سرسید ماضی کی روشنی میں مستقبل کی حکمت عملی تیار کرتے تھے: پروفیسر طارق چھتاری

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 14-August-2018

علی گڑھ، 13؍اگست(پریس ریلیز)سرسید احمد خا ںنہ صرف دوسروں سے بخوبی کام لینا جانتے تھے بلکہ ان کی بھرپور ہمت و حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے۔ سرسید ماضی کی روشنی میں مستقبل کی حکمت عملی تیار کرتے تھے۔ ان خیالات کااظہار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبۂ تعلیم میں سرسید مشن اویئرنیس پروگرام کے تحت ’’سرسید اور علی گڑھ تحریک‘‘ موضوع پر منعقدہ پروگرام میں شعبۂ اردو کے صدر پر وفیسر طارق چھتاری نے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہو ئے کیا۔ انھوں نے کہاکہ سرسید نے کالج میں ایسا ماحول تیار کیا جس سے طلبہ کی صحیح تربیت ہوسکے۔ سرسید ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں مختلف شعبوں میں کام کیا۔ پروفیسر چھتاری نے پروفیسر شکیل صمدانی کے بارے میں کہاکہ انھیں اس طرح کے پروگراموں کی تحریک سرسید سے ہی ملتی ہے۔ ڈاکٹر فائزہ عباسی نے اپنے خطاب میں کہاکہ سرسید نے ہندوستان کے حالات کو دیکھ کر راہِ فرار اختیار نہیں کی، بلکہ باشندگان وطن کو بحران و مشکلات سے نکالنے کی کوشش کی۔ سرسید ان لوگوں میں سے تھے جنھیں دوسری قوموں کی مخالفت سے زیادہ اپنے لوگوں کی مخالفت جھیلنی پڑی، لیکن انھوں نے اپنے مشن کو جاری رکھا اور یہی وجہ ہے کہ آج کثیر تعداد میں طلبہ طالبات علی گڑھ مسلم یو نیو ر سٹی میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ پروگرام کے کوآرڈنیٹر پرو فیسر شکیل صمدانی نے کہاکہ آج اے ایم یو کی ہی وجہ سے پوری دنیا میں علی گڑھ کی ایک شناخت ہے اور ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم علی گڑھ میں رہتے ہیں۔ انھوں نے کہاکہ سرسید نے پہلے خود چیزوں کا مشاہدہ کیا اور اس کے بعداپنے تجربات کی روشنی میں اسے ایم اے او کالج میں نافذ کیا۔ سرسید نہ صرف ایک ماہر تعلیم بلکہ مؤرخ، مصنف، مفکر، مقرر، قانون داں اور آرکیٹیکٹ کے ساتھ ساتھ دردمند دل رکھنے والے سچے محب وطن تھے اور ان میں ذرہ برابر بھی مذہبی تفریق نہیں تھی۔ وہ صرف صلاحیت کی بنیاد پر کالج میں تقر ریا ں کرتے تھے۔ پروفیسر صمدانی نے مزید کہاکہ ہمیں آج کے دور میں سرسید کے دکھائے ہوئے راستے پر عمل کرتے ہوئے چیلنجز کا مقابلہ کرنا چاہئے اور مایوسی سے پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ اسلام میں مایوسی کفر ہے۔ ڈاکٹر شارق عقیل نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ انسان کی اصل شناخت بحران کی گھڑی میں ہوتی ہے اور سرسید نے ملک کے مشکل حالات میں جس طرح قوم کے اندر امید کی کرن جگائی اس کی مثال نہیں ملتی۔ انھوں نے کہاکہ سرسید سیکولرزم کی ایک بہترین مثال تھے اور جس طرح انھوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی اس کی آج کے ماحول میں بہت ضرورت ہے۔ پروفیسر محمد پرویز نے اپنے صدارتی خطاب میں کہاکہ سرسید کے وِژن اور مشن کو سبھی کو جاننے اور اسے اپنی زندگی میں اپنانے کی ضرورت ہے۔ مذاکرہ میں زیبا منیر، فاطمہ اور ہما خاں نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ تلاوت قرآن پاک حیدر رضا نے کی۔ کوئز پروگرام میں سلمان انصاری نے اوّل انعام حاصل کیا۔ جب کہ دوئم، سوئم اور چہارم انعام بالترتیب زماں، فاطمہ اور پرم جیت سنگھ نے حاصل کیا۔ ہما خاں نے نظامت کے فرائض انجام دئے۔ ڈاکٹر محمد شاکر نے شکریہ ادا کیا۔ پروگر ام میں پروفیسر گنجن دوبے، پروفیسر ضیاء الرحمان صدیقی، ڈاکٹر زیب النساء خاں، ڈاکٹر پونم چوہان اور ڈاکٹر شہلا شبیہ شاہین وغیرہ نے شرکت کی۔ پروگرام کو کامیاب بنانے میں فوزیہ، طلعت انجم، رضیہ چوہان، امّ کلثوم، عبداللہ صمدانی، طارق احسن وغیرہ کا خاص تعاون رہا۔