کرناٹک انتخابات: کانگریس کے ان لیڈروں نے بگاڑ دیا بی جے پی کا کھیل

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 21-May-2018

نئی دہلی۔ کانگریس صدر راہل گاندھی کے پارٹی کے اندر نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرنے اور انہیں آگے بڑھانے کی پالیسی اپنانے کے باوجود کرناٹک میں جنتا دل (ایس) کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے کے فارمولے کو انجام تک پہنچانے کی حکمت عملی میں پارٹی کے سینئر لیڈر ہی کام آئے۔ کانگریس کے سینئر لیڈر اور راجیہ سبھا میں حزب اختلاف کے رہنما غلام نبی آزاد، پارٹی کے جنرل سکریٹری اشوک گہلوت، لوک سبھا میں پارٹی کے لیڈر ملک ارجن کھڑگے سمیت کئی سینئر لیڈر اسمبلی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد سے ہی کرناٹک میں ڈٹے رہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو ہر محاذ پر گھیرتے رہے۔

اسمبلی انتخابات کے پورے نتائج آنے سے پہلے ہی رجحانات کی بنیاد پر پارٹی کے سینئر رہنماؤں نے جے ڈی -ایس کے ساتھ اتحاد ی حکومت بنانے کی حکمت عملی بنائی اور جے ڈی ایس کے لیڈر ایچ ڈی كمارسوامي کی قیادت میں مخلوط حکومت بنانے کے لئے اراکین اسمبلی کی فہرست کے ساتھ دعوی پیش کیا۔ گورنر نے اپوزیشن پارٹیوں کے اس دعوے کو نظر انداز کر کے بی جے پی کو سب سے بڑی پارٹی ہونے کا فائدہ دیتے ہوئے اس کے لیڈر بی ایس يدیورپا کو حکومت کی تشکیل دینے کے لئے مدعو کیا تو معاملے کو عدالت لے جانے کی ساری حکمت عملی بنانے میں پارٹی کے سینئر رہنماؤں نے اہم رول نبھایا۔ ان لیڈروں نے اس کے لیے نہ صرف کرناٹک میں دن رات ایک کر دیا بلکہ عدالت میں مقدمے کی پیروی کرنے میں بھی سینئر لیڈر ہی کام آئے۔

معاملے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کی حکمت عملی میں  پی چدمبرم، ابھیشیک منو سنگھوی اور کپّل سبل جیسے کئی سینئر لیڈروں نے اہم کردار نبھایا۔ کرناٹک میں کانگریس اور جے ڈی ایس کے ممبران اسمبلی کو متحد رکھنے کی حکمت عملی میں بھی پارٹی کے سینئر رہنماؤں کا کردار رہا۔ يدیورپا کو گورنر نے جب 16 مئی کی رات خط سونپ کر 17 مئی کی صبح نو بجے حلف لینے کے لئے مدعو کیا اور انہیں 15 دن میں اکثریت ثابت کرنے کو کہا تو سنگھوی نے گورنر کے فیصلے کو غیر آئینی بتا کر آدھی رات کو ہی معاملے کی سماعت کے لئے عدالت پر زور دیا۔ عدالت عظمی نے ان کے اصرار کو قبول کرتے ہوئے معاملے کی سماعت کی اور يدیورپا سے 19 مئی کی شام چار بجے تک اکثریت ثابت کرنے کو کہا۔

کانگریس کے سینئر رہنماؤں کی سیاسی مہارت کا ہی نتیجہ رہا کہ پوری طاقت جھونکنے کے باوجود بی جے پی وہاں حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہوئی اور وزیر اعلی يدیورپا کو حلف لینے کے محض تین دن کے اندر استعفی دینا پڑا۔