جموں وکشمیر میں بی جے پی۔ پی ڈی پی اتحاد ختم ہونے پر کیا کہتا ہے یہاں کا اردو میڈیا

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 20-June-2018

جموں وکشمیر میں پی ڈی پی کے ساتھ گٹھ بندھن سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے الگ ہونے کے فیصلہ کی خبر کو ریاست کے اردو اخبارات نے شہ سرخی بنائی ہے اور اسے نمایاں انداز میں شائع کیا ہے۔ کشمیر کے مشہور اردو اخبار کشمیر عظمیٰ نے اس واقعہ کی کچھ اس طرح سے شہ سرخی لگائی ہے: مخلوط سرکار کا محل زمیں بوس۔ اس سرخی کے تحت اخبار لکھتا ہے کہ جموں وکشمیر میں تین سال پہلے قائم ہوئی پی ڈی پی۔ بی جے پی مخلوط حکومت بھاجپا کی جانب سے حکومت سے الگ ہونے کے ساتھ ہی تلخ سیاسی ماحول میں اختتام کو پہنچی۔ وہیں، اخبار کے آج کے اداریہ کی سرخی لگائی گئی ہے حکمراں اتحاد کے خاتمہ کی وجوہات: حقیقت کتنی اور کتنا فسانہ؟ اداریہ میں لکھا گیا ہے کہ ریاست میں گورنر راج کا تازہ دور ایک ایسے وقت شروع ہوا جب ریاست خاص کر وادی ایک نازک دور سے گزر رہی ہے اور صورت حال انتہائی مخدوش بنی ہوئی ہے۔ اداریہ میں لکھا ہے کہ گرچہ رمضان سیز فائر کے بڑے چرچے ہوئے لیکن اعداد وشمار پر نظر ڈالیں تو رمضان کا مہینہ کسی بھی طرح سے پر امن نہیں رہا اور اس ماہ میں تشدد کے گراف میں اضافہ ہی ہوا۔

اداریہ میں مزید کہا گیا ہے کہ ایسی صورت حال میں بی جے پی کا حکومت سے الگ ہونے کا فیصلہ اور اس سلسلہ میں اس نے جو تاویلیں پیش کی ہیں، ان سے کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ بی جے پی نے ریاست خاص کر کشمیر کے حالات کو بہتری کی جانب گامزن کرانے میں ناکامی کا ٹھیکرا پی ڈی پی کے سر پھوڑا ہے، اس پر سوال کھڑے کرتے ہوئے اداریہ میں کہا گیا ہے کہ جس حکومت پر آپ ناکامی کا الزام لگا رہے تھے کیا آپ اس حکومت کا حصہ نہیں تھے؟ یہ سوال بھی کیا گیا کہ اگر محبوبہ مفتی عسکریت پر قابو پانے میں ناکام ہوئیں تو کیا اس کے لئے آپ بھی برابر کے ذمہ دار نہیں ہیں؟ اگر جموں اور لداخ کے ساتھ استحصال ہوا تو کیا یہ آپ کا قصور نہیں ہے کیونکہ حکومت کے سبھی فیصلے آپ کی رضامندی سے لئے گئے تھے۔

اداریہ میں مزید کہا گیا ہے کہ بہر حال بی جے پی قیادت اب کوئی بھی عذر پیش کرے لیکن یہ سچائی اپنی جگہ برقرار ہے کہ اس حکومت کے یہ ساڑھے تین سال کسی بھی طور پر مفاہمت سے عبارت نہیں رہے بلکہ اس مدت میں آپریشن آل آوٹ کی صورت میں ایسی جارحانہ پالیسی اپنائی گئی کہ وادی کشمیر ایک مستقل ماتم کدے میں تبدیل ہو گئی جہاں روز پرتشدد واقعات کی وجہ سے جنازے اٹھ رہے تھے۔

وہیں، روزنامہ چٹان نے اس خبر کی شہ سرخی کچھ اس طرح لگائی ہے: ریاست کی سیاست میں سونامی، بی جے پی نے حمایت واپس لے لی، مخلوط حکومت کا خاتمہ۔ خبر میں لکھا گیا ہے ریاست کی سیاست میں منگل کو اس وقت بھونچال آ گیا جب مخلوط حکومت میں شامل بی جے پی نے حکومت سے اپنی حمایت واپس لیتے ہوئے ریاست سے لے کر نئی دلی تک سب کو حیرت میں ڈال دیا۔ جموں وکشمیر میں منگل کی دوپہر اس وقت سیاسی سطح پر زلزلہ آیا جب مخلوط حکومت کی ساجھے دار بھارتیہ جنتا پارٹی نے حکومت سے اپنی حمایت واپس لے کر سیاسی گلیاروں میں ہلچل مچا دی۔

دوسری طرف، محبوبہ مفتی کی سیاسی معزولی کے عنوان سے اخبار نے ایک طویل مضمون شائع کیا ہے جس میں اتحاد سے الگ ہونے کے بی جے پی کے فیصلہ کو ڈرامائی نوعیت کا ایک اہم فیصلہ قرار دیا گیا ہے۔ پی ڈی پی پر نشانہ سادھتے ہوئے مضمون میں کہا گیا ہے کہ اسے سیاسی اہمیت کی حامل سرجیکل اسٹرائک سے تعبیر کیا جا رہا ہے اور کہا گیا کہ اس اسٹرائک میں پی ڈی پی تذلیل کن انداز میں چارے شانے چت ہو گئی۔ محبوبہ پر طنز کستے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہنسی کی بات تو یہ ہے کہ امت شاہ نے حکومت میں شامل اپنے ریوڑ کو دلی بلایا اور معمولی سیاسی سدھ بدھ رکھنے والوں تک نے بھانپ لیا کہ پی ڈی پی حکومت جانکنی کی حالت سے دوچار ہونے والی ہے مگر خوش فہمی کی شکار محبوبہ مفتی حکومت پر منڈلا رہے خطرات کو بروقت محسوس نہ کر سکیں۔ مضمون میں مزے لے لے کر لکھا گیا ہے کہ آج پی ڈی پی کی حالت حسیب درابو کی جیسی ہو گئی ہے جنہیں بے خبری کے عالم میں کابینہ سے چلتا کر دیا گیا۔ پی ڈی پی بے آبرو ہو کر اقتدار کے کوچے سے نکال باہر کر دی گئی۔

مضمون میں مزید کہا گیا ہے کہ پی ڈی پی اب نہ گھر کی رہی نہ گھاٹ کی۔ وہ مرکز اور ریاست کے عوام دونوں کی نظر میں طلاق کی مستحق قرار پائی۔ بی جے پی نے پی ڈی پی کو تین طلاق دے دی جس سے وہ اب لوگوں کو منھ دکھانے کے لائق نہیں رہی۔

دوسری طرف، سری نگر سے شائع ہونے والے اخبار روشنی کے اداریہ کی سرخی ہے: تجربہ ناکام رہا۔ اداریہ کی شروعات کچھ اس طرح سے کی گئی ہے۔ ایک خاتون کو ریاست کے وزیر اعلیٰ کا منصب سونپ دینے کا تجربہ ناکام رہا۔ کیونکہ عوامی خواہشات، جذبات اور نظریات کو ایک طرف چھوڑ کر پی ڈی پی نے تین سال پہلے مفتی محمد سعید کی قیادت میں ایک ایسی سیاسی جماعت کے ساتھ سمجھوتہ کیا جس کی پالیسیوں سے ریاست خاص طور پر وادی کے لوگ زبردست مخالف تھے مگر اقتدار آڑے آ گیا اور ریاست کے وسیع مفادات کے نام پر بی جے پی کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے مخلوط حکومت تشکیل دے دی گئی۔

اداریہ میں لکھا گیا ہے کہ ریاست کے اعلیٰ منصب پر ایک خاتون کی تعیناتی کا تجربہ انتہائی ناکام اور غیر موثر ثابت ہوا کیونکہ اپنے تین سالہ دور حکومت میں محبوبہ کی قیادت والی گٹھ بندھن سرکار نے وادی کے عوام کو ہر محاذ پر دکھ ،درد، آہوں، پریشانیوں اور سسکیوں کے سوا اور کچھ بھی نہ دیا۔ ہاں البتہ جیل خانے ضرور بھر دئیے، نوجوانوں کی بینائی ضرور چھین لی۔ اداریہ میں کہا گیا ہے کہ پی ڈی پی اب ماضی کی ایک ناکام داستان بن کر رہ گئی ہے اور اب اس پر کوئی بھروسہ نہیں کرے گا۔