مدرسہ وصیت السلام مدینہ مسجد میں منعقد جلسہ دستار بندی سے مولانا سید محمد طلحہ قاسمی کا خطاب
کانپور۔16مئی(ماتینول حق) شہر کے روشن نگر علاقہ میں قائم مقام قاض ئشہر مولانا محمد متین الحق اسامہ قاسمی کے زیر سرپرستی چل رہے مدرسہ وصیت العلوم مدینہ مسجد میں گزشتہ شب 21طلباء کا حفظ قرآن مکمل ہونے کے موقع پر مولانا اظہار صاحب کی صدارت میں عظیم الشان جلسہ دستار بندی و اصلاح معاشرہ کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں بھیونڈی مہاراشٹر سے تشریف لائے مفسر قرآن الحاج مولانا سید محمد طلحہ صاحب قاسمی نقشبندی مجددی خلیفہ مولانا الحاج پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی نے بحیثیت مہمان خصوصی حاضرین کو خطاب کیا۔ انہوں نے فارغ طلباء کو قیمتی نصیحتوں سے نوازتے ہوئے کہا کہ حفظ قرآن کی سعادت حاصل کرتے ہی آپ کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے۔ اس لئے اپنے اخلاق وکردار سے دین کی صحیح نمائندگی کریں۔ مولانا نے کہا کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے ، جو قرآن کو سیکھے اور سکھائے۔ اس لئے قرآن کو سکھانے والوں کو حقیر نہ سمجھیں ، انہیں کمتر نہ جانیں۔ ان کا موازنہ دنیاوی اعتبار سے عام لوگوں سے نہیں کیا جانا چاہئے ۔ قرآن پڑھانے کا مرتبہ ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتا ہے۔ انہوں نے حافظ ہونے والے طلباء کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ روزانہ تلاوت کا معمول اپنے معمولات زندگی میں شامل کر لیں، کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرنا چاہئے ،جس میں قرآن پاک کی تلاوت نہ کی گئی ہو۔ حفاظ قرآن خود کے مرتبہ کو سمجھیں اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو ہمہ وقت ذہن میں رکھیں ۔ حضرت مولانا نے مدارس و مکاتب کی اہمیت وضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ مدارس اسلامیہ دین کے مضبوط قلعے ہیں ، ہمیں چاہئے کہ ان سے دینی نفع حاصل کریں۔ مدارس و مکاتب سے وابستگی پختہ کریں ، کیونکہ مدارس سے وابستگی کے بغیر ہمارا دین کامل نہیں ہو سکتا۔ اس موقع پر مدرسہ کے سرپرست مولانا محمد متین الحق اسامہ قاسمی قائم مقام قاضئ شہر کانپور نے کہا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو اپنی نعمت سے نوازنا چاہتے ہیں تو اللہ پہلے اس بندے کے دل میں اس نعمت کی عظمت پیدا کرتے ہیں اور قرآن کی عظمت ہی نعمت حاصل کرنے کا ذریعہ بنے گی ۔ مولانا نے اصلاح معاشرہ کے سلسلے میں کہا کہ سب سے اچھا انسان وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں، آج مسلمانوں میں اچھے اخلاق پیدا کرنے کی سخت ضرورت ہے ۔ ہمیں قرآن کو اسی انداز میں تلاوت کرنا چاہئے جس زبان میں اللہ نے اس کو اتارا ہے، ورنہ معنی بدل جائیں گے اور ہم ثواب کے بجائے الٹے گناہ کے مستحق ہوں گے۔اس کو سیکھنے کے لئے اپنے بچوں کو مدرسے میں بھیج کرتجوید اور لفظوں کی صحیح ادائیگی کے ساتھ پڑھنے والا بنانا چاہئے۔ مولانے آگے کہا کہ اللہ نے کم و بیش سوا لاکھ نبیوں ،رسولوں اور پیغمبروں کو دنیا میں بھیج کر اپنا تعارف کرایا کہ میں کون ہوں اور ہمار اآپ کا تعارف کرایا کہ تم کون ہو؟مولانا نے لوگوں کی غلط فہمی دور کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کی آخری کتاب قرآن پاک ہے اور اس قرآن میں اللہ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کا ایک لفظ اور حرف بھی شامل نہیں ، جبکہ برادران وطن میں بہت سے لوگوں کے ذہن میں ہے کہ ’’یہ قرآن محمدؐ صاحب کی کتاب ہے‘‘۔لوگوں کو تاکید کے ساتھ فرمایا کہ اس قرآن میں محمد ﷺ کا اپنا ایک حرف بھی شامل نہیں ہے، ہمارے عقیدے میں یہ پورا قرآن اس کا ایک ایک حرف مالک کائنات اللہ رب العزت کا کلام ہے،کسی اور کا کلام نہیں۔مولانا نے قرآن کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ نے لوگوں کو ایک دوسرے کے تعارف کیلئے برادریوں ،خاندانوں اور قبیلوں میں تقسیم کیا ہے ۔لیکن اللہ کے نزدیک محترم اور عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی،اللہ سے ڈرنے والا اور انسانی ہمدردی رکھنے والا ہو۔ مولانا نے کہا کہ کوئی بھی بڑی یا چھوٹی برادری عزت دار ہونے کی علامت نہیں بلکہ اپنے رب کی باتوں کو مان کرچلنا ہی عزت دارہونے کی علامت ہے۔ اس لئے برادری کی بنیاد پر کسی کو چھوٹا ،بڑا اور کسی کو عزت والا اور حقیر سمجھنا ایک بڑا گناہے ۔ اللہ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ نے تمام انسانوں کو ایک ایک چیز کے حقوق بتلائے ،یہاں تک کہ درختوں ، پانی ، بے زبان جانوروں تک کے حقوق بتائے۔ مولانا نے آگے کہا آج آلودگی (پالوشن) کے نام پر چاروں طرف ہنگامہ برپا ہے اور درخت لگوانے کی باقاعدہ بڑی بڑی مہم چلوائی جا رہی ہیں کہ درخت لگاؤ، ہرے بھرے درخت کاٹو نہیں ،قانون بن رہاہے۔اس مسئلے پر بھی مذہب اسلام میں نبی ؐ کا فرمان ہے کہ ہرے درختوں کومت کاٹو، اس کے ساتھ ہی مولانا نے جہاد کے بارے میں لوگوں کی غلط فہمیوں کو دور کراتے ہوئے کہا کہ جہاد ایک مقدس عمل ہے ،لیکن موجودہ دور میں جو فساد برپا کر کے دہشت گردی کی جا رہی ہے یہ جہاد نہیں ہے۔عوامی مقامات پر بم دھماکے کرنا اور بے قصوروں کو مارنا بالکل حرام اور ناجائز ہے، اس کیلئے کوئی گنجائش ہی نہیں ، اور دار العلوم دیوبند سے 8؍سال قبل ہی جمعیۃ علماء ہند کے کل ہند جنرل سکریٹری مولانا سید محمود اسعد مدنی نے فتویٰ لیا تھا اور ملک کے 10؍ہزار علماء کرام نے اس پر دستخط کی ہے کہ دہشت گردی حرام ہے اس کا مذہب اسلام سے کوئی تعلق ہے ہی نہیں،اور وہ فتویٰ صرف ملک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں پہنچا۔ مولانا نے بیان کر تے ہوئے کہا کہ ابھی امام حرم نے بھی ہندوستان کے مختلف علاقوں کے دورہ میں کھل کر کہا کہ اسلام میں دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں ۔جہاد کہتے کسے ہیں؟ جہادکب اور کس سے ہوتا ہے ؟اس کی شرائط کیا ہیں؟ابھی پوری طرح امت مسلمہ ،برادران وطن اور دنیا کو اس کا علم ہے ہی نہیں۔کیونکہ مسلمانوں کارابطہ اور تعلقات علماء و ائمہ سے ہے ہی نہیں اور اس سے زیادہ کہ مسلمان جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ آج پوری دنیا خصوصاً عراق و شام میں داعش ،حزب اللہ جیسوں کی طرف سے جو ہو رہا ہے یہ قطعاً جہاد نہیں ہے۔ یہ محض فساد اور دہشت گردی ہے،اور اس کی کوئی عالم وکالت نہیں کر سکتا کیونکہ اس فساد میں کئے جارہے سارے کام اسلام کوبدنام کئے جانے والے ہو رہے ہیں۔جہاد کرنے میں بھی اللہ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ جہاں تم فتح کرنا وہاں اگر کوئی مذہبی آدمی خواہ کسی بھی مذہب کا ہواپنی عبادت میں مصروف ہواور جنگ میں شامل نہ ہواس کو قتل نہ کرنا،بچے، بوڑھے اور عورتوں کو قتل مت کرنا اس کے ساتھ ساتھ نبی ﷺ کی یہ بھی ہدایت ہے کہ ہرے درختوں کو مت کاٹوں، جانوروں کو مت ستاؤ،گھروں کو مت توڑو۔ اس لئے ان باتوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے ،اپنے علماء سے رابطے کو مضبوط کرنے اور دین اسلام کوپوری طرح سمجھنے اورجاننے کی ضرورت ہے۔مدرسہ کے صدر ریاض ملک نے بھی اظہار خیال کرتے ہوئے مدرسہ کی کارکردگی کی رپورٹ پیش کی۔اس سے قبل مدرسہ حافظ ہونے والے 21؍طلباء کی اکابرین کے دست مبارک سے دستاربندی عمل میں آئی۔ جلسے کاآغازقاری محمد سعید کی تلاوت کلام پاک سے ہوا، بعد ازاں، امین الحق عبد اللہ نے بارگاہ رسالت مآب ؐ میں نذرانہ عقیدت پیش کیا۔ مولانا اسامہ قاسمی کی دعاء پر جلسہ اختتام پذیر ہوا۔ نظامت کے فرائض مدرسہ فاروقیہ کے قاری محمد آصف ثاقبی نے بحسن وخوبی انجام دئے۔ اس موقعہ پر حافظ محمد عالمین، مولانا مصطفی قاسمی،مولانا ابوبکر ندوی، حاجی ادریس ، سمیع اللہ،حاجی تسلیم، سلیم جاوید، جاوید اخترکے ساتھ ہی کثیر تعداد میں لوگ موجود تھے۔