے میں یہ تعداد گذشتہ سال جنوری سے لے کر مئی تک ہلاک کیے جانے والے صحافیوں سے ایک تہائی زیادہ ہے۔

ان کو دیکھتے ہوئے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا صحافت کا پیشہ زیادہ خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔

کئی صحافتی تنطیمیں گذشتہ دو دہایئوں سے صحافیوں کی ہلاکت، اغوا اور گمشدگی کے اعداد و شمار جمع کر رہی ہیں۔ اس ریکارڈ میں صحافیوں کے علاوہ ان کے مقامی مددگار، ترجمان اور ڈرائیورز شامل ہیں۔

آئی ایف جے کے مطابق گذشتہ سال 82 صحافیوں کو ہلاک کیا گیا تھا اور یہ تعداد پچھلے دس سالوں میں سب سے کم تھی۔

ماہرین کہتے ہیں کہ ان سالوں میں ہلاک کیے جانے والے صحافیوں کی تعداد میں کمی بیشی اس دور میں ہونے والے واقعات کی نشاندہی کرتے ہیں۔

نوے کی دہائی میں مرنے والے صحافیوں کی تعداد زیادہ تھی اور یہ وہ دور تھا جب الجزائر، سابق یوگوسلاویہ اور افریقی ملک روانڈا میں خانہ جنگی جاری تھی۔ اس کے بعد بتدریج کمی دیکھنے میں آئی لیکن پھر 2003 میں عراق جنگ کے شروع ہونے کے بعد تعداد میں ایک بار پھر اضافہ ہوا اور 2006 اور 2007 صحافیوں کے لیے سب سے خطرناک سال ثابت ہوئے تھے جب بالترتیب 155 اور 135 صحافیوں کو قتل کیا گیا۔

ان تجزیہ نگاروں کے مطابق گذشتہ سال کی کم تعداد اس لیے نہیں ہے کہ حالات بہتر ہوئے ہیں بلکہ اس کی وجوہات کچھ اور ہیں۔

صحافتی حقوق کی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) کے رابرٹ ماہونی نے کہا ہے کہ ‘شام اور عراق میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے بڑھتے ہوئے اثر کے بعد صحافیوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا ہے۔’

سال 2012 میں کئی صحافیوں کے اغوا اور قتل کے بعد صحافتی اداروں نے خطرناک مقامات پر اپنے نمائندہ بھیجنے کم کر دیے تھے ۔

رابرٹ ماہونی کے مطابق صحافتی اداروں کے اس فیصلے کے بعد مقامی صحافیوں اور صحافتی عملے ان حملوں کی زد میں زیادہ آنے لگے۔

گذشتہ سال ہلاک ہونے والے صحافیوں میں زیادہ تعداد ان کی تھی جو سیاسی کرپشن اور منظم جرائم کے بارے میں تحقیق کر رہے تھے۔

رابرٹ ماہونی کے مطابق گذشتہ چھ سال صحافیوں کے لیے نہایت خطرناک رہے ہیں۔

‘ہلاک ہونے والے صحافیوں میں کئی صحافی ایسے ہیں جنھیں اُن کے کام کی وجہ سے باقاعدہ نشانہ بنایا گیا۔’

سی پی جے کے نمائندے کے مطابق فلپائن، روس اور میکسیکو ایسے ممالک ہیں جہاں صحافیوں کو شدید خطرہ لاحق ہے لیکن ان ممالک میں کسی قسم کی کوئی خانہ جنگی نہیں ہو رہی ہے۔

آئی ایف جے کے سینئیر اہلکار ارنسٹ سگاگا کہتے ہیں کہ افغانستان اور میکسیکو میں جنگجؤں کے مقاصد میں فرق ہو سکتا ہے لیکن دونوں جگہ یہ گروہ ان مقاصد کے حصول کے لیے صحافیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔

اس کے علاوہ یورپی ممالک مالٹا اور سلواکیا میں صحافیوں کو نشانہ بنائے جانے والے واقعات کا کافی چرچا ہوا ہے جہاں ہلاک ہونے والے صحافی ملک میں بڑے پیمانے پر ہونے والی کرپشن پر تحقیق کر رہے تھے۔

رابرٹ ماہونی کہتے ہیں ‘یہ واقعات ایسے رجحان کی جانب اشارہ کرتے ہیں جہاں ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ قتل کا حکم دینے والے لوگوں کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جاتا۔’

آئی ایف جے کے سینیئر اہلکار ارنسٹ سگاگا کہتے ہیں کہ افغانستان اور میکسیکو میں جنگجؤں کے مقاصد میں فرق ہو سکتا ہے لیکن دونوں جگہ یہ گروہ ان مقاصد کے حصول کے لیے صحافیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔

اس کے علاوہ یورپی ممالک مالٹا اور سلواکیا میں صحافیوں کو نشانہ بنائے جانے والے واقعات کا کافی چرچا ہوا ہے جہاں ہلاک ہونے والے صحافی ملک میں بڑے پیمانے پر ہونے والی کرپشن پر تحقیق کر رہے تھے۔

رابرٹ ماہونی کہتے ہیں ‘یہ واقعات ایسے رجحان کی جانب اشارہ کرتے ہیں جہاں ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ قتل کا حکم دینے والے لوگوں کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جاتا۔’

قتل کیے جانے والے صحافیوں کی تعداد کے علاوہ ان خطرات کی نشاندہی کرنے کے لیے ایک اور واضح اشارہ صحافیوں کی گرفتاری اور جیل قید کے حوالے سے اعداد و شمار ہیں۔

صرف گذشتہ سال دنیا بھر میں 262 صحافیوں کو جیل کی سزا ہوئی تھی اور یہ تعداد گذشتہ تین دہائیوں میں سب سے زیادہ ہے۔

ارنسٹ سگاگا کہتے ہیں کہ یہ گرفتاریاں خوف پھیلانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں اور اس سے جیل میں جانے والے صحافیوں کی آواز سلب کر دی جاتی ہے اور باہر صحافیوں کو پیغام مل جاتا ہے۔’

واضح رہے کہ ان عداد و شمار کے مطابق ترکی میں 73 صحافی جیل میں ہیں جبکہ چین میں تعداد 41 اور مصر میں 20 ہے۔