شب برأت کی فضیلت قرآن و احادیث کے آئینے میں

دن و رات، ہفتہ و ماہ اور سال اللہ رب العزت کے بنائے ہوئے ہیں اور اللہ رب العزت نے ہی ان میں بعض کو بعض پر فضیلت بخشی ہے، ان ہی عظمت و فضیلت والی راتوں میں ایک رات شعبان المعظم کی پندرہویں شب ہے جو ’’برأت‘‘سے موسوم ہے جو دراصل خطاؤں اور گناہوں سے توبہ کرکے بری ہونے کی رات ہے۔ قرآن مجید میں ۲۵ویں پارہ سورہ دخان کی ابتدائی آیتوں میں ارشاد باری عز و اسمہٗ ہے: ترجمہ: قسم ہے اس کھلے ہوئے واضح کتاب کی ہم نے اسے ایک بڑی خیر و برکت والی رات میں اتارا ہے کیونکہ ہم لوگوں کو آگاہ و متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے، یہ وہ رات ہے جس میں ہر معاملے کا حکیمانہ فیصلہ ہمارے حکم سے صادر کیا جاتا ہے یقیناًہم ایک رسول بھیجنے والے تھے۔ لیلۃ المبارکۃ کے بارے میں حضرت عکرمہؒ اور مفسرین حضرات کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ اس سے شب برأت مراد ہے جیسا کہ فیہا یفرق کل امر حکیم سے واضح ہوتا ہے۔ (معارف القرآن) احادیث
و آثار میں بھی شب برأت کی عظمت، برکت اور رحمت بہت اہتمام اور بلیغ انداز میں بیان ہوئی ہے چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ خیر کو چار راتوں میں خوب بڑھاتے ہیں، عید الاضحی کی رات، عید الفطر کی رات، شعبان کی پندرہویں رات اور چوتھی نویں ذی الحجہ کی رات۔ ان تمام راتوں میں صبح کی اذان تک خیر و برکت کا نزول ہوتا رہتا ہے۔ (ابن ماجہ) حضرت معاذ ابن جبلؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ شعبان کی پندرہویں شب میں اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اپنی ساری ہی مخلوق کی مغفرت فرما دیتا ہے، سوائے شرک کرنے والے اور کینہ رکھنے والے کے۔ (طبرانی، بیہقی) حضرت
علیؓ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو اس رات میں عبادت کرو اور اس کے بعد والے دن میں روزہ رکھو کیونکہ اس رات کو اللہ تعالیٰ غروب آفتاب کے وقت سے ہی آسمان دنیا پر جلوہ خاص فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا کوئی مغفرت چاہنے والا ہے کہ میں اسے بخش دوں، کیا کوئی مبتلائے مصیبت ہے کہ اسے عافیت دوں، کیا کوئی ایسا ویسا ہے اور یہ آواز صبح تک آتی رہتی ہے۔ (الترغیب ) پندرہویں شعبان کی اسی مبارک شب
میں بنی آدم کا ہر وہ شخص جو اس سال پیدا ہونے والا ہوتا ہے، لکھ دیا جاتا ہے اور بنی آدم کو ہر وہ شخص جو اس سال مرنے والا ہوتا ہے اس رات میں لکھ دیا جاتا ہے اور اس رات میں بندوں کے اعمال (اوپر) اٹھائے جاتے ہیں اور اسی رات میں بندوں کے رزق اترتے ہیں۔ (مشکوٰۃ شریف) شب برأت
شب برأت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ:۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا اس مبارک شب میں بقیع غرقد (مقبرہ مسلمین) میں جا کر مومنین اور مومنات اور شہدا کے لئے مغفرت کی دعا کرنا پھر وہاں سے گھر لوٹ کر تنہا نفل کی نیت باندھ کر اللہ کے سامنے سربسجود ہونا اور سجدے میں یہ دعا کرنا اَعُوْذُ بِعَفْوِکَ مِنْ عِقَابِکَ وَ اَعُوْذُ بِرَضَاکَ مِنْ سَخْطِکَ وَ اَعُوْذُبِکَ مِنْ جَلِّ وَجْہِکَ لاَ اُحْصِیْ ثَنَاءُ عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَا اَنْتَ عَلٰی نَفْسِکَ۔ ترجمہ: میں تیری سزا سے تیری عفو کی پناہ مانگتا ہوں اور تیری ناراضی سے تیری رضامندی کی اور تجھ سے (یعنی تیرے عذاب و عقاب و قہر سے) تیری ہی پناہ مانگتا ہوں، تیری ذات بزرگ برتر ہے، میں تیرے لائق تیری تعریف نہیں کرسکتا، تو ویسا ہی ہے جیسا تو نے خود اپنے نفس کی تعریف فرمائی۔ (شعب الایمان) شب برأت
شب برأت شریعت کی نظر میں کیا کرنا چاہئے:۔
امت مسلمہ کو چاہئے کہ اس مبارک رات میں بے جا فضولیات و دیگر بدعات و رسومات سے احتراز کرتے ہوئے نفلی نماز، روزہ، ذکر و تلاوت، توبہ و استغفار اور دعا مناجات میں وقت گزارے کیونکہ بس یہی اعمال و افعال اور معمولات صحابہ، تابعین و اسلاف سے ثابت ہیں۔ چنانچہ حضرت مفتی شفیع صاحبؒ نے اپنے رسالہ ’’شب برأت‘‘ میں تحریر فرمایا ہے کہ حضرات صحابہ و تابعین سے اس رات میں جاگنا اور اعمال مسنونہ پر عمل کرنا قابل اعتماد روایات سے ثابت ہے نیز علامہ عثمینؒ نے فرمایا ہے کہ بعض تابعین سے اس موقع پر نماز اور ذکر و فکر کی صورت میں شب بیداری کا ثبوت ملتا ہے۔ (فتاویٰ برائے خواتین) حضرت امام اوزاعیؒ نے اس رات میں اجتماعی طور پر عبادت، تلاوت اور ذکر و دعا کو مکروہ بتایا ہے لیکن انفرادی طور پر ان اعمال کو مستحسن و محمودو مطلوب بتایا ہے۔ (لطائف المعارف) صاحب درمختار نے
صاحب درمختار نے عید الفطر اور عیدالاضحی کی راتوں میں اور شب برأت میں اور رمضان کے عشرہ اخیر کی راتوں میں اور ذی الحجہ کی اول دس راتوں میں جاگنا اور عبادت کرنا تنہا تنہا مستحب بتایا ہے۔ نیز علامہ شامیؒ نے حاشیہ شامی میں اس مبارک رات کے اعمال کی تفصیل اور اس کے ادا کرنے کی صورت نہایت وضاحت کے ساتھ بیان فرمائی ہے کہ شعبان کی پندرہویں شب میں قیام کی صورت یہ ہے کہ کسی مخصوص تعداد کا التزام کئے بغیر تنہا تنہا نفل نمازیں پڑھی جائے۔ قرآن کریم کی تلاوت کی جائے، حدیثیں پڑھی اور سنی جائیں، اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور اس کی ثناء کی جائے، درود شریف کا ورد کیا جائے۔ (رد المختار) حضرت علامہ حافظ ابن
تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ شعبان کی پندرہویں شب کے متعلق بہت سی احادیث اور آثار مروی ہیں اور سلف کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ وہ اس رات میں نماز پڑھا کرتے تھے، لہٰذا اس رات میں تنہا نماز پڑھنے والے کے لئے سلف کا عملی نمونہ موجود ہے۔ اس میں اس کے لئے دلیل ہے۔ لہٰذا اس جیسے عمل پر گرفت اور نکیر نہیں کی جاسکتی، اس لئے پندرہویں تاریخ کو روزہ رکھنے والے کے لئے مناسب یہ ہے کہ وہ شعبان کی ۱۳، ۱۴، ۱۵ تاریخوں میں روزہ رکھے کیونکہ ہر ماہ ایام بیض کے (۱۳، ۱۴، ۱۵) میں روزہ رکھنا سنت ہے اور صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
علامہ البانیؒ نے اس موضوع پر بحث کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پندرہویں شعبان کی رات کے بارے میں کوئی صحیح حدیث موجود نہیں تو ان لوگوں کا یہ کہنا جلد بازی کا نتیجہ ہے، ان پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے۔ (سلسلۃ الاحادیث) آپ نے اصلاح المساجد کے مؤلف علامہ شام محمد جمال الدین القاسمی کے اس شب کے سلسلہ میں کسی صحیح حدیث کے نہ ہونے کے حکم و فیصلہ پر کلام فرمایا ہے کہ حدیث بطریق مالک بن عامر بن معاذ ابن جبل عن النبی مروی ہے (جو اوپر گزری ہے) اس حدیث کی تخریج حضرت ابن ابی عاصمؒ نے ’السنۃ‘‘ میں اور حضرت ابن حبان نے ’’صحیح‘‘ میں کی ہے، اس کے رجال ثقہ ہیں اور حدیث صحیح ہے اس لئے مصنف کا قول کہ شعبان کی پندرہویں رات کی فضیلت کے بارے میں کوئی حدیث صحیح نہیں ہے، ناقابل توجہ ہے، ہاں اس سے بدعات کا جواز البتہ نہیں نکلتا۔ (اصلاح المساجد) شب برأت کے سلسلہ میں بعض مروی احادیث ’’صحیح‘‘ کچھ ’’حسن‘‘ اور ایک حدیث ’’مرسل جید‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ ساری احادیث کی سند کمزور ہے لیکن اس سلسلہ میں حضرات صحابہ کرامؓ کی بڑی تعداد سے روایات موجود ہیں۔ حضرت حسن بصریؒ نے ۳۳۔۳۴ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی روایات نقل کی ہیں اور علامہ سیوطیؒ نے اس سلسلہ میں اپنی کتاب ’’الدرالمنثور‘‘ میں پندرہ سے زائد احادیث مرفوعہ موقوفہ ذکر فرمائی ہے۔ اسی تعداد کی طرف اور کثرت روایات کی بنا پر ان ضعیف روایات کو بھی ایک طرح کی قوت حاصل ہوجاتی ہے۔ حضرت مولانا عبدالرحمن مبارکپوریؒ نے شب برأت سے متعلق مروی احادیث بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ ’’یہ احادیث مجموعی اعتبار سے ان لوگوں کے خلاف حجت و دلیل ہیں، جن کا یہ خیال ہے کہ پندرہویں شعبان کی فضیلت کے سلسلے میں کچھ ثابت نہیں ہے۔ (تحفۃ الاحوذی) مذکورہ بالا  مسلمہ حقیقت کے باوجود امت مسلمہ کی ایک تعداد شب برأت کی مشروعیت کی منکرہے اور دن رات میں کئے جانے والے اعمال خیر کو لغو اور بدعت قرار دیتی ہے اور اس سلسلہ کی ساری احادیث کو ضعیف، موضوع اور من گھڑت خیال کرتی ہے لیکن ان لوگوں کا یہ فکر و خیال بالکل حقیقت سے دور ہے بلکہ صحیح اسلام کے بالکل برعکس ہے کیونکہ شب برأت کے سلسلہ میں مروی احادیث مبارکہ اور اکابرین امت حضرات محدثین و محققین کے اقوال کے ساتھ ساتھ اسلاف امت حضرات تابعین عظام خالد بن معدان، لقمان بن عامر اور مکحول رحمہم اللہ اور امام اسحاق ابن راہویہؒ کے عملی نمونے سے بھی اس رات کی فضیلت و اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ (ماثبت بالسنہ) دعا ہے کہ اللہ رب العزت تمام امت مسلمہ کو بدعات و خرافات اور تمام غیر اسلامی مروجہ رسومات سے اجتناب کرتے ہوئے اس اہم اور مبارک رات کی سعادتوں، رحمتوں اور برکتوں سے مستفیض فرمائے۔