حج کے بہتر انتظامات کیلئے مشورے

ڈاکٹر ایم اے ابراہیمی
میں سال ۱۹۹۷ء میں حکومت ہند کے حج خیرسگالی وفد میں بہ حیثیت ممبر سکریٹری پہلی بار حج کی ادائیگی کیلئے سعودی عرب گیا۔ دوبارہ ۲۰۰۴ ء میں عمرہ کی ادائیگی کیلئے وہاں گیا ۔ اور پھر سال ۲۰۱۳ء میں دوبارہ حج کیا۔
سال ۲۰۱۳ء کے حج سفر کے دوران میں نے آرام اور تحفظ کے نقطء نظر سے مختلف سہولیات کا احتسابی جائزہ لینے کی کوشش کی۔ میں نے انتطامات میں کمیوں کو حج کمیٹی آف انڈیا ، وزارت خارجہ کے تحت قونصل جنرل آف انڈیا اور حکومت سعودی عربیہ میں تقسیم کیا ہے۔ میں ۲۰۱۳ ؁ء میں حج کے دوران پٹنہ سے شائع ہونے والے اردو اخبارات میں بذریعہ ای ۔میل حاجیوں کو ہونے والی دشواریوں کے سلسلے میں تفصیلی رپورٹیں بھیجا کرتا تھا۔ بعد میں جب میں نے اردو اخبار کے مدیر سے باتیں کی تو انہوں نے کہا کہ منفی خبروں سے ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی ہوگی جو ائندہ سالوں میں حج پر جائینگے ۔ میں نے ان سے کہا کہ اگر کمیوں کو اجاگر کیا جائے اور ابھی ضروری اقدامات کئے گئے تو مستقبل میں حاجیوں کو سفر میں اسانیاں ہونگی ۔ گذشتہ سالوں میں مذکورہ تینوں اداروں میں سے کسی نے بھی کوئی بڑا سدھار نہیں کیا نتیجہ یہ ہوا کہ مابعد سالوں میں عازمین حج کی بڑی تعداد میں زندگیاں تلف ہوئیں یا تو منیٰ میں جمرات میں کن کڑیاں مارنے کے دوران بھگدڑ سے یا حرم کعبہ کے اوپر لٹکنے والے کرین کے گرنے سے اسکے علاوہ رہائش، طعام اور نقل و حمل میں دشواریاں بھی رہیں
حج کمیٹی آف انڈیا کی ذمہ داریاں
حج کے سفر کے نظم کی ذمہ داری سب سے زیادہ حج کمیٹی آف انڈیا کی ہوتی ہے۔ اسکے ممبران اور عہدیداران سالوں بھرحج کے انتظام و انصرام کیلئے سعودی عرب کا سفر کرتے ہیں۔حج کے دوران ایک عام رائے سننے کو ملتا ہے کہ انتطامات کے ہر ایک سطح پر انلوگوں کو رشوت ملتا ہے ۔
حاجیوں کے نقل و حمل کے تعلق سے مندرجہ ذیل کچھ کمیاں ہیں:
۱۔ عزیزیہ۔ کعبہ: حرم۔ کعبہ پہنچنے میں عزیزیہ میں قیام کرنے والے عازمین کو دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ انکے پیکج میں حرم کعبہ سے مقام قیام تک لانے اور لے جانے کیلئے بس کی سہولیات شامل ہوتی ہیں۔ لیکن یہ سہولت ذی الحجہ کی ۴ تاریخ سے ۱۳ تاریخ کے دوران بند کردی جاتی ہے ۔ ان میں کچھ مقامات ۵ سے ۸ کیلومیٹر کی دوری تک واقع ہیں۔ اس دوران ان لوگوں کو حرم کعبہ تک پہنچنے کیلئے بذریعہ ٹیکسی ایک طرف کا ۳۰ سعودی ریال تک کا کرایہ دینا پڑتا ہے ۔ ان میں بہت سارے لوگ اپنے قیام کے اطراف کی مساجد میں نماز پڑھنے میں ہی اپنی عافیت محسوس کرتے ہیں
۲۔ طواف ؍ زیارت: کعبہ میں طواف زیارت کی ادائیگی کیلئے منیٰ سے مکہ جانے میں عازمین حج کو زبردست مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ۹ ذی الحجہ حج کے ایام کا عظیم دن ہوتا ہے جہاں عرفات کے میدان کے مخصوص علاقہ میں دن گزارنا ہوتا ہے اور وہاں سے رات میں قیام کیلئے مزدلفہ جانا ہوتا ہے۔جہاں عبادت کے علاوہ شیطان کو مارنے کن کڑیاں اکٹھا کیا جاتا ہے ۔ رات گزارنے کے بعد عازمین حج ۱۰ ذی الحجہ کی صبح منیٰ واپس جاتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر جمرات بڑے شیطان کو سات کن کڑیاں مارنا ہوتا ہے۔ سعودی حکومت کی ذمہ دار ایجنسی کے ذمہ ہی جانور کی قربانی کا نظم ہوتا ہے اور یہ نظم عازمین حج کی غیر موجودگی میں ہوتا ہے۔ قربانی کے بعد عازمین حج کو اپنے سر کے بال منڈوانے (حلق) ہوتے ہیں۔ اسکے بعد ۱۰ ذی الحجہ سے ۱۲ ذی الحجہ کے درمیان،ترجیحی طور پر۱۰ ذی الحجہ کو ہی کعبہ میں طواف زیارت کی ادائیگی کرنا ہوتا ہے۔ اس درمیان مکہ جانے کیلئے کوئی سواری کا نظم نہیں ہوتا ہے۔ عازمین کو مکہ پہنچنے کیلئے ۸ کیلومیٹر تک پیدل چلنا پڑتاہے۔ گزشتہ کچھ دنوں کے دوران حج ارکان کیلئے لگاتار چلتے رہنے سے تھکاوٹ والے وقت میں عازمین انتہائی تھکے اور پریشانی والے حالت میں ہوتے ہیں۔ ان میں عورت، ضعیف العمر مرد و خواتین کے علاوہ معذور عازمین جن میں سے کچھ لوگ وہیل چئیر پر بھی ہوتے ہیں ۔ یہ لمحہ حاجیوں کیلئے مشقتوں والا لمحہ ہوتا ہے ۔ ان میں بہت سارے عازمین حج ۲ کیلو میٹر ٹنل کے راستہ بس اسٹینڈ پہنچتے ہیں جہاں اونچے کرایہ پر بسیں دستیاب ہوتی ہیں ۔ حاجیوں کو طواف زیارت کے بعد اسی شام منیٰ پینچنا ضروری ہوتا ہے جہاں انکوباقی دو دنوں میں شیطان کو کن کڑی مارکر فریضہ کی ادائیگی سے مبرا ہونا ہوتا ہے۔ خراب نقل و حمل کے انتطام کی وجہ سے حج کے پانچ دنوں میں تقریباً ۱۰۰ کیلومیٹر تک پیدل چلناپڑتا ہے
۳۔ منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں رہائشی سہولیات: منیٰ کے خیموں میں رہائش کا انتطام معیار کا نہیں رہتا ہے۔ یہاں غسل خانہ اور بیت الخلاء کافی کم تھے۔ وضو کیلئے لمبی قطار اور خراب پائپ سسٹم اور نلکے کی کی کمی سے عازمین ناپاک ہوجاتے جو نماز کیلئے موزوں نہیں ہوتا ہے۔ لیکن پھر بھی عازمین کو اسی حالت میں نماز پڑھنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی معلم کے اسٹاف کے ذریعہ غیر معیاری قسم کی بریانی ،غذائی اجناس وغیرہ کھانادئے جاتے اور کبھی کبھی عازمین کو خود ہی غذائی اجناس والے اسٹال سے کھانے کا سامان خریدنا پڑتا تھا۔ معلم کے کارندے یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ رہائش کاانتخاب قونصل جنرل آف انڈیا اور حج کمیٹی آف انڈیا کے عہدیداروں کے ذریعہ رشوت کی رقم لیکر کیا جاتا ہے
۴۔ خادم الحجاج، فری اسپانسر شپ: ایسا الزام ہے کہ حج کمیٹی آف انڈیا اپنے چہیتوں کو مفت حج کرانے کیلئے خادم الحجاج کو اسپانسر کیا جاتا ہے ۔ عازمین کے ذریعہ جمع کی گئی رقومات میں سے انکے اوپر خرچ کیا جاتا ہے۔ خادم الحجاج کے بھیجنے کا آخر مقصد کیا ہے؟ زیا دہ تر وہ پہلی بار حج کے سفر پر ہوتے ہیں۔ عازمین حج کے خدمتگار کی شکل میں جانے والے یہ خادم الحجاج مفت میں صرف اپنا حج پورا کرنے پر رہتے ہیں۔ ان لوگوں کو کبھی بھی عازمین کے پاس نہیں دیکھا جاتا ہے۔ یہ لوگ نہ کبھی عازمین کو سہولت پہنچانے کا کام کرتے ہیں اور انکو حج مشن پر بھیجے جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ مفت اسپانسر شپ پر اپنے چہیتوں کو بھیجنے کا یہ ایک سسٹم بھر ہے
ْ وزارت خارجہ کے تحت قونصل جنرل اور حج مشن کے دفاتر کی ذمہ داریاں:
معلموں کی لابی:
ہندوستان سے جانے والے عازمین کی دیکھ بھال کیلئے پاکستانی نژاد اسٹاف اور تنظیموں کو ٹھیکہ دیا جاتا ہے ۔ یہ لوگ ہندستانیوں کے ساتھ بہت اچھا سلوک نہیں کرتے۔ وہ لوگ چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ انلوگوں کے خلاف کوئی تادیبی کاروائی نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ ٹھیکہ انکو سی جی ائی اور ایچ سی ائی کے عہدیداروں کو بڑی رشوت دیکر حاصل ہوا ہے۔ معلم کے اسٹاف کھلے الفاظ میں کہتے ہیں کہ معلم اور بلڈنگ کے انتخاب میں رشوت کی ادائیگی ہوتی ہے۔ مجھے یہ جان کر کافی تکلیف ہوئی کہ حج کے دوران بدعنوان مسلم عہدیدار خالص اسلامی فریضہ کو بھی بدعنوانی سے الگ نہیں رکھتے ۔ وہ حج جیسے مقدس کاموں میں رشوت لیکر خود گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔
بلڈنگ مالکان کی لابی:
بلڈنگ کے مالکان کی لابی جو عازمین حج کیلئے رہائش کا انتظام کرتے ہیں وہ کافی اثر و رسوخ والے ہوتے ہیں ۔ عازمین کے بیچ یہ موضوع تذکرہ میں رہتا ہے کہ قونصل جنرل آف انڈیا اور حج کمیٹی آف انڈیا کے افسران رشوت کی بنیاد پر معیار سے نیچے اتر کر بلڈنگ اور رہائش کا انتخاب کرتے ہیں ۔ ایسا کہنا ہے ان لوگوں کا بھی ہے جو کسی نہ کسی طور پر بلڈنگ کے انتخاب میں شریک رہتے ہیں ۔حکومت سعودی عربیہ کے سخت قوانین کی رو سے کوئی بھی عورت اسلام میں جن افراد کو محرم کے طور پر اجازت دی گئی ہے کو چھوڑ کر بغیر محرم کے حج نہیں کرسکتی ہے ۔ مگر اس ضابطہ کی دھجیاں اس وقت اڑتی ہے جب غیر محرم مردوں کی رہائش بھی اسی روم میں دی جاتی ہے جس میں عورت اپنے محرم کے ساتھ رہتی ہے ۔ واقعی عورتوں کیلئے ناقابل برداشت حالت ہوتی ہے ۔ نہ ہی حج کمیٹی آف انڈیا اور نہ ہی حکومت سعودی عربیہ اسلامی شرعیہ کے مطابق رہائش کے انتظام کیلئے ہی کچھ کرتی ہے۔
منیٰ۔عرفات ۔ مزدلفہ: منیٰ۔عرفات ۔ مزدلفہ میں عازمین کی دیکھ بھال کیلئے سی جی ائی ،جدہ اور انڈین ایمبیسی کے عہدیداروں اور اسٹاف کو تعینات کیا جاتا ہے۔لیکن انہیں اپنی ذمہ داری نبھانے میں کوئی دلچسپی نہیں رہتی ،تقریباً دو سو ایسے ہی اسٹاف اور افسران اور انکی فیملی منیٰ میں نہایت ہی آرام دہ خیمہ میں رہتے ہیں اور اپنے رشہ داروں کو مفت حج کراتے ہیں ۔ یہ لوگ کبھی بھی عازمین کی تکلیف اور ان سے ملاقات کیلئے بھی انکے خیموں میں نہیں آتے۔ یہ لوگ حکومت ہند کو دھوکا دیتے ہیں اور اپنی نیتوں کی وجہ سے گناہ مول لیتے ہیں۔ ساؤتھ انڈیا کے کچھ فلاحی مسلم یوتھ اداروں کے ذریعہ کی جانے والے رضاکارنہ خدمات کی تعریف ضرور کرونگا۔ جب کوئی بھی عازمین کی رہنمائی کیلئے نہیں ہوتا ہے یہ لوگ عازمین کی مدد کرتے ہیں اور راستہ دکھاتے ہیں۔ یہ لوگ کچھ چھوٹے اسٹال کا بھی نظم کرتے ہیں۔
طبی ٹیم۔ سبھی جگہوں پر میدٰیکل ٹیم کافی سودمند ہوتے ہیں ۔ بیمار مریضوں کے علاج میں بہتر کارکردگی کرتے ہیں۔ کسی سانحہ کے موقع پر بھی یہ لوگ کافی مددگار ہوتے ہیں ۔ میں خاتون ڈاکٹر اور اسٹاف کو حج ڈیوٹی پر بھیجنے کی بھرپور تائید کرتا ہوں ۔
ائیر فلائٹ ربط: ائیر انڈیا اور سعودی عربیہ ائیر ویزکے پرواز کے شیڈول میں ہر سال الجھنیں پیدا ہوتی ہیں۔ زیادہ تر پروازوں میں خلاف معمول تاخیر ہوتی ہے اور کبھی کبھی بغیر کسی پیشگی اطلاع کے کینسل بھی کردی جاتی ہے ۔ حج مکمل کرنے کے بعد واپسی سفر میں یہ عام بات ہے ۔ ایچ سی ائی، ایم ای اے ، ائیر انڈیا اور سعودی ائیر ویز ،نئی دہلی کے نمائندوں پر مشتمل ایک کواڑدینیشن اور مانیٹرنگ سیل کو قائم کیا جاناچاہیئے۔
سعودی حکومت کی ذمہ داری :
ہر سال پوری دنیا کے لگ بھگ ۳۰ لاکھ عازمین حج کے انتظام اور انصرام کیلئے سعودی حکومت کی سراہنا ضروری ہے۔ مکہ اور مدینہ میں لگاتار توسیعی کاموں کیلئے میں انکو مبارکباد دیتا ہوں۔ یہ لوگ کئی ہزار کروڑ روپئے کی عمارتوں اور انفرا اسٹرکچر کوتوڑنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں رکھتے ۔ گذشتہ ایک دہائی میں میں نے کئی مقامات پر ترقیاتی کاموں کو دیکھا ہے۔ مکہ اور مدینہ میں حرم کے احاطہ کے اندر وضوخانہ، بیت الخلاء اور غسل خانہ کی بنیادی سہولیات کا جواب نہیں ہے۔ یہ تمام بہت ہی منظم اور لگاتار صاف ستھرا رہتے ہیں۔ اسکے علاوہ سعودی حکومت کی ذمہ داریوں میں بھی کچھ خامیاں دیکھنے کو ملتی ہے۔
قربانی: اسلامی شریعت کے مطابق بکرے ،اونٹ اور دوسرے جانوروں کی قربانی کی ادائیگی میں حاجیوں کو لگاتار دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ جانور کی قربانی کیلئے حکومت سعودی عربیہ کے ذریعہ تعینات مجاز ایجنسی سے خریدی گئی کوپن پر ہی عازمین کو اس بات کیلئے مطمئن ہونا پڑتا ہے ۔ کم سے کم قربانی کے وقت کے سلسلے میں عازمین کے موبائیل پر اسکی اطلاع دیا جانا چاہیئے کہ انکی قربانی کا وقت کیا ہے
میٹرو: ۹ ویں ذی الحجہ سے ۱۰ ویں ذی الحجہ تک منیٰ۔ عرفات۔ مزدلفہ۔منیٰ کے درمیان رواں دواں ہونے کیلئے عازمین کیلئے دستیاب نقل و حمل میں کافی بے ترتیبی دیکھی جاتی ہے ۔ ان مقامات پر جانے کیلئے حکومت سعودی عربیہ نے میٹرو ٹرین شروع کیاہے اور اسکو لازمی سواری قرار دیا ہے ۔ بغیر کسی وجہ کے دوسرے نقل و حمل کے طریقوں جیسے بس وغیرہ پر پابندی لگادیا جاتا ہے۔ میٹرو اس چیلنج کو نبھانے میں قاصر نظر آتا ہے کیونکہ بہت ہی کم تعداد میں ٹرینیں ہیں اور ٹرین لائن بھی محض دو ہی ہے۔ اسکے علاوہ ناتجربہ کار موسمی کارندوں کے ہاتھوں اسکا نظم ہوتا ہے ۔ کافی بھیڑ کی وجہ سے کچھ عازمین کا اس دوران انتقال بھی ہو جاتا ہے۔ عازمین کو حج کی ادائیگی مکمل کرنے کیلئے جدوجہد کا سلسلہ چلتا رہتاہے
کھانے کے اسٹال کی کمی:
ایک زمرہ جہاں کافی بہتری کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ مکہ اور مدینہ کے حرم کے نزدیک فڈ اسٹال اور ریسٹورینٹ کی زیادہ تعداد میں ضرورت ہے۔ حرم کے ارد گرد سبھی نماز کے فوراً بعد ایسے اؤٹ لیٹ پر کافی بھیڑ جمع ہو جاتی ہے۔ کھانے کے لئے اس طرح کی بھیڑ ایسی کمییوں کو ظاہر کرتا ہے۔ حج سیژن کے دوران حکومت سعودی عربیہ کو ایسے فڈ اسٹال زیادہ سے زیادہ لگانے کی طرف توجہ دینی چاہیئے۔
کرین:
میں مکہ اور مدینہ میں واقع حرم کے عمارتوں کے توسیع اور دوسرے بنیادی ڈھانچہ میں سعودی عربیہ کے سبھی کوششوں کی سراہنا کرتا ہوں۔ میں نے حرم کعبہ کے اوپر کئی کرین کو جھولتے ہوئے دیکھا ہے ۔ یہ سبھی خطرناک معلوم ہوتے ہیں اور اس میں بڑے حفاظتی اندیشے کا دخل رہتا ہے۔ حج موسم کے شروع ہونے کے ساتھ ہی وہاں نصب کرین کو ہٹا دینا چاہیئے۔ حرم کے نزدیک ایسے دوسرے تعمیراتی سپورٹ سسٹم کو بھی ہٹا دینا چاہیئے۔ یہ جھولتے ہوئے کرین حرم کعبہ کے اندر گرچکے ہیں جس سے گزشتہ سال بڑی تعداد میں عازمین جابحق ہو چکے ہیں۔
منیٰ میں جمرات:
جمرات شیطان کمپلکس میں گزشتہ ایک دہائی میں کافی سدھار کیا گیا ہے۔ ابھی بھی کچھ سال پہلے بھگدڑ میں بہت سارے عازمین ہلاک ہوچکے ہیں۔ بنیادی سہولیات میں تبدیلی کیلئے جدید ترین ٹکنالوجی کے استعمال کی ضرورت ہے ۔ حکومت سعودی عربیہ کی مقدم ذمہ داری عازمین کے زندگی کا تحفط ہے ۔
میں نے مذکورہ مشوروں کو متعلقہ حکام کو غور و خوض اور ضروری کاروائی کرنے کیلئے ارسال کر چکا ہوں ۔ جن حضرات کو حج کے انتظام میں بہتری لانے کیلئے سفارشات بھیجے ہیں وہ یہ ہیں:
۱۔ہندوستان میں سعودی عربیہ کے سفیر ۲۔سعودی عربیہ ریاض میں ہندوستان کے سفیر ۳۔ قونصل جنرل آف انڈیا، جدہ ۴۔ سکریٹری،ویسٹ، وزارت خارجہ، نئی دہلی ۵۔ جوائنٹ سکریٹری،انچارج حج ، وزارت خارجہ، حکومت ہند، نئی دہلی۶۔ ڈائریکٹر انچارج حج،وزارت خارجہ، حکومت ہند، نئی دہلی۷۔ وزیر، اقلیتی امور، حکومت ہند،نئی دہلی ۸۔ وزیر مملکت، اقلیتی امور، حکومت ہند،نئی دہلی ۹۔ سکریٹری، اقلیتی امور، حکومت ہند،نئی دہلی ۱۰۔جوائنٹ سکریٹری،انچارج حج، اقلیتی امور، حکومت ہند،نئی دہلی ۱۱۔سی ای او ،حج کمیٹی، ممبئی