رضوان احمد ایک بے حد اہم اور معبتر اردو صحافی تھے ، انہوں نے اردو صحافت کو ایک اعلیٰ معیار اور وقار بخشا ہے۔ انہوں نے صحافت کو کبھی تجارت نہیں سمجھا، بلکہ عبادت ریاضت اور مشن کے طور پر قبول کیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ اردو صحافت عموماً آزادی ہند سے قبل تک ایک مشن تھی، بعد میں تجارت بن گئی۔ بے شک ایسا ہوا۔ لیکن آزادی ہند کے بعد ملک کے اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ جو ظلم و استبداد اور استحصال ہوتا رہا، اس کے خلاف نبرد آزما رہنا یہ ایک مشن ہی تھا اور اردو صحافت کی حرمت اور آبرو کو برقرار رکھنے کے لئے رضوان احمد نے اہم رول ادا کیا ہے۔
رضوان احمد کا اصل نام رضوان احمد خان تھا ، انھوں نے آزادئ ہند کے چوبیس دنوں بعد یعنی ۹ ستمبر ۱۹۴۷ء کو اتر پردیش کے ضلع بارہ بنکی میں واقع ایک بے حد معمولی گاؤں موئی کے معمولی زمیندار گھرانے میں آنکھیں کھولیں۔ ابتدائی تعلیم اسی گاؤں کے ایک اوسط درجہ کے مکتب اسلامیہ میں اور پرائمری اسکول میں انہوں نے حاصل کی۔ اس کے بعد وہ آگے کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے کانپور آئے، جہاں تین سال کے قیام کے دوران انہوں نے ارد گرد کی فیکٹریوں سے اٹھتے کالے دھوئیں میں طرح طرح کے ظلم اور ناانصافی دیکھی۔ ایک حساس ذہن نے اس کے خلاف اپنی بے حد کمزورآواز کو اٹھانے کی کوشش کی اوراس ساتویں درجہ کے طالب علم نے اپنے احساس کی ترجمانی کے لئے ایک قلمی اخبار ’’اصلاح‘‘ نکالا۔ ٹوٹی پھوٹی زبان میں اس قلمی اخبار کے چار پانچ شمارے نکلے۔ ان چار پانچ شماروں میں اس نو عمر صحافی نے اپنے اندر کی بھڑاس ہی نکالی ہوگی، لیکن یہ تو اندازہ ہو گیا کہ اس وقت کی یہ چنگاری آگے جا کر شعلہ بنے گی اور وہی ہوا۔ ان کے والد تلاش معاش کے لئے پٹنہ آگے تھے، کانپور کی مسموم فضا رضوان احمد کو راس نہیں آئی ، وہ اپنے گاؤں آ گئے اور اپنے گاؤں سے روزانہ نو میل کی مسافت سائکل سے طئے کر کے ہائی اسکول جاتے تھے ، اس اسکول میں اردو کی پڑھائی نہیں ہوتی تھی۔ لہٰذا انہیں ہندی اور سنسکرت پڑھنا پڑی۔جس کے نتیجہ میں انہوں نے تلسی داس کی رام چرتر مانس کے ساتھ ساتھ سوز، میرا بائی، کبیر اور رحیم خان خاناں کو دلچسپی کے ساتھ پڑھا۔ اس دوران ۱۹۶۱ء میں ان کے دادا مولانا نثار احمد خاں نثار کا و صال ہو گیا اور رضوان احمد ، پٹنہ اپنے والد کے پاس آگئے، جہاں کے مسلم ہائی اسکول میں داخل ہوئے، میٹرک یہاں سے پاس کرنے کے بعد انٹر، بی.اے. آنرز اور پھر پٹنہ یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کی تعلیم مکمل کی۔ بہت بعد میں انھوں نے نصابی ضرورت کے تحت اردو صحافت پر تحقیقی مقالہ لکھ کر بھاگلپور یونیورسیٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری پائی۔ والدین کی خواہش تھی کے رضوان احمد ڈاکٹر بنیں ، لیکن قدرت ان سے آمرانہ نظام کے خلاف کام لینا چاہتا تھا۔ ۱۹۶۵ء سے ۱۹۷۵ء تک مسز عزیزہ امام ( سابق ممبر پارلیامنٹ ) کی سرپرستی میں ماہنامہ ’’ زیور‘‘ پٹنہ سے نکالتے رہے، جس میں وہ خواتین کے حقوق کی پا مالی اور ان کے سیاسی، سماجی اور معاشرتی استحصال کے خلاف صف آرا ٗ رہے تقریباً ہر شمارہ میں مناظرعاشق ہر گانوی کا قومی اور بین الاقوامی شہرت یافتہ خاتون پرمضمون شائع ہوتا۔ ’’آرسی‘ کے عنوان سے اداریہ ہوتا۔ ’’میرا صفحہ‘‘ کے عنوان سے رضوان احمد کا مختلف مسائل پربے حد اہم تبصرہ ہوتا۔ دسمبر ۱۹۷۳ء کے شمارہ میں ’’ہندی خواتین افسانہ نمبر‘‘ کا اعلان بھی ہوا۔ لیکن (غالباً) شائع نہیں ہو سکا۔ اس ماہنامہ کو ملک کی صف اول کی ادیبہ و شاعرات کا بھی تعاون حاصل تھا۔ عصمت چغتائی ،عفت موہانی، عطیہ پروین، ہاجرہ نازلی، واجدہ تبسم، صالحہ عابدحسین وغیرہ وغیرہ کی تخلیقات اکثر و بیشتر ’’زیور‘‘ میں نظر آتیں۔ اکتوبر ۷۳ء کے شمارہ میں رضوان احمد نے لکھا تھا151’’اردو رسالے کا مدیر آ ج کے دور کا سب سے مظلوم ترین طبقہ ہے ’’ ان کا یہ جملہ آج بھی اسی شدومد سے قائم ہے۔
رضوان احمد اس وقت تک سیاسی، سماجی، تعلیمی، معاشرتی، اقتصادی ادبی اور لسانی مسائل کو بہت اچھی طرح سمجھنے لگے تھے۔بچپن سے اپنے ارد گرد جو ظلم و ستم ، جور و جبر، استحصال و استبداد دیکھے، زمینداری ، تعلقداری اور جاگیرداری کے نفرت انگیز حادثات اور واقعات جس طرح ان کے سامنے آئے ، ان سب نے مل کر ان کے دل و دماغ میں شعلے بھر دئے اور جب جب ظلم و بربریت کا ننگا ناچ ان کے سامنے ہوتا ، ان کے اندر کا شعلہ بھڑک اٹھتا اور وہ اپنے قلم کو شمشیر برہنہ کی طرح لے کر ان کے خلاف نبردآزما ہوتے۔ رضوان احمد اس امر کا اعتراف کرتے ہیں کہ ؛
’’ کیونکہ میں یہ مظالم اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکتا تھا ۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ سب کچھ دیکھ کر میں خاموش رہونگا تو میرا دم گھٹ جائگا ‘‘
( مجھے بولنے دو ، رضوان احمد ۔ صفحہ۔ ۲۹ )
اس کے بعد رضوان احمد ظلم و ستم اور استحصال و استبداد کے خلاف مسلسل بولتے رہے۔ رسالہ ’’ زیور ‘‘ سے بذات خود جو ٹریننگ اورصحافتی تجربہ حاصل کیا ، اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے انہوں نے ۲۶؍ جنوری ۱۹۷۴ء سے ہفتہ وار اخبار ’’عظیم آباد اکسپریس‘‘ نکالنا شروع کیا۔ اس ہفتہ وار اخبار نے خوب تہلکہ مچایا۔اس کے ادارئے ہر خاص و عام میں مقبول ہوئے۔مصلحت پسندی، مفاد پرستی اور ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال اور ظلم و استبداد کے خلاف بھڑکنے والی اپنے اندر کی آگ کی اور اپنے داخلی اور خارجی احساسات و جذبات کی اس انداز سے وہ اپنے اداریوں میں ترجمانی کرتے کہ لوگوں کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ ان کے دل کی آواز ہے۔ صدر جمہور یۂ ہند مرحوم فخر الدین علی احمد، مسز محسنہ قدوائی، عصمت چغتائی، واجدہ تبسم، سلامت علی مہدی، عشرت علی صدیقی، رنبیر، وزیر آغا اور گوپی چند نارنگ وغیرہ جیسی اہم شخصیات ان کی صحافتی تحریروں کی مداح تھیں۔ شہرت اور مقبو لیت نے ان کے اندر مزید خود اعتمادی پیدا کردی تھی اور انہوں نے ایک قدم اور آگے بڑھکر اپنے اس اخبار کو ۲ دسمبر ۱۹۸۰ء سے روز نامہ میں تبدیل کر دیا۔ اس روزنامہ کے اداریوں کی چاروں طرف دھوم مچ گئی۔ اس زمانہ میں ایسا لگتا تھا، جیسے سارے زمانے کو انکے اداریوں کا انتظار رہتا تھا۔ رضوان احمد کے اداریوں کی پسندیدگی کا اظہار اکثر لوگ خطوط کے ذریعہ کرتے تھے۔ ان خطوط کے کچھ اقتباسات رضوان احمد کی کتاب ’’ مجھے بولنے دو ‘‘ کی رسم اجراء کے موقع پر شائع ہونے والے روزنامہ ’’ عظیم آباد اکسپریس ‘‘ کے ایک خصوصی ضمیمہ میں شائع کئے گئے تھے۔ ان خطوط میں ہر مکتبہٗ فکر اور شعبۂ حیات کی سر کردہ شخصیات ، خواہ وہ سیاست داں ہوں، صحافی ہوں ، ادیب و شاعر ہوں یا پھر سماجی کارکن ہوں ، تمام لوگوں نے اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ وہ رضوان احمد کے بے باک ، بے لاگ ، بے خوف اور جرأت مندانہ اداریوں کے مداح ہیں ۔ اس ضمن میں سابق صدر جمہوریہ ہند مرحوم فخر ا لدین علی احمد نے لکھا تھا ۔۔۔
’’ تمہاری تحریر میں درد مند انسان کو متاثر کئے بغیر نہیں رہ سکتیں ‘‘
( روزنامہ ’’ عظیم آباد اکسپریس ‘‘ ۱۹ فروری ۱۹۸۳ )
سابق مرکزی وزیر مسز محسنہ قدوائی نے رضوان احمد کی صحافتی خوبیوں کا اعتراف ان لفظوں میں کیا تھا ۔۔۔۔۔
’’ تمہاری تحریروں نے مجھے ہمیشہ متاثر کیا ہے۔ ایک ایماندار صحافی میں جو جرأت اور بیباکی ہونی چا ہیے، وہ تمہارے اندر بدرجۂ اتم موجود ہے ۔
( ایضاَ )
ادبی دنیا کی بھی کئی اہم شخصیات نے رضوان احمد کے اظہار جرأت کا اعتراف کیا ہے ۔ مشہور افسانہ نگار اور ناول نگار عصمت چغتائی لکھتی ہیں ۔۔۔۔
’’ میں تمہاری تحریروں کی فین ہوں ۔ میں بتا نہیں سکتی کہ تمہارے ادارئے مجھے کس قدر پسند ہیں ‘‘
( ایضاَ )
مشہور افسانہ نگار اور ناول نگار اوپندر ناتھ اشک کی رائے تو ادبی تاریخ کا حصہ بن سکتا ہے ۔ وہ اس امر کے معترف ہیں کہ ۔۔۔۔
’’ میں صحافت میں ایمانداری کے پسند کرتا ہوں اور مجھے اس بات میں کوئی کلام نہیں کہ تمہاری دیانتداری نے مجھے متاثر کیاہے، بلکہ اردو میں دوبارہ مجھے واپس لانے کا سہرا ہی تمہارے سر بندھتا ہے ۔ ’’ گرداب ‘‘ کا تمہارے نام انتساب اس امر کا اعتراف ہے ، نہ تم مجھ سے انٹرویو لینے آتے اور نہ میں اردو میں کبھی واپس آتا ۔ ‘‘
( ایضاَ )
اردو کے معروف صحافیوں کے درمیان بھی رضوان احمد کے اداریوں کی بڑی قدرتھی۔ سلامت علی مہدی ، جمنا داس اختر، غلام نبی خیال، رنبیر ،وشواناتھ طاؤس وغیرہ اکثر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا کرتے تھے ۔ طوالت سے بچنے کے لئے میں صرف سلامت علی مہدی کی یہ رائے درج کر رہا ہوں، وہ لکھتے ہیں ۔۔۔
’’ اردو صحافت میں صرف چند نام ہی وقیع ہے اور بلا شبہہ ان میں تمہارا نام بھی ہے، کیوں کے تم میں اظہار کی جرأ ت ہے ‘‘ ( ایضاََ )
رضوان احمد ہمیشہ غربت ، افلاس سماجی نا ہمواری اور استحصال کے خلاف لکھتے رہے، مصلحت پسندی سے کبھی کام نہیں لیا ، اپنے قلم کا کبھی سودا نہیں کیا ۔ ہمیشہ حکمران وقت کی آنکھوں مین آنکھیں ڈال کر باتیں کیں ، کبھی کسی سے خوف ذدہ نہیں ہوئے ، دھمکیوں سے بے پرواہ رہے اور ہمیشہ ان باتوں پر مصر رہے ، جو ان کے خیال میں سچ تھا اور وہ ہمیشہ سچ بولتے رہے اور سچ بولنے کی انھیں بھاری قیمت بھی چکانی پڑی۔
۵؍جون ۱۹۷۷ء کو ’’ مکمل انقلاب کی تیسری سالگرہ ‘‘ کے موقع پر اسی عنوان سے اسی تاریخ کو رضوان احمد نے جو اداریہ سپرد قلم کیا تھا ، یہ اداریہ پڑھنے کے بعد موجودہ جو سیاسی منظر نامہ ہے اور ۱۹۷۷ کے منظر نامہ میں زیادہ فرق نہیں محسوس ہوگا۔ رضوان احمد اپنے اداریہ میں لکھتے ہیں۔۔
’’ اب دیکھنا یہ ہے کہ تین سال قبل شری جئے پرکاش نرائن نے ’’ مکمل انقلاب ‘‘ کا نعرہ کیوں دیا تھا ؟ تحریک چلائی تھی، تو کس کے خلاف ؟ اور اس کا نتیجہ کیا نکلا ۔
تین سال قبل کے جئے پرکاش نرائن کے بیانات اٹھا کر دیکھئے تو اندازہ ہو جائیگا کہ انھوں نے جو تحریک چلائی تھی وہ کسی فرد واحد یا کسی پارٹی کے خلاف نہیں تھی۔ وہ تحریک تھی کرپشن ، بے ایمانی ، بد عنوانی ، رشوت ستانی ، اور مہنگائی کے خلاف ۔ جنتا پارٹی بار بار یہ کہتی ہے کہ اس نے تحریر اور تقریر کی آزادی بحال کر دی ہے، فرد کی آزادی بحال کر دی ہے، زبانوں اور قلموں پر لگے تالے کھول دئے ہیں ، اخبارات کو انکی آزادی لو ٹادی ہے، عدلیہ کی آزادی بحال کر دی ہے ۔ لیکن یہ بھی تو خیال فرمائیے کے تین سال قبل تو یہ ساری آزادیاں تھیں ہی۔ ان کی بحالی کے لئے تو تحریک چلائی نہیں گئی تھی، بلکہ اس تحریک کے نتیجے میں ان آزادیوں پر ضرب پڑی تھی۔
جب تحریک مہنگائی ، کرپشن ، بد عنوانی ، بھرشٹاچار کے خلاف تھی تو سب سے پہلے ان کا سد باب ہونا چا ہئے تھا ، لیکن کیا ان کے بر عکس نہیں ہو اہے؟ کیا جنتا پارٹی کی حکومت بننے کے بعد سے ہر چیز کی قیمتیں آسمان کی جانب نہیں پرواز کر رہی ہیں ؟ کیا یہ قیمتیں ان قیمتوں سے زیادہ نہیں ہیں جو ، اب سے تین سال قبل تھیں اور جن کو بہانہ بنا کر تحریک چلائی گئی تھی۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سالگرہ کس چیز کی منائی جائے ؟ ‘‘
( ہفتہ وار ’’ عظیم آباد اکسپریس ‘‘ ۱۴ ؍ اگست ۱۹۷۷ء )
مسلم کوٹے سے بننے والے مسلم وزرأ کا رول وزیر بنتے ہی بدل جاتا ہے۔ انھیں مسلمانوں کے حقوق اور مفادات سے کوئی دلچسپی نہیں رہتی، بلکہ ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اس امر پر اظہار خیال کرتے ہوئے رضوان احمد نے لکھا تھا ۔۔۔۔۔۔
’’ مسلمان وزیروں نے اپنے طرز عمل سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندگی کے ا ہل نہیں ہیں ، انہیں مسلمانوں کے مفادات سے دلچسپی نہیں ہے۔ یہ ملت کی امنگوں ، آرزوؤں کی آئینہ داری نہیں کرتے ، بلکہ ان کے جزبات و احساسات کی دلآزاری کرتے ہیں ۔ ان کی آرزوؤں کو کچلتے ہیں ‘‘
( ہفتہ وار ’’ عظیم آباد اکسپریس ‘‘ ۲۷ ؍ اگست ۱۹۷۸ء )
رضوان احمد نے اپنے ہزاروں اداریوں میں نہ صرف ظلم و بربریت ، استحصال و نا انصافی اور غربت و ستم کے خلاف آواز بلند کی ہے، بلکہ انھوں نے سیاسی، سماجی ، معاشرتی ، ادبی ، لسانی ، اقتصادی اور ذ ہنی انقلاب کے لئے زمین ہموار کرنے کی کوشش کی ہے۔
رضوان احمد ۱۹۹۶ء سے دو ٹرم بہار اردو اکادمی کے سکریٹری رہے۔ تیسرے ٹرم کی باری آئی تو ان کے چند مخالفین نے اس وقت کی لالو رابڑی حکومت کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ رضوان احمد آپ کی حکومت کے خلاف لکھتے رہے ہیں ۔ پٹنہ سے شائع ہونے والے ایک ماہنامہ ’’ پتوار ‘‘ کے مئی ۲۰۰۳ء کے شمارہ میں مندرجہ بالا باتوں کو باوزن بنانے کے لئے رضوان احمد کے ۲۹؍ اپریل ۱۹۹۲ء کے روزنامہ ’’ عظیم آباد اکسپریس ‘‘ میں شائع ہوئے ایک اداریہ کو نقل کیاہے۔ اس اداریہ کو دیکھئے اور رضوان احمد کی جرائات مندی ، حوصلہ ،بیباکی اور بے خوفی کی داد دیجیئے۔ انھوں نے لکھا تھا۔۔
’’ اس وزارت کا ہر وزیر بد عنوان اور چور ہے ، جو جے پی کے مکمل انقلاب کی دین ہے۔ لالو پرساد اسی مکمل انقلاب کی کوکھ سے پیدا ہوئے ہیں ۔ انھون نے حلف وفاداری بھی جے پی کی مورتی کے پاس لیا تھا ۔ ان کی اٹھان بھی اچھی تھی ، مگر برا ہو اس حکومت کا جس نے ان کو بھی بد عنوان اور کرپٹ بنا کر اٹھایا۔۔۔۔ ‘‘
رضوان احمد قوم و ملّت کا نہ صرف درد رکھتے تھے بلکہ اس کے مداوا کے لئے ہمیشہ فکر مند رہا کرتے تھے ، یہی وجہ تھی کے وہ اکثر ایسے اداریے اور کالم لکھا کرتے ، جو قوم و ملت کے لئے مشعل راہ ہوتے ، پٹنہ کے روزنامہ ’’ قومی تنطیم ‘‘ میں ۲۴؍ جون ۲۰۰۲ء کو ’’ مجھے بولنے دو ‘‘ کالم کے تحت ’’ مسائل کا انبار ‘‘ کے عنوان سے اپنے درد و کرب کا یوں اظہار کرتے ہیں ۔۔
’’ گزشتہ دو تین ماہ میں ملّت کی تعلیمی ، سماجی ، اور ثقافتی صورت حال پر اس کالم میں جو شذرات شائع ہوئے ہیں ، ان کا تعمیری فکر رکھنے والوں کے درمیان بہت ہی مثبت ردّ عمل ہوا ہے۔ اس کا اندازہ مجھے ان خطوط اور ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو سے ہوا ہے ، جو میرے پاس مسلسل آتے رہتے ہیں ۔۔۔ ‘‘
رضوان احمد ادب اور صحافت سے متعلق بھی اکژاپنی بے لاگ رائے پیش کیا کرتا تھے ، نصرت ظہیر کی ایک کتاب کے اجرأ کے موقع پر اٹھے ایک سوال پرانھوں نے ’’ قومی تنظیم ‘‘ کے اپنے کالم ’’ مجھے بولنے دو ‘‘ میں یوں رقمطراز ہیں ۔۔
’’ گزشتہ دنوں دہلی میں ایک نوجوان صحافی نصرت ظہیر کے صحافتی مضامین کے مجموعے کا اجرأ کرتے ہوئے پروفیسر گوپی چند نارنگ اور پروفیسر قمر رئیس نے ادب اور صحافت سے متعلق کچھ باتیں کہی ہیں ، ان س ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ادب کو صحافت نہیں مانتے یا صحافتی مضامین کو ادب کے زمرے سے خارج سمجھتے ہیں ، گزشتہ کافی برسوں سے یہ بحث کئی پلیٹ فارموں پر اٹھی ہے کہ ادب اور صحافت الگ الگ اصناف ہیں ۔۔۔ ‘‘
رضوان احمد نے کبھی بھی صلہ کی پرواہ کی اور نہ ہی ستائش کی تمنّا کی ، سچاّئی، ایمانداری سے پر صحافت کے سنگلاخ راستوں پر چلتے ہوئے ، ان کے پاؤںآبلوں سے بھرے، لیکن انھوں نے ہمّت نہیں ہاری ، اور اپنے اخبار ’’ عظیم آباد اکسپریس ‘‘ کے افتتا حی شمارہ میں
جو عہد کیا تھا ، اس پر وہ ہمیشہ قائم رہے۔ اپنی ایک تحریر میں وہ یوں اپنے کئے گئے عہد کو یاد کرتے ہیں ۔۔۔
’’ میں نے جب اپنے ا خبار کا افتتاحی شمارہ شائع کیا تو خدا کو حاضر و ناظر جان کر یہ قسم کھائی کہ سچ لکھوں گا ، خواہ اس کے لئے مجھے
کیسی بھی قربانی کیوں نہ دینی پڑے اور ہر سال اس کی تجدید کرتا ہوں ۔ میری صحافت کی راہ بے حد پُرخار ہے، لیکن کیا کروں ۔۔۔
ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں
جی خوش ہوا ہے راہ کو پُر خار دیکھ کر
رضوان احمد ۲۰۰۱ء میں وائس آف امریکہ (اردو سروس) کے نامہ نگار ہو ئے۔ بی. بی. سی. (لندن) کے لئے بھی کئی سال تک بہار کے نامہ نگار رہے۔ نیتیش کمار کی حکومت نے انھیں اردو مشاورتی بورڈ کا وائس چئیرمین بھی بنایا، لیکن صرف نام کا چیئرمین بننا انھوں نے پسند نہیں کیا اور احتجاج میں اس عہدہ سے وہ مستعفی ہو گئے۔ ۲۰۰۶ء سے ان کے کالم ملک کے کئی بڑے اردو اخبارات مثلاً ’’قومی تنظیم‘‘ سیاست ، اتحاد، انقلاب، اردو ٹائمز، آگ، ہمارا سماج ، جدید خبر وغیرہ میں متواتر شائع ہو تے رہے ۔ رضوان احمد نے جو کچھ لکھا ہے، وہ اردو صحافت میں قابل قدر اضافہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے جس طرح معاشرہ، سماج اور سیاست کے تعفن کو اجا گر کیا ہے اورنئے سماج اور معاشرہ کی تشکیل و تعمیر میں جس طرح اہم رول ادا کیا ہے، وہ سب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ رضوان احمد کے ہزاروں صفحات پر بکھر ے اداریوں او ر مختلف موضوعات پر لکھے ان کے تبصروں اور کالموں کو چند صفحات پر سمیٹنا مشکل ہے، اور مجھے یقین ہے کہ یہ تمام تحریریں ہمیں رضوان احمدکی ہمیشہ یاد دلاتی رہینگی۔