آپسی ایکتا ، سماجی رواداری ، قومی یکجہتی کی بنیادوں کو مستحکم بنانا جمعیۃ علماء ہند کا مشن

قائم گنج :11 اپریل (پریس ریلیز)جمہوریت کا تحفظ، سیکولر دستور کی سلامتی ، صدیوں سے قائم آپسی ایکتا ، سماجی رواداری ، قومی یکجہتی کی بنیادوں کو مستحکم بنانا جمعیۃ علماء ہند کا مشن ہے ۔ ملک و ملت کی ترقی و خوشحالی ، جمہوریت کی بقاء کے ساتھ ملک میں پھیلائی جا رہی نفرت و اشتعال انگیزی کے خلاف جمعیۃ کے اسلاف و اکابر نے ہر نازک موڑ پر ملک و ملت کی رہنمائی میں نمایاں خدمات پیش کیں۔اسی مقصد کے حصول و مشن کو آگے بڑھانے کیلئے جمعیۃ علماء فرخ آباد و قنوج کے زیر اہتمام قائم گنج میں قومی ایکتا کانفرنس کا انعقاد مجاہد اسلام وجانشین قاضئ شہر کانپور مولانا محمد متین الحق اسامہ قاسمی کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ مہمان خصوصی سنت سماج کے صدر شری پرمود کرشنم جی مہاراج نے اس تاریخی کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک کو آزادکرانے میں بھگت سنگھ، سبھا ش چندر بوس، چندر شیکھر آزاد، اشفاق اللہ خان نے آزاد کرانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ حضرت محمد ﷺ کے ماننے والے دہشت گرد نہیں ہو سکتے ۔محبت اور خدمت کا نام اسلام ہے۔ ہاتھ میں اے کے 47لے کر بے گناہوں کو مارنے والا مسلمان ہو ہی نہیں سکتا ۔ جو مسلمان ہے وہ دہشت گرد نہیں ہو سکتا ہے۔ اور دہشت گرد ہے وہ کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن سچا مسلمان ہو ہی نہیں سکتا۔ اسی طرح ہی پریم اور کرونا اور سچائی کو ماننے کا نام ہندوتو ہے ۔ کسی نہتھے کو مارنے اور سنیما گھروں جلانے اور کسی مذہب کی برائی کا نام ہرگز ہندوتو نہیں ہے۔ پرمود جی نے ناراضگی اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا گورکھپور میں رہنے والا انسان مسلمانوں کو پاکستان بھیج دینے کی بات کرتاہے، اور اناؤ میں رہنے والے مہاراج کہتے ہیں ان مسلمانوں کو یہاں رہنے کا حق نہیں ہے۔ یہ ہرگز ہندتو کا چہرہ نہیں ہے۔ کیونکہ ہندتو اور سناتن دھر م کسی بھی شخض چاہے وہ کسی بھی دھرم کا ہو اس کا دل دکھانے کی اجازت نہیں دیتا ۔ پرمودجی نے اپنے خیالات کے اظہار میں کہا کہ ملک کے وزیر اعظم مودی جی دہلی میں منعقدہ صوفی کانفرنس میں کہتے ہیں کہ اللہ رحمان و رحیم ہے اور اسلام امن کا مذہب ہے تو میں مودی جی سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ یہ بات اپنے یوگی آدتیہ ناتھ ،ساکشی مہاراج، سادھوی پراچی اور زہر اگلنے والے جھوٹے دیش بھکتوں کو کیوں نہیں سمجھاتے۔انہوں نے کہاکہ تاریخ گواہ ہے کہ جنگ آزادی میں اپنی قربانی دینے والوں میں دور دور تک کہیں بی جے پی اور آر ایس ایس کا نام تک نہیں آتا۔ ہندوستان کے اندر کسی مسلمان کو دیش بھکتی کا سرٹیفکیٹ دینے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ جو دین اسلام ماں کے قدموں میں جنت کو بتلاتا ہے اور ملک سے محبت کو ایمان بتاتا ہے اس کے ماننے والا ہرگز مادر وطن کو رسوا نہیں کرسکتا وہ کبھی ملک کے غدار نہیں ہو سکتے ہیں۔ ماتھے پر تلک ہو، نوراتر کا ورت ہے اور نعت پڑھی جائے اس سے بڑا پیغام انسانیت اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ بھاجپائی ، بسپائی ، سماجوادی اور کانگریسی بعد انسان پہلے بنو۔ پرمود جی نے مرکزی اور صوبائی حکومت پر طنز کستے ہوئے کہا کہ سادھؤوں پر لاٹھی چارج کرنے اور اور پوجا کرنے سے روکنے سے کام نہیں چلے گا اگر ہمت ہے تو بجرنگ دل اور وشوہندو پریشد جیسے کٹر پنتھیوں اور بھڑکانے والوں پر روک لگاکر تو دکھائیں ، محض اپنے منھ میاں مٹھو بننے سے کام نہیں چلنے والا۔ کوئی صوفی ،سنت اور پیغمبر کسی علاقے یا خاص فرقے کیلئے نہیں آتا اسی لئے شری رام جی کو پروشتم شری رام کہا گیا اور محمد ﷺ کو رحمۃ اللعالمین کہا گیا ۔ ہمارا شاشتر کہتا کہ اگر پرم پرماتما ہے تو اللہ مالک کائنات ہے اس کو کہنے میں کیا پریشان ہے۔ اگر ملک کے بارے میں ابھی بھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا تو نہیں دکھائی دینے والی دیواریں دلوں میں کھڑی ہو جائیں گی۔ پاکستان اور آئی ایس آئی ایس ملک کو برباد کرنا چاہتے ہیں لیکن ہندوستان ایسے تقسیم نہیں ہونے والا کیونکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ ہندوستان بموں اور میژائلوں سے ختم ہونے والا نہیں لیکن اگر یہاں کی ایکتا اور اکھنڈتا میں پھوٹ پڑ گئی تو ملک برباد ہو جائے گا۔اور اشتعال انگریز بیان دے کر ہمارے سیاسی لیڈران آج پھوٹ ڈالنے کا کام کر رہے ہیں۔وہ اس بات پرسنجیدگی سے غور کریں کہ وہ ملک کو در حقیقت کس رخ پر لے جا رہے ہیں؟ اگر پاکستان زندہ آباد کے نعرے لگانے والوں کے ساتھ اگر بھاجپا حکومت بنائے تو وہ دیش بھکت اوروہ بن بلائے پاکستان جائیں تو وہ دیش بھکت اور جنگ آزادگی میں قربانی دینے والے خاندان سے وفاداری کا سرٹیفکیٹ مانگا جائے تو بھی وہ دیش بھکت ؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ہمیں ملک کے رہنے والوں کو حقیقت سے روشناس کرانے کی ضرورت ہے۔ تاریخ ساز قومی یکجہتی کانفرنس کے صدر، قائم مقام قاضئی شہر کانپور مولانا محمد متین الحق اسامہ قاسمی رکن مجلس عاملہ جمعےۃ علمائے ہند نے امنڈتے ہوئے عوامی سیلاب کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج ہمارے پاس ملک کی تاریخ پڑھنے کا وقت نہیں ۔
پوری دنیا کو آج انسانیت کا سبق بھی ہندوستان دیگا۔ انسان تبھی انسان کہلائے گا جب اس کے اندر انسانیت ہوگی ورنہ جانور اس سے اچھا ۔ آزادی سے پہلے مولانا آزاد نے کہا تھا کہ اگر آج آسمان سے کوئی فرشتہ اتر کرکہے کہ 24 گھنٹے میں آزادی دلاؤں گا مگر شرط یہ ہے کہ ہندو مسلم اتحاد کو توڑنا پڑے گا تو میں اس فرشتے کی اس پیش کش کو ٹھکرا دوں گااس کی وجہ بتلاتے ہوئے کہا اگر ہم غلام ہیں تو ہمارا نقصان ہیں لیکن اگر ملک تقسیم ہو گیا تو یہ انسانیت کا نقصان ہے۔ مولانا نے کہاکہ مٹھی بھر لوگ ملک کی اکثریت میں نفرت کا زہر گھول رہے ہیں۔
، ابھی کسی کے اندر اتنی طاقت نہیں کہ وہ ملک کو توڑ سکے۔ ہم اس ملک کو طاقتور اور ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سلامتی اور اس کی حفاظت چاہتے ہیں۔ جس طرح جسم میں کوئی کمی آنے پر انسان کانا ، لولا اور لنگڑا ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح ملک میں بھی کچھ لوگ داغ لگانا چاہتے ہیں ہم ملک کو صحت مند دیکھنا چاہتے ہیں،اس کیلئے ہم ہر طرح کی قربانی دینے کیلئے تیار ہیں۔یہ ہندوستان سب کا ہے اور یہ بات نہیں سمجھی گئی تو نقصان سب کا ہے ۔ یہ بات فرقہ پرستوں سے کوئی بتلا دے ،زمانے بھر نے ہمیں کو مہان لکھا ہے ، ہمارے خون سے آتی ہے اس لئے خوشبو ، ہمارے خون میں ہندوستان لکھا ہے۔ مولانا اسامہ نے قائد ملت مولانا سید محمود اسعد مدنی کی اس بات کو دہرایا کہ ہم بائی چانس نہیں بلکہ بائی چوائس ہندوستانی ہیں۔ہم نے اس اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں جانے سے انکار کرکے سیکولر ملک ہندوستان میں رہنا پسند کیا۔فرقہ پرستوں کے پاس تو کوئی چانس ہی نہیں تھا۔ ہندوستان سے زیادہ بہترین آئین پوری دنیا میں کہیں نہیں جس کی ساری دنیا میں مثال دی جاتی ہے اور جو لوگ اپنے اسلحے بیچنے کیلئے ہمارے ملک کے درمیان نفرت پیدا کرنا چاہتے ہیں ہمیں ان کی سازشوں کو سمجھنا ہوگا۔ مولانا نے جمعیۃ العلماء کے کارکنان کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ آج ہندوستان میں مظلوموں کی کمی نہیں ہے ، ہمیں سب کا ساتھ دینا پڑے گا ، سب کی لڑائی ظالموں سے لڑنی ہوگی۔ہم سب مل کر ظالم کو کنارے کر دیں گے اور مظلوم ایک منچ پر جمع ہو جائیں گے۔ جامعہ اسلامیہ امروہہ سے تشریف لائے نواسہ شیخ الاسلام مفتی سید محمد عفان منصورپوری نے اپنے مختصر اور انتہائی جامع خطاب میں فرمایا کہ ماضی کے اوراق کو اگر پلٹ کر آپ دیکھیں گے اور جنگ آزادی کی لڑائی پر منصفانہ نظر ڈالیں گے توجمعیۃ علماء ہند کی خدمات کو فراموش نہیں کر سکیں گے۔جمعیۃ علماء ہند اس ملک میں ایکتا نشانی ہے ہم نے اس ملک کو تقسیم ہونے کی مخالفت کی تھی۔ کیونکہ اگر اس ملک کو مذہب کی بنیاد پر ملک کو تقسیم کیا گیا تو ملک کی یکجہتی پارہ پارہ ہو جائے گی اور ملک ٹوٹ کر رہ جائے گا۔ اگر اس ملک میں رہنے والے یکجہتی کو قائم نہیں رکھیں گے تو وہ غدار وطن کہلائیں گے۔ بھائی چارے کو فروغ دیا جائے اور نفرت کی سیاست کرنے والوں کو لگام لگایا جائے۔ ہمیں کسی سے بھی ملک سے محبت کا سرٹیفکیٹ اور سند لینے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ تو ہمار ا ملک ہے۔ اس ملک کی حفاظت کی خاطر ہمارے علماء نے قربانیاں دی ہیں۔ آج بھی جو لوگ بھی نفرت کو ہوا دے کر ملک کو تقسیم کرنے کی کوشش کریں گے تو ملک کے شہریوں کو محبت کا پیغام دے کر ہم ان کے دانت کھٹے کریں گے۔ ہمارے بزرگوں پرانگلی اٹھانے والے وہ لوگ ہیں جن کے لوگوں کاجنگ آزادی کی طویل لڑائی میں کہیں کسی تاریخ میں بھی نام نہیں آتاہے۔ جو لوگ اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں وہ لوگ مسلمانوں کے ساتھ دشمنی نہیں بلکہ اس سے پہلے ملک کے ساتھ غداری کرتے ہیں ان کے اوپر ملک سے غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔کانفرنس کی نظامت کرتے ہوئے مفتی ظفر قاسمیؔ نے کہا کہ جمعیۃ علماء کاکردار کسی سیاسی پارٹی کی طرح دوہرا کردار ا نہیں ہے، جو سامنے سے کچھ اور اور اندر سے در حقیقت کچھ اور ہوتی ہیں۔ اگر ملک کی ایکتا ہی نہیں رہے گی توملک حقیقت میں ملک ہی نہیں رہے گا ۔توپھر یہ سیاسی پارٹیاں کہاں پر سیاست کریں گی ۔مولانا نے لوگوں سے عز م لیا کہ ہم اس ملک کی خوبصورتی کوکسی قیمت پر ختم نہیں ہونے دیں گے اور مٹھی بھر لوگوں کے ناپاک ارادوں کوہرگز کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔اس موقع پر سابق ایم ایل اے اظہارعالم خاں نے کہا کہ جس طرح کچھ لو گ اس ملک کو بانٹنے کیلئے اتارو ہیں تو وہیں جمعیۃ علماء کے لوگ اس ملک کو جوڑنے کیلئے بھی میدان میں اتر کر کام کر رہے ہیں۔مسلمانوں سے وفاداری کا ثبوت مانگے والے لوگوں نے جنگ آزادی میں بھی انگریزوں کا ساتھ دیا تھا اور انسانیت کے درمیان نفرت پھیلانے ان کی یہ کوششیں آج بھی جاری ہیں۔کانفرنس میں تشریف لائے اروند کمار سنگھ جی نے کہا کہ چند لوگ جو ملک کو بانٹنا چاہتے ہیں وہ ہر گزسچے ہندوستانی نہیں ہو سکتے ۔ یہاں پر مختلف مذاہب اور تہذیب کے لوگ ایک ساتھ مل جل کر رہتے ہیں۔جب ملک کی بات ہوتی ہے تو ملک کی ہر پارٹی بعدمیں ہوتی ہے۔ کیونکہ یہاں پر تمام مذاہب اور تہذیب کے لوگ خوشحالی اور امن چین کے ساتھ رہتے تھے۔اس کے علاوہ اروند جی نے اپنے دادا مجاہد آزادی بلونت سنگھ کے کاموں سے بھی لوگوں کو روشناس کرایا۔ اسی طرح رام پرکاش یادونے بھی اپنے بیان میں جمعیۃ علماء کے کاموں کی تعریف کی ۔جمعیۃعلماء ہند کے آرگنائزر مولانا احمد عبد اللہ رسول پوری ،مفتی طارق جمیل قاسمی اورامین الحق عبد اللہ نے محب وطن اور پیام انسانیت کا پیغام دیتے ہوئے نعت ، نظم اور ترانہ پیش کر سماں باندھا۔اس موقع پر ناظرالدین صاحب نے اظہار خیال فرماتے ہوئے کہا کہ آج افسوس کی بات ہے کہ ہمیں اپنے ملک سے وفاداری کا ثبوت دینے کیلئے ایک جگہ پر اکٹھا ہونا پڑا۔ حیققت یہ ہے کہ ساری دنیا میں آنکھ اٹھا کر دیکھ لیجئے کہ تو معلوم ہوگا ہندوستان سے زیادہ سیکولر ملک پوری دنیا میں نہیں ہے۔ اگر کوئی اس کی یکجہتی کی طرف آنکھ اٹھائے گا تو اس کو منھ توڑ کر جواب دینا ہوگا۔ یہ ملک ہندو ،مسلم ،سکھ ،عیسائی سبھی مذاہب کاہے کیونکہ جنگ آزادی میں سب نے حصہ لیا تھا۔ آج ہم بستیوں ،برادریوں اور طبقے میں بنٹ گئے اور بلکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ ہم سب کو مل کر اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھنا چاہئے کہ چاہے ہمارے معاشرے میں کسی بھی مذہب میں رہنے والا ہو اس کوہماری ذات سے کبھی تکلیف نہیں پہنچنا چاہئے کیونکہ یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ سابق ضلع پنچایت صدرتحسین علی صدیقی نے خطاب کرتے ہوئے لوگوں کو بتایا کہ وطن سے ہمیں کتنی محبت اور لگاؤ ہے یہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ ہمارے علماء نے جنگ آزادی کی لڑائی میں برابری کی لڑائی لڑی ہے۔ اس زمین سے لگاؤ قدرتی ہے۔ بنٹوارے میں بھی ہم نے اپنے پیارے وطن کو چھوڑ کر دوسرے ملک میں جانا پسند نہیں کیا، کیونکہ ہمیں اپنے وطن سے محبت ہے۔ آج من کی بات کرنے والے اپنا من صاف نہیں رکھتے۔ ہندوستان میں رہنے والا پہلے ہندوستانی ہے بعد بھی ہندو ، مسلمان یا کسی مذہب کا ماننے والا ہے۔ قومی ایکتا کانفرنس کے اس تاریخی موقعہ پر مفتی اعظم فرخ آبادمولانا فخر الدین صاحب اورگیانی گروچن مع، احمد انصاری، قاری راشد ، مولانا عبد الرب ، سابق ضلع پنچایت صدرمفتی سلیم ،حاجی طریق احمد کے علاوہ کئی لوگوں نے سوامی آچاریہ پرمود کرشن صاحب صدر سنت سماج، ،مولانا محمد متین الحق اسامہ قاسمی قائم مقام قاضی شہر کانپورکا پھولوں کی مالاؤں سے زوردار وشانداراستقبال کیا۔ استقبال کے بعد پروفیسر سید نعمان صاحب نے قومی ایکتا کانفرنس کے حوالے سے کہا کہ آج ہم قومی ایکتا بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔ اگر ملک سے یکجہتی ختم ہو جائے گی تو ملک ٹوٹ جائے گا۔اس ملک کو ہندوستان کی شان لال قلعہ ، خوبصورت تاج محل ،اونچا قطب مینار اور ایکتا کا نشان چار مینار ہم مسلمانوں نے ہی دیا ہے۔ آج جب ہمارے وزیر اعظم پاکستان جاتے ہیں تو وہاں کے وزیر اعظم کی ماں کے پاؤں چھو کر آتے ہیں ، ہم نے ان کو پاؤں چھونے کی لئے نہیں کہا تھا۔ ہمارے کردار پر انگلیاں اٹھانے والے اپنے اندر جھانک کر دیکھ لیں۔اور سب مل کر ہندوستان زندہ آباد کہیں۔یکجہتی کے اس پروگرام میں سکھا سماج کی نمائندگی کرتے ہوئے گیانی گروچن سنگھ نے کہا کہ جس طرح ایک گلدستے میں کئی طرح کے پھول ہوتے ہیں اسی طرح ہندوستان کے اس گلدستے میں ہندو،مسلمان، سکھ ، عیسائی اس گلدستے کے پھول کی طرح ہیں ۔ہر ایک اپنی اپنی شناخت ہے ۔جولوگ ہمارے اندرفرق ڈال کر کے ایک دوسرے کو لڑانے کی سازش رچتے ہیں،لیکن ہم لوگ ہرگز اس کو کامیاب نہیں ہو نے دے سکتے ہیں کیونکہ اس سے گلدستے کی خوبصورتی میں کمی آ جائے گی اور ہمارا ملک کمزور ہو جائے گا۔ ہمیں کسی سیاسی لیڈر یا پارٹی کی فکر نہیں ۔ آج یکجہتی کو بچانے کی شدیدضرورت ہے اور اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ کوئی بھی دھرم آپس میں بیر رکھنا نہیں سکھاتا۔اس سے قبل شری پرمود کرشنم جی مہاراج ، مولانا محمد متین الحق اسامہ قاسمی، مفتی محمد عفان، گیانی گروچن سنگھ نے مشترکہ طور پر جمعیۃ علماء ہند کے ساتھ ساتپ قومی پرچم کی پرچم کشائی کی ۔ کانفرنس کا آغاز قاری اسعد اقبال کی تلاوت کلام اللہ سے ہوا۔ کانفرنس کی سرپرستی مولانا انوار احمد جامعی ،مولانا عبد الغنی جامعی اور قاضی شہر فرخ آباد مفتی معظم علی مظاہری نے فرمائی ۔ مولانا محمد کلیم جامعی ، مولانا محمد ابدال قاسمی بطور نگراں موجود رہے۔ اس موقع پر حافظ محمد فرقان، حافظ محمد آفاق، حافظ محمد بلال، مولانا محمد مسعود، مولانا عبد القدوس رومی، یاسر عبد القیوم قاسمی،مولانا محمد طلحہ مظاہری، محمد یامین،حاجی رئیس، مولانا محمد اکرم جامعی، مولانا نور الدین احمد قاسمی، مفتی اسعد الدین قاسمی،مفتی عزیز الرحمان ، حاجی شوکت، حاجی ساجد، ماہر خاں ایڈوکیٹ ، ڈاکٹر محمد منیر ،محمد شاہد ،ڈ واصف جمیل قاسمی، مولانا منتظر قاسمی، مولانا ذو الفقار قاسمی، حافظ عبد الخالق، مفتی مجیب الرحمان ، مفتی نور الحق، مولانا وسیع نور، مولانا محمد احمد، مولانا محمد شمیم ، مولانا مشیر،مولانا محمد غفران سمیت سیکڑوں علماء و ہزاروں کی تعداد میں عوام نے کانفرنس میں شرکت کی۔