ہردوئی17مئی(ماتینول حق) اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کہا کہ نہ اپنے کو کمزور سمجھو نہ غمزدہ ، تم ہی سربلند رہو گے۔ آج عالمی سطح پر مسلمان اپنے کو کمزور سمجھ رہا ہے کہ ہم اقلیت میں ہیں، ہمارے پاس پاور،طاقت و دولت نہیں ،پھر ہم لوٹے اورمارے جا رہے ہیں ،مظلوم ہیں اور ستائے اور پریشان کئے جا رہے ہیں ، کہیں مسجدیں توڑی جا رہیں،مدرسوں پر بے جا الزامات لگ رہے ہیں اور مسلمان اپنے کو کمزور سمجھ رہا ہے ۔ مولانا نے بتایا کہ اللہ نے کہا کہ تم ہمیشہ سربلند رہو گے مگر شرط یہ ہے کہ ہم حقیقی ایمان والے ہوں ،اب ہم جائزہ لیں کہ ہمارے پاس حقیقی ایمان ہے کہ نہیں ؟ان خیالات کا اظہار نوجوانان ہردوئی کی جانب سے بلگرام میں منعقدہ جلسہ پیام انسانیت کو خطاب کرتے ہوئے مولانا محمد متین الحق اسامہ قاسمی قائم مقام قاضئ شہر کانپور نے کیا۔ مولانا لوگوں سے سوال کیا کہ کیا واقعی ہم اللہ ،نبی ،قرآن وصحابہ اور بزرگان دین سے تعلق رکھنے والے ہیں؟آگے کہا کہ جب تک مسلمان اپنے ایمان پر رہے اس وقت تک اللہ نے اپنا یہ وعدہ پورا کیا۔ مکہ کی خستہ حال زندگی سے لیکر جنگ بدر تک صرف 313اور صرف ایک سال کے بعد جنگ احد میں 700ہو گئے اس کے بعد محض3سال کے بعد صلح حدیبیہ میں 1400،اس کے دو سال بعد فتح مکہ میں 10ہزار پھر دو سال بعد حجۃ الوداع کے موقع پر 1؍لاکھ 24ہزار ہو گئے ۔آخر یہ کون سی طاقت تھی ؟یہ طاقت ایمان واخلاق و کردار اور زندگی کی پاکیزگی کی طاقت تھی ، ان کی نگاہ ،کان و زبان تک پاکیزہ تھی ، وہ بلا تفریق مذہب سب کے ہمدردوخیر خواہ اور سب کی مدد کرنے اور کام آنے والے تھے ۔ وہ کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کرتے تھے۔ اس کے علاوہ سب سے خاص بات یہ تھی کہ اس زمانے میں مسلمانوں کے پاس حکومت ،طاقت،دولت بھی نہیں تھی کہ کوئی یہ کہے کہ اسلام تلوار اور دولت کے زورپر پھیلا ہے ،جو تلوار کے زور پر اسلام پھیلنے کی بات کرتے ہیں ان کو چاہئے کہ صحابہؓ کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تب معلوم ہوگا کہ یہ بات کہنے والے کس حد تک جھوٹ بولتے ہیں۔ شروعات میں تو ہر لمحہ مظلومیت تھی اور صحابہ پر ظلموں کے جو پہاڑ توڑے گئے کہ ان اذیتوں کی شدت کو ہم لفظوں میں بیان تک نہیں کر سکتے۔لیکن پھر بھی اسلام نے جس تیزی سے ترقی کیا وہ ہمارے سامنے ہے۔ آج تو ہرضلع میں لاکھوں کی تعداد میں بسنے والے مسلمان موجود ہیں اور ہمارے ملک میں مسلمانوں کی آبادی 25 کروڑ سے اوپر کی ہے، لیکن پھر بھی ہم اپنے کو کمزور کہہ رہے ہیں اور اللہ کا فرمان ہے کہ اپنے آپ کو کمزور مت سمجھواور اسی کے اگے اللہ نے فرمایا کہ اگر تم باز نہیں آؤگے تو تمہاری جگہ ہم دوسری قوم کو لے آ ئیں گے ، آج ہم اپنے نوجوانوں کو جوا، شراب ، فحاشی وعریانیت،کسی کی مدد نہ کرتے ہوئے عام طور سے دیکھ سکتے ہیں کیا یہ ایمانی زندگی ہے ؟کیا ہم آج ان 313 لوگوں سے بھی زیادہ کمزور ہیں جن کے پاس لڑنے کے لئے صحیح طور سے اسلحہ تک موجود نہیں تھا۔ اس لئے ہم یہ طے کریں کہ ہم اپنی اخلاق وکردار کے ساتھ ایمان والی زندگی بنائیں گے پھر دیکھیں کہ تبدیلی آتی ہے یا نہیں ؟اس کے علاوہ مولاناعبد الغنی صاحب ،مولانا شریف صاحب و مولانا عبد الجبار صاحب نے عوام سے خطاب کیا۔ جلسے کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ مولانا اطہر ثاقبی نے نظامت کے فرائض بحسن وخوبی انجام دئے وہیں ڈاکٹر رفیق بلگرامی نے نعت ومنقبت کا نذرانہ پیش کیا۔مولانا اسامہ قاسمی کی دعاء پر ہی جلسہ اختتام پذیر ہوا۔ اس موقع پر آس کے علاقوں کے سیکڑوں لوگ موجود تھے۔
انسانی تعمیر وترقی میں علم دین ہی وہ بے مثال تحفہ ہے جو کہ انسان کو اندھیریوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے ، اور آج ہمارے اوپر آنے والی پریشانیوں کی اہم وجہ نبیؐ کی سنتوں کو ترک کرنا ہے جس قوم نے سنت نبویؐکو چھوڑا وہ قوم حقیقی ترقی کے منازل نہیں طے کر سکتی ۔مولانا نے کہا کہ قرآن کریم امت مسلمہ کی ہدایت کے لئے بہترین ذریعہ نجات ہے ۔ آج ملت اسلامیہ احکام خداوندی سے کوسوں دور ہو چکی ہے جبکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا قرآن کریم میں واضح ارشاد ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور آپس میں تفریق مت پیدا کرو۔ آج ملت اسلامیہ پر احکام خداوندی اور سنت نبویؐ کو ترک کرکے چوطرفہ مشکلات میں گھرتی نظر آ رہی ہے، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے بھی قرآن کریم سے اپنا رشتہ ختم کرکے اپنے مسائل کا حل قرآن کے علاوہ کسی اور کتاب میں تلاشتے ہیں، آگے کہا کہ قابل مبارکباد ہیں وہ لوگ جو آج کے اس دور میں بھی مختلف چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے قرآن کریم کی تعلیم دے رہے ہیں ،اور چھوٹے چھوٹے بچوں کو حافظ قرآن بنا رہے ہیں۔مولانا نے موجود لوگوں کو علم کی اہمیت بتاتے ہوئے کہا کہ علم کا سیکھنا تمام مسلمانوں پر فرض ہے ، حصول علم کے بغیر کامیابی کی کوئی بھی منزل طے نہیں کی جا سکتی ہے،انہوں نے کہا کہ ہر اس علم کا سیکھنا ہمارے لئے ضروری ہے جو فائدہ مند ہو اور ہمارے لئے عصری اور دینی دونوں ہی علوم مفید ہیں، جو لوگ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر دیگر میدانوں میں خدمات انجام دیتے ہیں ،باشرع رہ کر مختلف امور میں سرگرم رہتے ہیں انہیں زیادہ کامیابی ،عزت اور شہرت ملتی ہے بہ نسبت ان لوگوں کے جو برائے نام مسلمان ہوتے ہیں اور سیکولرزم کالبادہ اوڑھ کر مذہبی امور کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں ، مولانا نے کہا موجود نوجوانوں سے کہا کہ آپ ماہر ڈاکٹر،انجینئر،سیاست داں بنیں لیکن اسلامی شعائر سے اپنا رشتہ ختم نہ کریں ،اپنی اور اللہ کی حقیقت کو فراموش نہ کریں۔
اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور آپس میں تفریق مت پیدا کرو: قرآن
