سرفراز کے کریز پہ آتے ہی سماں بدل گیا

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 13-June-2018

یونس خان جتنے بڑے بیٹسمین تھے، اتنے ہی بڑے کپتان بھی تھے۔ دباؤ میں فیلڈ سٹریٹیجی وضع کرنا ان کا خاصہ تھا۔ 2009 کا ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ اس کی بہترین مثال ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان کی کپتانی قلیل المیعاد ہی رہی۔

چند روز قبل ایک ٹی وی شو میں یونس خان یہ کہتے سنائی دیے کہ کپتانی ان کے بس کا روگ نہیں تھا، ان کا ٹیمپرامنٹ آڑے آتا تھا، اس لتے انھوں نے کپتانی چھوڑ دی تھی۔

یہ اس شماریاتی الٹ پھیر کا نفسیاتی اعتراف تھا جو کپتانی ملنے کے بعد یونس خان کے کرئیر سٹیٹس میں در آیا۔ کپتان بننے کے بعد بیٹسمین یونس خان کی فارم بگڑ گئی۔ عین ممکن ہے اگر ان کی کپتانی چلتی رہتی تو شاید دس ہزار ٹیسٹ رنز تک پہنچنا بھی دشوار ہو جاتا۔

جب حالات کسی پلئیر کو کپتانی کی طرف لے جاتے ہیں تو قیادت ملنے کے بعد سب سے بڑا نفسیاتی امتحان اس کی اپنی فارم کا ہوتا ہے۔ ایسا نہیں کہ قیادت کی ذمہ داری پڑتے ہی بیٹسمین بیٹنگ کرنا بھول جاتا ہے یا بولر بولنگ کرنا، بلکہ اضافی ذمہ داری اور زیادہ ایکسپوژر فوکس کرنے کی صلاحیت کو متاثر کر دیتا ہے۔

سرفراز احمد پاکستان کے خوش نصیب ترین کپتان ہیں۔ آتے ہی چیمپئینز ٹرافی جیت لی۔ ٹی ٹونٹی ٹیم کو نمبر ون رینکنگ پہ لے آئے۔ سری لنکا اور ویسٹ انڈیز کو ایک سے زیادہ بار کلین سویپ کر چکے ہیں۔ پچھلے دنوں لارڈز میں بھی تاریخی فتح حاصل کی۔

لیکن ایسی خوش نصیبی کے باوجود ان کی بیٹنگ فارم بہت مثبت نہیں رہی۔ گو ان کی تکنیک اور سٹائل وہی ہے جو چار سال پہلے تھا، لیکن کپتان بننے کے بعد وہ کوئی غیر معمولی اننگز نہیں کھیل پائے۔ وکٹوں کے پیچھے بھی ان کا ریکارڈ خوشگوار نہیں رہا۔

بڑے بیٹسمین جب تواتر سے پانچ دس اننگز میں ناکام ہو جائیں تو عموماً ان کے کپتان یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ وہ ’بس ایک بڑی باری‘ کی دوری پر ہے۔ فاف ڈو پلیسی نے کچھ عرصہ قبل ڈی ویلئیرز کے بارے یہی کہا تھا۔

لیکن سرفراز کے گرد شور ہی اتنا رہا کہ کسی کو یہ کہنا بھی یاد نہ رہا کہ سرفراز ’بس ایک بڑی باری‘ کی دوری پر ہے۔

پلئیرز کو یہ ’بڑی باری‘ یا تو بہت ہائی وولٹیج میچ میں ملتی ہے یا پھر بالکل لو پروفائل میچ میں کہ وہ ہر طرح کے پریشر سے آزاد ہو کر اپنی اصل شناخت کو کھوج سکیں۔

کل کے میچ میں سرفراز پہ کوئی پریشر نظر نہیں تھا۔ بڑے عرصے بعد وہ ایسے فلو میں اور اتنا کھل کر کھیلتے نظر آئے۔ بطور کپتان یہ ان کی پہلی ’دھواں دھار‘ اننگز تھی۔ کسی ایک لمحے کو بھی ان کا دھیان بٹنے کا شک نہیں ہوا۔

پاکستان کے متزلزل بیٹنگ آرڈر کے لیے اگلا بڑا امتحان ایشیا کپ ہے جہاں اس کا مقابلہ ایشین کنڈیشنز کے آزمودہ اٹیکس سے ہوگا۔ اس امتحان سے پہلے سرفراز کی بیٹنگ فارم کا عود کر آنا پاکستان کے لیے بہت بڑی خوش خبری ہے۔

سکاٹ لینڈ اپنی بیٹنگ سے نہیں، بولنگ سے ہارا۔ لیکن یہ تو حقیقت ہے کہ پہلے دس اوورز میں سکاٹ لینڈ نے بہت اچھی بولنگ کی۔ مگر سرفراز کے کریز پر آتے ہی سماں بدل گیا۔ وہاں سکاٹ لینڈ کی بجائے کوئی آزمودہ اٹیک بھی ہوتا تو یونہی اوسان خطا ہوتے۔