غزنی پر قبضے کی جنگ میں 300 سے زیادہ ہلاکتیں

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 16-August-2018

کابل ،14اگست ( اے یوایس ) افغانستان میں حکام نے پیر کو یہ تصدیق کی کہ جنوب مشرقی شہر غزنی اور اس کے گرد طالبان اور حکومتی فورسز کی چار روز سے جاری لڑائیوں میں ایک سو سیکیورٹی اہل کار اور 30 عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔وزیر دفاع جنرل طارق شاہ بہرامی نے کہا ہے کہ سرکاری فورسز نے، جنہیں اتحادیوں کی فضائی مدد حاصل تھی، تقریباً 200 شورش پسندوں کو ہلاک کر دیا ہے جن میں عرب، چیچن اور پاکستانی قومیتوں کے جنگجو شامل تھے۔جنرل بہرامی نے کہا کہ آئندہ چند دنوں میں شہر سے طالبان کا صفایا کرنے کے بعد صوبائی دارالحکومت کی صورت حال کنٹرول میں آ جائے گی۔دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے فوری طور پر سرکاری دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ طالبان نے شہر کے مختلف حصوں میں سرکاری فورسز کو اپنے محاصروں میں لے رکھا ہے۔آزاد ذرائع سے ان دعوؤں کی تصدیق ممکن نہیں ہے کیونکہ طالبان میدان جنگ میں اپنی کامیابیوں کی تفصیلات اکثر بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں۔پیر کے روز امریکی فوج کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ شہر بدستور افغان فورسز کے کنٹرول میں ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکی مشیر افغان فورسز کی معاونت کر رہے ہیں اور جمعے کے روز سے جاری فضائی حملوں سے طالبان کی طاقت کو بہت دھچکا لگا ہے اور 140 سے زیادہ طالبان مارے جا چکے ہیں۔اتوار کے روز غزنی سے اپنی جانیں بچا کر نکلنے والے عام شہریوں نے میڈیا کو بتایا کہ شہر کے زیادہ تر حصوں پر باغیوں کا قبضہ ہے اور اب لڑائیاں صوبائی گورنر اور صوبائی پولیس کے ہیڈکوارٹرز کے آس پاس ہو رہی ہیں۔طالبان نے غزنی کی طرف کمک لے جانے والے ایک فوجی قافلے کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی نے کہا ہے کہ پیر کے روز لڑائیوں میں ایک وقفے کے دوران انہوں نے صوبائی اسپتال میں ایندھن اور ہنگامی نوعیت کی ادویات پہنچائیں۔غزنی کی آبادی تقریبا دو لاکھ 70 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ جنگ کی وجہ سے شہر میں ٹیلی مواصلات? سسٹم اور بجلی کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے جس سے پانی کی فراہمی بھی متاثر ہوئی ہے اور خوراک کا ذخیرہ کم پڑتا جا رہا ہے۔افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے انسانی ہمددردی کے کوآرڈی نیٹر رک پیپرکون نے پیر کے روز دونوں فریقوں سے یہ اپیل کی کہ وہ غزنی کے محصور شہریوں کی تکالیف دور کرنے اور ان کی زندگیوں کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کریں۔