روزہ تربیتِ نفس اور تزکیہ قلب کا عظیم ذریعہ

روزہ اسلام کا بنیادی رکن اور مقدس ترین عبادت ہے۔عربی زبان میں روزہ کو’’ الصوم ‘‘کہتے ہیں۔ جس کے لغوی معنی کسی چیز سے رکنے اورباز رہنے کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں صبح صادق سے لیکر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور نفسانی خواہشات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔ دو ہجری میں مدینہ منورہ میں رمضان کے روزے فرض ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: اے ایمان والو! تم پر رمضان کے روزے فرض کئے گئے ہیں۔ جیسا کہ تم سے پہلی امتوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم متقی اور پرہیز گار بن جاؤ ۔ حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص ایمان اور ثواب کی امید رکھتے ہوئے رمضان کے روزے رکھے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے پچھلے تمام خطاؤں کو معاف فرما دیں گے اور اس کا صلہ اللہ تعالیٰ خود اپنی شایان شان عطا کریں گے ۔ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آدمی کے نیک عمل کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک دیا جاتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ بلاشبہ میرے لئے ہے اور اس کا بدلہ میں ہی دوں گا۔ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں ان میں سے ایک کا نام ’’ریان‘‘ ہے اس میں صرف روزہ دار ہی داخل ہوں گے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ اور قرآ ن بندوں کے لئے سفارش کریں گے۔ روزہ کہے گا اے میرے رب! میں نے اس کو دن میں کھانے پینے اور نفسانی خواہشات سے روکے رکھا لہذا اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما۔ مگر جو شخص روزہ نہ رکھے وہ سخت گنہگار ہوگا۔ رمضان کے دنوں میں جو آدمی کھانا پینا نہ چھوڑ ے اور عام دنوں کی طرح سب کے سامنے کھاتا پیتا رہے وہ اسلام کے حکموں کو توڑنے والا اور اللہ کا نافرمان بندہ ہے۔اگر بالفرض کم ہمتی اور بد بختی سے روزہ رکھنے سے محروم ہے تو کم از کم روزے کااحترام ضرور کرے۔ جان بوجھ کر یا بلا شرعی عذرکے روزہ چھوڑنا سخت محرومی کی بات ہے ،ایسا شخص عذاب کا مستحق ہوگا اور اللہ تعالیٰ کا اس پر غضب نازل ہوگا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص بلا کسی عذر کے ایک دن بھی رمضان کا روزہ نہ رکھے تو رمضان کے بعد چاہے عمر بھر روزہ رکھتا رہے رمضان کے روزے کا بدل نہیں ہو سکتا۔
روزہ ایک قیمتی عبادت اور اپنے اندر بے شمارفوائد رکھنے والا عمل ہے۔ روحانی اور اخلاقی اعتبار سے یہ نہایت نتیجہ خیز عبادت ہے۔ عہد حاضر کہ نامور عالم دین حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی روزے کی افادیت پر ر وشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’ روزہ ایک مقدس، نہایت مفید اور نتیجہ خیز عبادت ہے،جس کا اثر جسم، دل اور روح پر گہرا پڑتا ہے۔ جسے ٓاسانی کے ساتھ محسوس کیا جا سکتا ہے۔ روزہ ارادوں کو سمت اور عبادتوں کو نئی جہت دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ انسان کے اندرون میں تبدیلی اور زندگی کہ سرد و گرم کو جھیلنے اور راضی بہ رضا رہنے کی مشق کراتا ہے۔ روزہ دل پر دستک دیتا ہے۔ نگاہ میں اخلاص ، نظر میں بصیرت، قوت میں توازن اور کردار میں پختگی پیدا کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے۔ ایسی صلاحیت جو زندگی کو بندگی آشنا کردے اور زندگی کے سفر کو آسان بنا دے‘‘۔
روز ہ بندے کے اندر ملکوتی صفات پیدا کرتا ہے، تقویٰ اور پرہیزگاری سکھاتا ہے، ہمدردی اورمساوات کا پیغام دیتا ہے۔ اعتدال ، سنجیدگی، شرافت اور انسانیت کا درس دیتا ہے۔ روزہ کا سب سے بڑا فائدہ اور حکمت یہ ہے کہ اس کے ذریعہ نفس پر کنٹرول کر کے اللہ کی اطاعت و فرماں برداری کرنے اور شریعت کے مطابق زندگذارنے کا مزاج بنتا ہے۔ ایک مہینہ مسلسل پورے آداب و اہتمام کے ساتھ برائیوں سے رکنے ، نیکیوں کو اپنا نے اور اعمال صالحہ اختیار کرنے کا نفس عادی ہوجا ئے۔ غور کیجئے ،ہم روزہ رکھتے ہیں توصبح سے شام تک کھانے پینے اور اپنے خواہشات اللہ کی رضاکی خاطر ترک کر دیتے ہیں۔ روزہ یہ بات راسخ کر تا ہے کہ اصل چیز اطاعت الٰہی ہے۔ نیکی اور ثواب اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماں برداری میں ہے۔ اس کے ذریعہ ہمارے اندر یہ استعداد و قوت
پیدا ہوتی ہے کہ ہم بلند تر روحانی اور اخلاقی مقاصد کے لئے اپنی خواہشات کو قربان کرنے والے بن جائیں۔ اسی احساس و یقین اور جذبہ کا نام تقویٰ ہے۔
اگر روزے کے ذریعہ یہ مطلوبہ صفات پیدا نہ ہوں تو بھوکے پیاسے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو کوئی غلط بات اور غلط کام نہ چھوڑے، تو اللہ تعالیٰ کو اس کا کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی حاجت نہیں۔ ایک موقع پر آ پ نے ارشاد فرمایا کہ بہت سے روزے دار ایسے ہیں جس کوبھوکے اور پیاسے رہنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ روزہ ڈھال ہے جب تک آدمی اس کو پھاڑ نہ دے ،کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ! روزہ کس چیز سے پھٹ جاتا ہے تو فرمایا جھوٹ اور غیبت سے ۔ حدیث میں وارد ہوا ہے کہ جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ کوئی بیہودہ حرکت اور لغو بات نہ کرے ،اگر کوئی اسے گالی گلوج دے تو اسے کہہ دے کے میں روزہ سے ہوں۔ روزے کی حالت میں بیہودہ اور غیر شریفانہ حرکتوں سے بچنا چاہئے، یہ روزے کا ادب ہے۔
اس ماہ مقدس میں مسلمان اپنے طرز عمل اور طرز زندگی میں تبدیلی لاتے ہیں۔ یہ خوشگوار تبدیلی اس ماہ مبارک کا تقاضہ تو ہے ہی ساتھ ہی یہ بھی مقصود ہے کہ بندہ سال کے باقی گیارہ مہینوں میں بھی یہی طرز عمل اوریہی انداز عبادت و ریاضت اختیا رکریں ۔ یہ نفس کی تربیت کا مہینہ ہے،تطہیر قلب کا موسم ہے،
دل و دماغ اور مزاج وانداز کو راضی بہ رضا رہنے کی مشق کا مہینہ ہے۔اس مہینے کا ہر ہر لمحہ قیمتی اور بابرکت ہے، اس کا ہر روز روز سعید ہے اور ہر شب شبِ مبارک ہے۔ ان مبارک اور قیمتی اوقات کی قدر کرنی چاہئے ۔سال بھر کے لئے اپنے دامن کو نیکیوں کے خزانے سے بھر نے کی کوشش کرنی چاہئے ۔اللہ تعالیٰ ہم سبھوں کو رمضان کی شایا ن شان قدر کرنے اور اس کی رحمتوں ، برکتوں اور نیکیوں سے بھرپور مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے!