حق ایجوکیشن اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن کی جانب سے جلسہ تقسیم اسناد، انعامات و دستار بندی کا انعقاد
کانپور:۔ حق ایجوکیشن اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن کے جلسہ تقسیم اسناد و انعامات و دستاربندی بعنوان’’اسلام کا پیغام انسانیت کے نام ‘‘ کا انعقاد ڈاکٹر راگیندر سروپ آڈیٹوریم میں منعقدہوا۔ ادارہ سے چوتھے بیچ کے 21فارغین کو انعامات تقسیم کئے گئے اور ادارہ ہی میں قائم ڈے بورڈنگ تحفیظ القرآن سے تکمیل حفظ کرنے والے 5طلباء کے سروں پر دستار حفظ باندھی گئی ۔ جلسہ میں علمائے کرام نے قیمتی اور مفید باتوں سے لوگوں کو فیضیاب کیا۔بھیونڈی مہاراشٹر سے تشریف لائے مولانا سید محمد طلحہ قاسمی نقشبندی نے کہا کہ زبان دنیا کی کوئی بھی ہو وہ بحیثیت زبان بری نہیں ہوا کرتی ۔ زبانوں کا اختلاف اللہ کی قدرت کی نشانی ہے۔قرآن میں جہاں مختلف زبانوں کو اپنی قدرت کی نشانیوں میں بیان کیا ہے اس سے پہلے اپنی قدرت کی بہت سی نشانیاں بیان کی ہیں ۔ اللہ نے اپنی قدرت کی نشانیوں کو بیان کرنے کا مقصد بھی بیان فرمایاہے کہ اس میں غور وفکر کریں ۔ اللہ نے اپنی قدرت کی نشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اللہ نے دن ورات بنائے ،صبح وشام بنائے جس میں سب سے زیادہ تبدیلیاں آتی ہیں ۔ اللہ نے رات بنائی جس کے ذریعہ معاش کیلئے قوت وتوانائی حاصل ہوتی ہے ، اللہ تعالیٰ کا کوئی بھی کام مقصد سے خالی نہیں ہے ۔اللہ کے کسی کام میں کوئی کوتاہی اور کمی نہیں ہوتی۔ اگر ہمارے سمجھ میں نہیں آتاتو یہ ہماری عقل کی کمی اور قصور ہے۔ اس کائنات میں یکسانیت نہیں ہے ۔ قدرت کو نمایاں طور سے دیکھنے کیلئے دن اور رات کو ہم روز دیکھتے ہیں۔ کوئی وقت اور تبدیلی بے کار نہیں ہے۔ انسان کو مر کر اللہ کے پاس جانا ہے وہ اس کی فکر کرے اور اپنے اندر آخرت کی فکر پیداکرے۔ اللہ نے انسانوں کومٹی سے بنایا اور ان کے سکون کے لئے ان میں بیوی پیدا کی ،یہ بھی اللہ کی قدرت کی نشانی ہے ۔ اسلام نے گندگی سے نفرت کرنے کی تعلیم دی ہے لیکن جس کے اندر گندگی ہے اس سے نفرت کی نہیں بلکہ اس سے ہمدردی اور اس کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔ انسانوں کو زندہ رکھنے کیلئے درخت، پہاڑ، کھیتی، بنائی ۔ عورتوں کے باہر نکلنے سے انسانوں کا خاندانی نظام تباہ ہو گیا۔ طاقت کا صحیح استعمال اسی وقت ہو سکتا ہے جب گھر کے کام عورتوں اور باہر کا کام باہر مردوں کے سپرد ہو۔ ہمیں اپنی عقل کا صحیح استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ مولانا نے انگریزی زبان سے علماء کی مخالفت کے سلسلے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مختلف زبانیں خدا کی نشانیوں میں سے ہیں،اس کی مخالفت نہیں کی گئی بلکہ اس کے ساتھ آنے والی مغربی تہذیب و تمد ن، فکر و سوچ کی مخالفت کی تھی۔ جس میں لادینیت ، فحاشیت اور عریانیت تھی ۔بھائی چارہ و خاندانی نظام کو درہم برہم کرنے کی فکر لے کر انگریز ہندوستان کو یہاں کے رہنے والوں کو غلام بنانے کے لئے آئے تھے ۔ ہمارے اکابر نے اس کومحسوس کیااس لئے شدت سے اس کی مخالفت کی تاکہ وہ ہمارے تہذیب وتمدن اور شعار کو بگاڑ نہ سکیں لیکن آج جب بگاڑ پیدا کرنے میں انگریز کامیاب ہو گئے ،ہمارے گھروں کو آگ لگ گئی تو اس کا بجھانابھی ہمارے لئے ضروری ہے۔ اس لئے وہی لوگ جو پہلے اس کی مخالفت کرتے تھے ، وہ معاشرہ کو سدھارنے اور دین کے فروغ کیلئے انگریزی کی تعلیم دینے کیلئے ادارے قائم کئے ۔ مولانا نے کہا کہ انگریزی دعو ت وتبلیغ اور اسلام کے تئیں شکوک وشبہات کورد کرنے کیلئے سیکھیں ۔ انگریزیت سے مرعو ب نہ ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو ان کے قوموں کی زبان میں تبلیغ کے لئے بھیجا ۔آج دنیا میں انگریزی زبان ،رابطے کی زبان بن چکی ہے اس لئے اس کو علماء کرام نے سیکھا ہے اس کو بروئے کار لاتے ہوئے دین کی خدمت کریں ۔اللہ نے انسانوں کو الگ الگ زبانیں عطا کی ہے۔ زبانوں پر اس کے معاشرے کے ماحول کا اثرہوتاہے معاشرے میں سدھار ہونے کے ساتھ محاورے کے مطلب بھی بدل جاتے ہیں ،اس لئے حضور ﷺ نے آنے کے بعد سب سے پہلے معاشرے کے ماحول کوبدلا وہ محاورہ جس کے معنیٰ پہلے عصبیت کے تھے ،بعد میں انصاف پر مبنی معنی کے حامل ہو گئے۔ جب انگریز یہاں آئے تھے تو وہ صرف یہاں کی زمین پر قبضہ نہیں کیا بلکہ یہاں کے لوگوں کے دل ودماغ پرقبضہ کیا۔علم کا حصول کسی زبان پر موقوف نہیں ہے۔ صنعت کے میدان میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ جاپان،برطانیہ اور فرانس ہے لیکن ان کو انگلش سے نفر ت ہے ۔اس لئے ہم احساس کمتری میں مبتلا نہ ہوں۔ مولانا نے فارغ ہونے والے طلباء کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ ہم انگریزی کو دعوت کی ضرورت کیلئے حاصل کر تے ہیں ۔ ہمارے لئے ضروری ہے ہم اللہ کا پیغام انسانوں کے درمیان ان کی ہی زبان میں پہنچائیں۔ اللہ ضرورتیں پور کریں گے۔ جو لوگ زیادہ مال کمانا چاہتے ہیں کہ وہ درحقیقت فانی دنیا کو جنت بنانا چاہتے ہیں ۔ لیکن جس طرح ریت پر گھر نہیں بنایا جا سکتا اسی طرح اس دنیا میں جنت نہیں بنائی جا سکتی ہے۔ حق ایجو کیشن کے بانی و چیئر مین مولانا محمد متین الحق اسامہ قاسمی قائم مقام قاضئ شہر کانپور نے کہا کہ امت مسلمہ کی بحیثیت امت ذمہ داری ہے کہ وہ جس علاقے میں رہے وہاں کے کلچر، خاندانی نظام ، امیری و غریبی کی سطح کے نقصان وفوائد کی معلومات رکھے کیونکہ اللہ نے رسول اللہ ﷺ کی امت کو کار نبوت بھی سونپا ہے ۔ آپ ﷺ نے جو نمونہ چھوڑا ہے اس پرعمل کرکے ہم دنیا و آخرت دونوں بنا سکتے ہیں مولانا نے کہا کہ آج جو دنیا میں تصادم ہے وہ مذہب کے اعتبار سے کم ،لیکن تہذیب وکلچر کے اعتبار سے زیادہ ہے ۔ آج دنیااسلامی کلچر کو ختم کرنے کے درپے ہے ۔ مولانا نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ کے بعد اس وقت امریکہ کے صدرجارج ڈبلو بش کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس نے اس وقت کہا تھا کہ جب تک داڑھی اور برقعہ باقی رہے گا تب تک جنگ جاری رہے گی ۔ مولانا نے کہا کہ اسلامی تہذیب وتمدن کو روس کے سابق صدر گربا چوف نے بھی محسوس کیا تھا ۔ اس نے اس کا برملا اظہارکیا تھا کہ اگر سکون چاہتے ہو تو اسلامی نظام خاندان کو اپنا لو۔ آج میڈیا کا استعمال اسلام کے خلاف کیا جا رہا اور اعتراضات انگریزی میں کیا جا رہاہے دنیا کے حالات کو سامنے رکھ کر موؤر انداز میں دین کو پہنچانا وقت کا تقاضہ ہے۔ ہمیں کردار کو پیش کرنے کی ضرور ت ہے،کانپور علمی شہر ہے ۔ اس وقت مذہب کی جنگ کم تہذیب کی جنگ زیادہ ہے۔ دنیا چاہتی ہے کہ مسلمان رہیں لیکن وہ مسلمان نظر نہ آئیں۔ مولانا نے حجاب کے فوائد کو بھی بتاتے ہوئے ایک واقعہ کا ذکر کیا کہ ایک بہت بڑے پادری کی بیٹی نے صرف حجا ب کے فوائد کو پڑھ کر اسلام کو قبول کر لیا۔ اس اثناء میں علماء کی ذمہ داری بڑھ جا تی ہیں۔ حق ایجوکیشن میں پڑھنے والے بچے صدقہ جاریہ ہیں کیونکہ یہ دنیا کے اعتراضات کو سمجھ کر ان کو ان کی ہی زبان میں سمجھائیں گے۔ مولانا نے نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کی اور ملک کی خدمت کریں ،نفرت کا جواب اخلاق اور اعلیٰ کردار سے دیں ۔ غلط فہیوں کا ازالہ نرمی و مروت سے کریں ۔ ہمیشہ اسلامی تہذیب و تشخص کو برقرار رکھیں ۔ مدرسہ جامع العلوم پٹکاپور کے استاذ حدیث و حق ایجوکیشن کے نائب چیئر مین مفتی عبد الرشیدنے کہا کہ یہ ادارہ حق ایجوکیشن اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن جو قائم کیا گیاہے اس کامقصد ہے کہ علماء جو دینی تعلیم سیکھتے ہیں اس کی صحیح انداز میں لوگوں کے سامنے وضاحت کر سکیں ۔ لوگوں کے دلوں میں پیدا ہونے والے شکو ک وشبہات کا ازالہ پوری دلیل کے ساتھ کر سکیں۔ انگریزی زبان میں مہارت حاصل کرنے کا یہی مقصد ہے۔ مفتی اقبال صاحب نے کہا کہ دین اسلام عالم گیراور قیامت تک سب کیلئے ہے۔ نبوت کے تقاضے علماء سے پورے ہو رہے۔ زبان کے اعتبار سے جو خلا ء ہے اس کو پورا کیا جائے۔ فضلا نے دین کے تقاضے کے تحت انگریزی و انٹرنیٹ کی مہارت اس کو دنیا کو کمانا نہیں ہے بلکہ دنیا کے ذریعہ کئے جا رہے نت نئے انداز میں ہو رہے حملوں کاو جواب دینا ہے۔ حق ایجوکیشن سے فارغ ہونے والوں میں پہلی پوزیشن امبیڈکر نگر کے مولانا ابو اسامہ اور دوسری پوزیشن جونپورکے مولانا محمد کاشف اور تیسری پوزیشن مؤ کے مولانا احمد مکین نے حاصل کی۔ اس کے علاوہ پروگرام میں مختلف قسم کے ایوارڈ اچھے اخلاق ،حاضری، امداد باہمی ، صفائی ستھرائی سمیت دیگر کامو ں کے لئے بھی تقسیم کئے گئے ۔ جلسے کی صدارت مولانا متین الحق اسامہ قاسمی نے فرمائی اور نظامت کے فرائض حق ایجوکیشن کے استاد مولانا محمد جاوید قاسمی نے انجام دئے۔ جلسے کاآغاز حافظ حفظان کی تلاوت کلام پاک سے ہوااور ادارے کے طالب علم مولانا عبد اللہ نے نعت ومنقبت کا نذرانہ پیش کیا۔ ادارے کے ڈائرکٹر مولانا حفظ الرحمان قاسمی نے بہترین تعلیم اور تربیت کیلئے اساتذہ کرام کی تعریف کی اور ان کا شکریہ اداکیا۔ خطبہ استقبالیہ مولانا مفتی مفتاح صاحب قاسمی نے پیش کیا۔ مولانا محمد انس نے آئے ہوئے تمام شرکاء کا شکریہ اداکیا۔ آخر میں مولانا اسامہ قاسمی نے شہر میں ایک ایسا اسکول قائم کرنے کا اعلان کیا جہاں پر اسلامی ماحول میں انگلش میڈیم سے اعلیٰ تعلیم دی جائے گی اورجلد ہی ایک معیاری کوچنگ سینٹر کھولنے کا بھی اعلان کیا۔پروگراممیں جمعیۃ علماء شہر کانپور کے صدر بزرگ عالم مولانا انوار احمد جامعی کے علاوہشہر کے درجنوں علماء اور سیکڑوں عوام نے شرکت کی۔