جو قوم آپس میں لڑ کر اپنی طاقت کو ضائع کرتی ہے اس کو برباد ہونے سے کوئی بچا نہیں سکتا : مولانا اسامہ قاسمی

الہ آباد:۔ وہ خوش نصیب بچے جنہوں نے اللہ کے پاک کلام کو اپنے سینے میں محفوظ کر لیا ، اللہ ہی کی توفیق سے وہ حافظ قرآن ہو گئے۔ دستار تو دنیا میں باندھی جاتی ہے مگر حفاظ قرآن کا اصل اعزاز تو میدان محشر میں رب العالمین کی طرف سے ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار مسر گاؤں واقع جامعہ صدیقہ کے زیر اہتمام منعقدہ جلسہ سیرت النبی ودستاربندی میں کانپور سے تشریف لائے قائم مقام قاضئ شہرکانپور مولانا محمد متین الحق اسامہ قاسمی نے کیا۔ مولانا نے کہا کہ ہم کو اللہ نے کوبنایا اورپیدا کیوں کیا ہے ؟ایمان کی دولت اوراپنے سب سے محبوب پیغمبر حضرت محمد ﷺ کا امتی بنا کر اللہ نے ہم کو مقام و مرتبہ کیا دیا تھا ؟ ڈیوٹی، فریضہ اور کام کیا دیا تھا ؟ آج شاید ہم اپنے مرتبے اور کام کو بھی بھول گئے ہیں ،نہ ہم کو اپنی پوزیشن کا خیال ہے اور نہ ہی ہم کو اپنی ڈیوٹی اور ذمہ داری کا خیال ہے۔ جس طرح دنیا کی مخلوق کوصبح سے شام تک کھانا پینا ،ٹہلنا ،سونے جاگنے کے علاوہ دیگر کوئی کام نہیں اس کے علاوہ عام انسانوں کو بھی دوسرا کوئی کام نہیں ، شاید آج صاحبان ایمان مسلمانوں نے بھی اپنا مقصد زندگی کھانا ، پینا ، سو نا جگنا، شادی بیاہ اور دنیاوی خرافات کرکے ہنس کھیل لینے کے علاوہ ذہن میں اور کوئی دیگر کام نہیں ۔اللہ پاک ہماری اصلاح فرما کر صحیح رخ عطا فرمائے۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم نے اسلام ،سیرت اور قرآنی پیغامات کے ساتھ ساتھ شریعت کو محدود کر لیایا یوں کہہ لیجئے کہ 100فیصد اسلام کو ہم نے 5فیصد اعمال پر منحصر کر لیا ،95فیصد زندگی ہماری اسلام سے متعلق ہے ہی نہیں ۔ اللہ کہہ رہے ہیں کہ ’’آج ہم نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا‘‘یہ آیت اللہ کے آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺ کے حجۃ الوداع کے موقع پر اتری ہے اس آیت کے اترنے کے تین مہینے کے اندر اللہ نے اپنے نبی کو اپنے پاس بلا لیا ۔ اس آیت کے پیغام کا ہم کو آپ کو اندازہ نہیں ،ہم جن کو آج اسلام کا دشمن کہتے ہیں ان کو اس آیت کی قیمت معلوم ہے۔ ایک بہت بڑے یہودیوں کے عالم نے خلیفہ دوم سیدنا عمر ابن خطابؓ سے کہا تھا کہ عمر ’’تمہارے قرآن میں ایک آیت ہے اگر وہ آیت ہم یہودیوں کو ملی ہوتی تو جس دن وہ آیت اتری ہے اس دن ہم جشن اور عید کا دن منا لیتے ‘‘ اس کی اہمیت کا ہم تصور کریں ۔ یہودیوں کی ایک کسک ہے کہ اتنی بڑی نعمت حضرت محمد ﷺ کے امتی ہونے پر ہم کوملی جو کسی اور کو نہیں ملی۔حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ہمیں معلوم ہے لیکن ہم کو الگ سے عید منانے کی ضرورت نہیں ، لیکن وہ آیت جس جگہ پر اور جب اتری ہے وہ خود بخود مسلمانوں کے اجتماع کا دن تھا اور وہ دن حج کے ایام میں سے یوم عرفہ کا دن میدان عرفات میں جمعہ کے دن اتری ہے۔ مولانا نے اس آیت اورمیدان عرفان کی اہمیت کو بتاتے ہوئے کہا کہ اگر حاجی سارے اعمال کر ڈالے لیکن یوم عرفہ کے دن میدان عرفات میں حاضر نہیں ہواتو اس کے سارے اعمال ضائع ہو جاتے ہیں یعنی اس کا حج ہوتاہی نہیں اس لئے یوم عرفہ کے دن اعلان کیا جاتا ہے کہ آج حج ہو گیا۔حضرات صحابہ کرامؓ جنہوں حضرت محمد ﷺ سے دین کو براہ راست سیکھا ان سے زیادہ قیمتی کوئی روایت ،حدیث اور دلیل ہو ہی نہیں سکتی ۔کائنات کی مقدس ترین ہستیوں اور جن کے صدقے میں ساری کائنات بنی ،تمام نبیوں ،انسانوں ،فرشتوں اورجناتوں کے سردار حضرت محمدعربی ﷺ کی موجودگی میں یہ آیت اتری ہے۔ حضرت محمد ﷺ سے پہلے آنے والے کسی نبی کو یہ آیت نہیں ملی یہ شرف صرف آپ محمد ﷺ کوملا ۔ اس لئے اس آیت کی اہمیت کو پہچانیں ۔مولانا نے آگے فرمایا کہ آج نیک لوگوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جو مدرسوں اور مسجدوں کا خیال تو رکھتی ہے لیکن جب باری اپنے گھر کی آتی ہے تب خود ان کے مکان ،دوکان ، دفتر ،ملازمت ، شادی بیاہ اور معاملات سے دین کا ماحول بہت دو ر نظر آتا ہے۔ مولانا نے اختلافات کو دو رکرنے کی بات کرتے ہوئے فرمایا کہ دیوبند ی، بریلی، احمدرضاؒ ، اشرف علی تھانویؒ اور دیگر لوگ تو 200سال کے اندر کے ہیں ،لیکن اگر جھگڑا ختم کرنا چاہتے ہو اور اسلام کے تئیں مخلص ہو اورجو غلط فہمیاں اور الزام تراشیاں دور کرنا چاہتے ہوتو اس کا سب سے آسان حل ہے کہ ان 200سال کے اندر جس نے بھی جو کچھ لکھا ہے اس کو کنارے لگا دو اس سے پہلے کے جو فقہاء، خلفاء راشدین اور محدثین ،مصنفین اور ائمہ جن کو سبھی مانتے ہیں وہ جو کہیں ان کو ہی مان لیں۔اگر کوئی شخص ضد پر آجائے کہ مسئلہ حل کرکے کیا ہم اپنا نقصان کر یں گے ؟تو پھر اس کاکوئی حل نہیں۔ہم دیوبند ی ،بریلوی دونوں کو کنارے کریں ،نبی کی بات اور حدیث کی کتابوں کو تو سبھی مانتے ہیں اوراس کے بعد امام ابو حنیفہ ؒ کی تو ہم سبھی تقلید کرتے ہیں ان ہی کو مان لیں ، اوراس سے زیادہ حضرت ابوبکرو عمرؓ، عثمان و علیؓ، حسن ،حسینؓ کے دربار میں اپنے مسئلہ کو رکھیں ان صحابہ کرامؓ کی تعلیمات کی روشنی میں اگر کچھ ملے تو اس کو قبول کر لیں ، مگر حل کر نا چاہیں تو 2منٹ میں سارے مسئلے کا حل نکل جائے اور حل نہ کرنا چاہیں تو پھر اس کا کوئی حل نہیں۔ مولانا نے آگے کہا کہ عالمی پیمانے پر امت کا جو حال ہے وہ قابل بیان نہیں، کئی ممالک میں تو قتل عام تک ہو رہاہے ، کیا ہمیں معلوم ہے کہ ملک شام میں ادھر 4سے 5سال کے اندر 5لاکھ سے زائد سنیوں کا قتل عام ہو چکاہے ،4لاکھ یتیم بچے وہاں موجود ہیں جن کو ایک وقت کا دودھ اورروٹی کا ٹکڑا نصیب نہیں ،اور اگر وہاں کے لوگ ملک چھوڑ کر دوسرے ملک کشتیوں کے سہارے جاتے ہیں تو ان کی کشتیاں ڈبو دی جاتی ہیں اور وہاں کوئی پرسان حال نہیں ہے،اسی طرح عراق میں جنگ ہوئی تو 15لاکھ سے زائد لوگوں کو مار دیا گیا ،وہیں مصر کے ساتھ ساتھ دنیا کے کئی ممالک میں ہمارے ساتھ کیا کیا ہو رہاہے ؟اورپھر اس ملک میں جہاں ہم بستے ہیں وہاں کیا ہمارے خلاف کم سازشیں ہو رہی ہیں ، کم پلاننگ اور منصوبے بن رہے ہیں ؟اس کے باوجود بھی اگر ہماری قوم کو عقل نہ آئے اور وہ دیوبندی ،بریلوی میں پھنسی رہے اور چند غلط فہمیوں میں الجھ کر رہ جائے اور بات بات پر کچھ لوگ جھگڑنے کی بات کریں تو پھر اللہ ہی حفاظت فرمائے ۔ مولانا نے کہا جو قوم آپس میں لڑ کر اپنی طاقت کو صرف کرتی ہے اس کو ختم ہونے سے کوئی بچا نہیں سکتا ۔ اس کے علاوہ شیخ طریقت مولانا احمد نصر صاحب بنارسی نے بھی عوام سے انتہائی جامع خطاب فرمایا۔جلسے کا آغاز قاری محمد عرفان کی تلاوت سے ہوا ۔ اس موقع پرمدرسہ صدیقہ سے فارغ ہونے والے 6طلباء کی اکابرین کے دست مبارک سے دستار بندی کی گئی وہیں شکیل پھولپوری نعت و منقبت کا نذرانہ پیش کیا۔نظامت کے فرائض مولانا عبد السبحان حلیمی نے انجام دئے۔ اس موقعہ پر مولانا عین العارفین ، مولانا فیاض اور مدرسے کے ناظم مولانا اسید قاسمی نے آئے ہوئے ہزاروں لوگوں کا شکریہ اداکیا۔