‘آزادی کے لیے اغوا کار کو اپنی محبت میں مبتلا کرنا پڑا‘

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 16-July-2018

برطانیہ کی ماڈل کلوئی ایلنگ گذشتہ سال چھ دنوں کے لیے اٹلی میں اغوا کر لی گئی تھیں اور جب وہ برطانیہ لوٹیں تو لوگ ان کی کہانی پر بھروسہ نہیں کر رہے تھے۔

انھوں نے وکٹوریہ ڈربی شائر کے پروگرام میں قید سے اپنے بچ نکلنے اور جو لوگ ان کی باتوں پر یقین نہیں کر رہے ہیں ان سے کس طرح سمجھوتہ کررہی اس بابت بات کی۔

وہ بتاتی ہیں کہ دو دنوں تک ایک الماری سے بندھے رہنے کے بعد انھوں نے اپنے اغوا کرنے والے کے ساتھ ہم بستری کے لیے رضامندی ظاہر کر دی۔

انھوں نے بتایا: ‘ہم جتنی بات کرنے لگے ہمارے تعلقات بننے لگے اور جب مجھے یہ احساس ہوا کہ وہ مجھے چاہنے لگا ہے تو میں نے سوچا کہ مجھے اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔’

جنوبی لندن کی 20 سالہ کلوئی ایلنگ نے کہا کہ گذشتہ سال جولائی میں 30 سالہ لوکاز ہربا نے انھیں ایک فوٹو شوٹ کے وعدے بہانے میلان بلا لیا۔

لیکن وہاں پہنچنے پر انھیں کیٹامائن کا انجیکشن دیا گیا، ان کے کپڑے اتار لیے گئے، ہاتھ باندھ دیا گیا اور ایک ہولڈال میں بھر کر کار کی ڈکی میں ڈال کر تقریبا دو سو کلومیٹر دور ایک سنسان فارم ہاؤس لے جایا گيا۔

کلوئی ایلنگ نے بتایا کہ جب وہ اس فارم ہاؤس پر پہنچیں تو انھیں ‘بہت خوفناک احساس’ ہوا اور لوکاز ہربا نے انھیں بتایا کہ اگر انھوں نے تین لاکھ یورو نہیں دیا تو ان کو جنسی غلام کے طور پر فروخت کر دیا جائے گا۔

انھوں نے بتایا: ‘میرا خیال تھا کہ وہ سب سچ سچ کہہ رہا ہے اور میں نے اس پر ایک سیکنڈ کے لیے بھی شک نہیں کیا کیونکہ وہ میرے سوال کا انتہائی تفصیلی جواب دے رہا تھا۔’

لیکن جب اس نے بوسہ دینے اور رشتہ قائم کرنے کے لیے کہا تو ‘میں نے سوچا کہ یہ میرا وہاں سے نکلنے کا اچھا موقع ہو سکتا ہے۔’

‘جب ہم نے مستقبل میں کیا کچھ ہو سکتا ہے کی بات کی اور اس پر اس کا ردعمل دیکھا تو مجھے احساس ہوا کہ ہمیں ایسا کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔ وہ میری باتوں پر پرجوش نظر آ رہا تھا اور اس کے بارے میں ہر وقت باتیں کرتا رہتا۔’

جب اسے احساس ہو گیا کہ اسے تاوان نہیں مل سکے گا تو اس نے کلوئی ایلنگ کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا اور میلان میں انھیں برطانوی قونصل خانے پہنچا دیا۔

عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ قونصل خانے کے کھلنے تک وہ دونوں ایک کیفے میں ہنسی مذاق کر رہے تھے۔

کلوئی ایلنگ نے کہا کہ ‘یہ کتنا عجیب لگتا کہ آپ اس آدمی کے ساتھ ترش روئی کے ساتھ برتاؤ کریں جو آپ کے لیے جذبات رکھتا ہو اور آپ پر بھروسہ کرکے آپ کو رہا کر رہا ہو۔

‘مجھے اس کو اپنی محبت میں گرفتار کرنے کے لیے سب کچھ کرنا پڑ رہا تھا۔’

پولینڈ کے شہری ہربا کو میلان کی عدالت میں سماعت کے بعد جون میں 16 سال اور نو ماہ کی قید کی سزا سنائی گئی۔

اپنے دفاع میں ہربا نے کہا وہ کلوئی ایلنگ سے پہلے مل چکے تھے اور ان کی محبت میں گرفتار ہو چکے تھے۔ انھوں نے کہا کہ وہ سکینڈل کے ذریعے انھیں زیادہ شہرت دے کر ان کے کريئر کو بڑھانے میں مدد کرنا چاہتے تھے۔

کلوئی ایلنگ نے بتایا: ‘میں اب تک اس کے مقصد کو پوری طرح نہیں سمجھ سکی۔ یہ صرف پیسے کا معاملہ نہیں ہے۔ وہ مجھے چن کر دو سال قبل فیس بک پر اپنا دوست کیوں بنائے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ بہت عرصے میرا تعاقب کرتا رہا ہے۔ یہ کسی قسم کی چاہت بھی ہو سکتی ہے۔’

جب وہ رہائی کے بعد برطانیہ لوٹیں تو انھوں نے ٹی وی رپورٹرز کے ساتھ اپنے گھر کے سامنے بات کی۔ بہت سے لوگوں نے انھیں خوش نظر آنے پر اور ان کے لباس کے انتخاب پر ان کی تنقید کی۔

انھوں نے کہا کہ وہ گھر آنے پر خوش تھیں کیونکہ انھیں خدشہ تھا کہ شاید وہ کبھی اپنا گھر دوبارہ نہ دیکھ سکیں اور وہ شارٹس اور ٹاپ میں ہوائی جہاز سے اتری ہی تھیں۔

انھوں نے وضاحت کی: ‘میں اپنے معمول کے انداز میں تھی۔ میں رپورٹرز کے سامنے اس لیے گئی کہ میں نے سوچا اس طرح وہ میرا پیچھا چھوڑ دیں گے لیکن ایسا ہوا نہیں۔

‘لوگ یہ چاہتے تھے کہ میں ہر وقت روتی پھروں اور خود کو دنیا سے الگ کر لوں، کیمرے کے سامنے نہ جاؤں۔ میں ایسا کر سکتی تھی لیکن پھر خیال آیا کہ اس سے میں خود کو بحال نہیں کر سکتی۔ اس کے بارے میں بات کرکے اور لوگوں کے ساتھ گھل مل کر میں اپنے طریقے سے اس سے باہر آنا اور آگے نکلنا چاہتی تھی۔’

غیر جذباتی ہونے کے الزام پر انھوں نے کہا کہ وہ خود کو اس سے علیحدہ کر رہی تھیں۔

انھوں نےکہا: ‘یہ ناقابل بیان احساس ہے کہ آپ کو آپ کی آزادی واپس ملے گی یا نہیں۔ میں اس کے بارے میں سوچنا نہیں چاہتی۔ اس لیے میں حقیقت سے روبرو رہی تاکہ مجھے یہ نہ سوچنا پڑے کہ میں اس وقت (اغوا کے دوران) کیسا محسوس کر رہی تھی۔’

کلوئی ایلنگ نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو قلمبند کیا ہے اور وہ کہتی ہیں کہ ہربا کی سزا کے بعد بھی لوگوں کا ان پر یقین نہ کرنا بہت ہی مضحکہ خیز ہے۔

وہ لوگوں کی ذہن سازی کا الزام میڈیا پر ڈالتی ہیں اور کہتی ہیں کہ انھیں خواتین کی جانب سے ہی زیادہ گالیاں سننی پڑ رہی ہیں۔

انھوں نے کہا: ‘جب انھیں یہ احساس ہوتا ہے کہ کوئی شخص متنازع ہے تو وہ ان کے بارے میں بہت کچھ تلاش کرتے ہیں اور اس شخص سے نفرت پیدا کرتے ہیں تاکہ انھیں زیادہ سے زیادہ دیکھا جائے۔

‘یہ بہت تکلیف دہ ہے کیونکہ میں نے ایسی امید نہیں کی تھی کہ آپ ایسے برے حالات سے گزریں اور پھر آپ پر آپ کے ہی ملک میں یقین نہ کیا جائے۔’