چین کا کاروباری دنیا پر راج کرنے کا منصوبہ

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 09-May-2018

چین نے حال ہی میں اپنا مسافر بردار طیارہ متعارف کرایا ہے جبکہ اس سے قبل وہ 400 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی بلٹ ٹرین بھی متعارف کرا چکا ہے۔

اس کے علاوہ سمارٹ روڈز نامی جدید ترین سڑکوں سے لے کر روبوٹس اور سیٹلائٹ کے میدان میں بھی چین نے اپنی تکنیکی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے۔ سمارٹ روڈ پر بجلی سے چلنے والی گاڑیاں از خود چارج ہوتی رہتی ہیں۔

چین میں، ایپل، جنرل موٹرز، ووکس ویگن اور ٹویوٹا جیسی کمپنیاں اپنے تحقیقی مراکز اور فیکٹریاں چلا رہی ہیں۔

در اصل یہ سب کچھ ’میڈ ان چائنا -2025′ منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد چین کو صنعت اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں طاقتور بنانا ہے۔

چین نے واضح انداز میں کہا ہے کہ وہ اپنے ملک کی سستے جوتے، کپڑے اور کھلونے فراہم کرنے والی شبیہ تبدیل کرنا چاہتا ہے۔

چین چاہتا ہے کہ وہ ان ممالک کی فہرست سے نکلے جو سستی مزدوری کے لیے جانے جاتے ہیں اور ایسا ملک بنے جس کی شہرت ایک انجینیئروں کے ملک کی ہو۔

چین سنہ 2025 تک اپنے میڈ ان چائنا منصوبے کو عملی جامہ پہنا کر دنیا پر اپنا دبدبہ قائم کرنا چاہتا ہے۔

چین کے اس منصوبے پر امریکہ کو کچھ اعتراضات ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خیال ہے کہ چین ‘ٹیکنالوجی کی چوری’ کر رہا ہے۔

امریکہ نے اسے قومی سلامتی اور کاروباری دنیا میں آزادانہ مقابلے کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔

امریکہ اور چین کے درمیان یہ مسئلہ ایک تنازعے کی شکل اختیار کر چکا ہے اور دونوں ممالک ‘تجارتی جنگ’ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

حال ہی میں امریکہ اور چین نے ایک دوسرے کے یہاں سے درآمد کی جانے والی بعض اشیا پر محصول میں اضافہ بھی کر دیا ہے۔

امریکہ چینی صدر شی جن پنگ کی حکمت عملی سے فکر مند ہے۔ امریکہ کے وزیر تجارت ولبر راس نے اس حکمت عملی کو ‘خوفناک’ قرار دیا ہے۔

انھوں نے چین کے متعلق کہا کہ ‘وہ دنیا کی فیکٹری تھے اور اب عالمی ٹیکنالوجی کا مرکز بننا چاہتے ہیں۔’

چین اپنی خواہشات کو جائز کہتا ہے اور امریکہ کے الزامات مسترد کرتا ہے۔

چین کے وزیر مالیات ژو گوانگیو کہتے ہیں: ‘معاملہ قومی سلامتی کا نہیں بلکہ امتیازی سلوک کا ہے۔’

’چین سرمایہ دارانہ ملک کیسے بنا‘ یا ‘ہاؤ چائنا بکیم کیپٹلسٹ’ نامی کتاب کے شریک مصنف ننگ وانگ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میڈ ان چائنا منصوبہ چین اور دوسرے ممالک کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔

انھوں نے مزید کہا کہ چـونکہ چین نے دنیا کو سب سے زیادہ ڈاکٹریٹ دی ہے اس لیے زیادہ جدت پیدا کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔

بہرحال وہ خبردار کرتے ہیں کہ اس میں سرکاری کمپنیوں پر زیادہ توجہ مرکوز ہوگی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اس سکیم کی کامیابی کے لیے نجی کمپنیوں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔’

بیجنگ نے سنہ 2015 میں اس حکمت عملی کا اعلان کیا تھا لیکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ ایک طویل عرصے سے ان کے ذہن میں تھا۔

چینی ٹیکنالوجی پالیسی کے ماہر ڈگلس فُلر کہتے ہیں: ‘اس پروگرام میں کافی پیسہ لگایا جا رہا ہے، اس کے ساتھ ہی غیر ملکی کمپنیوں پر براہ راست یا بالواسطہ طریقے سے ٹیکنالوجی کی منتقلی کا دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔’

ٹیکنالوجی کی منتقلی مختلف طریقوں سے کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر کسی غیر ملکی کمپنی کو چین میں داخل ہونے کے لیے مقامی کمپنی کے ساتھ شراکت داری کرنی ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ، چین اپنی حکمت عملی کے تحت غیر ملکی کمپنیوں کو خریدتا بھی ہے۔ جیسے چینی کمپنی گیلی، مرسڈیز بینز کی ملکیت والی جرمن کمپنی ڈیملر میں سب سے بڑی شراکت دار بن گئی ہے۔

اس کے علاوہ چین کے کئی قوانین ایسے ہیں جو ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیوں وہاں مستقل طور پر رہنے کے لیے ہیں۔.

مثال کے طور پر ایپل چین میں ایک مقامی کمپنی کے ساتھ اپنا پہلا ڈیٹا سٹوریج مرکز کھولنے والی ہے اور اسے چینی حکومت کے نئے قوانین پر عمل کرنا ہوگا جس کے تحت کمپنی تمام اہم معلومات فراہم کرے گا۔

بہر حال فلر نے اس منصوبے میں شامل خطرات کا بھی ذکر کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں: ‘چین اپنے اس منصوبے کی تکمیل کے لیے سرکاری کمپنیوں کو منتخب کرے گا اور زیادہ سے زیادہ ٹیکنالوجی خریدنے کی کوشش کرے گا۔ لیکن یہ چین کے لیے بہت آسان نہیں ہو گا کیونکہ واشنگٹن، برسلز، ٹوکیو، سیول یا تے پيئی ایسا آسانی سے نہیں ہونے دیں گی۔

فلر کہتے ہیں کہ ‘چین صرف اپنا فائدہ چاہتا ہے۔ وہ دوسرے ممالک کی حکومتوں اور اداروں کے لیے زیادہ فائدہ مند ثابت نہیں ہو گا۔ انوویشن سینٹرز ہمیشہ چین کی نیت کے متعلق تشویش میں رہیں گے۔‘

بیجنگ میں ایک قانونی فرم ولمرہیل سے منسلک اور امریکہ-چین چیمبر آف کامرس کے رکن لیسٹر راس کہتے ہیں: ‘چین کی سکیم تمام کمپنیوں کے لیے منصفانہ قوانین والا میدان مہیا نہیں کرتی۔’

بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے راس نے کہا: ‘چین زیادہ رعایت یا سبسڈی دے کر مارکیٹ خراب کر رہا ہے۔‘

میڈ ان چائنا کو سٹریٹیجک شعبے میں گھریلو بازار کے 70 فیصد حصے کو سنہ 2025 تک اپنے قبضے میں لینے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اس مقصد کے حصول کے لیے چین کو کئی مشکلات کا سامنا ہے۔

اسے بین الاقوامی رکاوٹوں سے نمٹنے کے ساتھ اس بات کا بھی خیال ہونا چاہیے کہ اس کے مدمقابل ممالک اس سے کئی سال پہلے ہی اس میدان میں اتر چکے ہیں۔

اس کے باوجود، دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت کو قبل از وقت اس منصوبے کے نفاذ سے بہت سے فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔