زکوٰۃنہ دینے والوں کی خدمت میں

زکوٰۃ ، ارکان اسلام میں سے ایک اہم رکن ہے۔اللہ تعالیٰ نے مالدار مسلمانوں پرزکوٰۃ کو فرض اور ضروری قرار دیا ہے تاکہ اس مال سے معاشرہ کے لاچار اور غرباء کا تعاون ہوسکے۔زکوٰۃ جہاں شرعی فریضہ ہے ،وہیں انسان کی پاکی و صفائی کا ذریعہ بھی ہے۔ ایک انسان جب اپنے مال سے زکوٰۃ نکال دیتا ہے تو اس کا مال پاک و صاف ہوجاتا ہے ۔زکوٰۃ ایک مہتم بالشان اسلامی فریضہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں تقریباََ بیاسی(۸۲) مقامات پر نماز کے ساتھ تاکیدی طور پر اس کاحکم دیا ہے اور اس کی ادائیگی پر بے شمار فضائل و فوائد کا وعدہ بھی فرمایا ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیثوں میں بتایا ہے کہ ایک انسان زکوٰۃ کو ادا کرکے گناہوں سے آزاد ہوسکتا ہے۔چنانچہ فرمایا:’’صدقہ گناہوں کو اسی طرح ختم کردیتا ہے جیساکہ پانی آگ کو بجھاڈالتا ہے‘‘۔ نیز صدقہ و زکوٰۃ دینے والے انسان کی خوش نصیبی کا کیا کہنا! ایک حدیث میں وارد ہے کہ رسول گرامی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا:’’جب کوئی انسان کھجور یا اس کے برابر کسی دوسری چیز کا اپنی حلال کمائی سے صدقہ کرتا ہے اور اللہ کی شان یہی ہے کہ وہ صرف حلال اور پاکیزہ چیز کو ہی قبول فرماتا ہے تو اللہ تعالیٰ ااس کے صدقہ کو اپنے داہنے ہاتھ میں لیتا ہے بالکل اسی طرح سے حفاظت کرتا اور پالتا ہے جیساکہ ایک انسان اپنے اونٹ کے بچہ کو پالتا ہے،یہاں تک کہ وہ کھجور کا ایک دانا پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے‘‘۔اس کے علاوہ بے شمار قرآنی آیتوں میں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات میں زکوٰۃ ادا کرنے کے فوائد و فضائل کو بیان کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی شخص زکوٰۃ ادا نہیں کرتا ہے تو ایسے شخص کے بارے میں علمائے کرام نے لکھا ہے کہ اگر وہ زکوٰۃ کی وجوبیت کا انکار کرتا ہے تو پھر وہ شخص کافر اور اسلام سے خارج قرار پائے گا،کیونکہ وہ دین الٰہی کے ضروری رکن کا انکار کررہا ہے جس کا علم ہر کہ و مہ کوہونا ضروری اور لازمی ہے اور اس کے ادراک کے بغیرکسی بھی فرد کا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا ہے۔البتہ اگر کوئی شخص زکوٰۃ کی وجوبیت کا اعتراف کرتا ہے لیکن اس کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرتا ہے تو پھر ایسا شخص عاصی اورگنہگار ہوگا ۔ایسے ہی زکوٰۃ ادا نہ کرنے والے انسان کے بارے میں کتاب و سنت کے نصوص میں بے شمار وعیدیں وارد ہیں جن میں سے بعض باتیں مندرجہ ذیل سطور میں ذکر کی جارہی ہیں تاکہ ہم زکوٰۃ ادا نہ کرنے کی سنگینی اور خطورت سے آگاہ ہوں اور اگر ہم زکوٰۃ کی ادائیگی میں سستی برتتے ہوں تو اس سے تائب ہوں اور رب تعالیٰ سے معافی مانگیں اور آئندہ زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کریں۔اللہ سے توفیق ہے کہ ہمیں زکوٰۃ ادا کرنے کی توفیق ارزانی فرمائے اور اس کے فضائل و فوائد سے ہمکنار کرے۔آمین تقبل یارب العالمین۔
* زکوٰۃ نہ دینے والے انسان کو اس کے مال کا طوق پہنایا جائے گا زکوٰۃ ادا نہ کرنے اور اس کی وجوبیت کا انکار کرنے والے انسان کے لئے سب سے سنگین وعید یہ ہے کہ ایسے انسان کے اموال کو طوق کی شکل دی جائے گی اورپھر قیامت کے دن وہ طوق اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گی۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’ ولا یحسبن الذین یبخلون بما آتاھم اللہ من فضلہ ھو خیرا لھم بل ھو شرلھم سیطوقون ما بخلوا بہ یوم القیامۃ‘‘ یعنی جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کچھ نواز رکھا ہے،وہ اس میں کنجوسی کو اپنے لئے بہتر تصور نہ کریں، بلکہ وہ ان کے لئے حددرجہ بدتر ہے، عنقریب قیامت کے دن اپنی کنجوسی کی چیز کا طوق پہنائے جائیں گے۔(سورۃ آل عمران؍۱۸۰) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا :’’ جس کو اللہ تعالیٰ نے مال سے نوازا ہو ،لیکن اس نے زکوٰۃ ادا نہ کی تو قیامت کے دن ،اس کا مال زہریلے گنجے سانپ کی شکل اختیار کرے گا،جس کی آنکھوں پر دو کالے نقطے ہوں گے، یہ مال والے کے گلے کاہار ہوگا، اس کے بعد سانپ اس کی دو باچھیں پکڑ کر کہے گا:’’میں تیرا مال ہوں،میں تیرا خزانہ ہوں۔پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی :’’ ولا یحسبن الذین یبخلون بما آتاھم اللہ من فضلہ ھو خیرا لھم بل ھو شرلھم سیطوقون ما بخلوا بہ یوم القیامۃ‘‘ یعنی جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کچھ نواز رکھا ہے،وہ اس میں کنجوسی کو اپنے لئے بہتر تصور نہ کریں، بلکہ وہ ان کے لئے حددرجہ بدتر ہے، عنقریب قیامت کے دن اپنی کنجوسی کی چیز کا طوق پہنائے جائیں گے۔(سورۃ آل عمران؍۱۸۰)  * مانعِ زکوٰۃ کوقیامت کے دن اسی کے خزانے اور مال سے عذاب دیا جائے گا: دنیاوی زندگی میں انسان جس مال کو سنجو سنجو کر نہایت ہی جتن اور اہتما م سے رکھتا ہے ، جس کے حصول کے لئے شب و روز ایک کئے رہتا ہے اوراپنے چین و سکون کو بالائے طاق رکھتا ہے ، اگر اس نے اس مال میں زکوٰۃ نہ دیا ہوگا تو پھر یہی مال اس کے لئے وبالِ جان اور عذاب کا سبب ہوگا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’والذین یکنزون الذھب والفضۃ ولا ینفقونھا فی سبیل اللہ فبشرھم بعذاب ألیم، یوم یحمیٰ علیھا فی نار جھنم فتکویٰ بھا جباھھم و جنوبھم و ظھورھم ھذا ماکنزتم لأنفسکم فذوقوا ما کنتم تکنزون‘‘(سورۃ التوبہ؍۳۴۔۳۵) یعنی جو لوگ سونے چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ، انہیں دردناک عذاب کی خبر پہنچادیجئے کہ جس دن اس خزانے کو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی اور ان سے کہا جائے گا کہ یہ ہے جسے تم نے اپنے لئے خزانہ بناکر رکھا تھا پس اپنے خزانوں کا مزہ چکھو۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ جس کسی کے پاس سونے اور چاندی ہو ،لیکن اس نے اس کا حق(زکوٰۃ ) ادا نہ کی ہوتو قیامت کے دن اس کی تختیاں بنائی جائیں گی، پھر ان کو جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا ۔پھر ان سے اس کے پہلو، پیشانی اور پیٹھ کو داغا جائے گا ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے مابین ایک ایسے دن میں فیصلہ فرمادے گا جس کی مقدار تمہارے حساب سے پچاس ہزار سال کے برابر ہوگی۔اس کے بعد وہ شخص اپنی راہ دیکھے گا ، وہ راہ یا تو جنت کی طرف جارہی ہوگی یا پھر جہنم کی طرف۔ جو بکریوں کا مالک رہا ہوگا اور اس نے ان میں زکوٰۃ نہ دی ہوگی تو قیامت کے دن اس کی بکریاں پہلے کے مقابلے زیادہ موٹی شکل میں آئیں گی، پھر اسے ایک مسطح چٹیل میدان میں ڈال دیا جائے گا، وہ اسے اپنی سینگوں سے ماریں گی اور کھروں سے کچلیں گی، ان بکریوں میں کوئی ٹیڑھی سینگ والی یا بغیر سینگ والی بکری نہیں ہوگی۔ جب آخری بکری مارکر گزرے گی تو پھر پہلی مارنے والی بکری کو لوٹا دیا جائے گا، یہ سلسلہ جاری رہے گا ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے مابین فیصلہ فرمادے گا، اس دن جس کی مقدار تمہارے حساب سے پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا، اس کے بعد وہ شخص اپنا راستہ دیکھ لے گا ، جو یا تو جنت کی طرف جارہا ہوگا یا پھرجہنم کی طرف۔ نیز جو اونٹ کا مالک ہوگا اور اس نے ان میں واجبی حق نہ نکالا ہوگاتو یہ اونٹ بھی قیامت کے دن پہلے کے مقابلے زیادہ موٹے اور فربہ ہوکر آئیں گے اور اس شخص کو ایک مسطح چٹیل میدان میں ڈال دیا جائے گا، پھر وہ اسے اپنے کھروں سے روندیں گے۔جب آخری اونٹ روند لے گا تو پہلے اونٹ کو لوٹا دیا جائے گا۔یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہے گا، جب تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے مابین اس دن فیصلہ نہ فرمادے، جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہوگی، پھر وہ اپنی راہ دیکھ لے گا ، جو کہ یا تو جنت کی طرف جارہی ہوگی یا جہنم کی طرف۔(صحیح بخاری؍۱۴۰۲، صحیح مسلم؍۹۸۷) اسی طرح سے احنف بن قیس بیان کرتے ہیں کہ میں قریش کے چند لوگوں کے ہمراہ بیٹھا ہوا تھا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور کہنے لگے:خزانہ جمع کرنے والوں کو ایسے داغ کی بشارت دو ، جو ان کی پیٹھ پر لگائے جائیں گے تو ان کی پیشانیوں سے پار ہوجائیں گے، ان کی گدیوں میں لگائے جائیں گے تو ان کی پیشانیوں سے پار ہوجائیں گے۔اس کے بعد ابوذر رضی اللہ عنہ ایک کنارہ ہوکر بیٹھ گئے۔میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ ابوذررضی اللہ عنہ ہیں۔جب مجھے معلوم ہوا کہ وہ ابوذر ہیں تو میں ان کے پاس گیا اور عرض کیا : ابھی ابھی آپ نے جو بات کہی ہے ، وہ کیسی بات ہے؟ ابوذررضی اللہ عنہ نے کہا کہ اسے میں نے مسلمانوں کے نبی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔(صحیح مسلم) * زکوٰۃ ادا نہ کرنا کفرو شرک کی علامت اور ہلاکت و بربادی کا سبب ہے چونکہ زکوٰۃ ایک اہم اسلامی فریضہ ہے ۔لہذا، ایک سچا پکا مسلمان کبھی بھی اس کی ادائیگی کے سلسلے میں کوتاہی اور سستی سے کام نہیں لے سکتاہے ، اس وجہ سے کہ ایک حقیقی مسلمان کا مقصود رضاءِ الٰہی کا حصول ہوتا ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم انسانوں سے اسی صورت میں خوش ہوسکتا ہے جبکہ ہم اس کے نازل کردہ دین کے سبھی ارکان کو اداکریں اور ان میں کسی بھی صورت میں سستی و کاہلی کا مظاہرہ نہ کریں ، کیونکہ اسلامی فرائض کی ادائیگی اور شرعی احکام و قوانین کی بجاآوری میں وہی شخص سستی برتتا ہے ، جس کادل حقیقی معنوں میں ایمان و ایقان کی روشنی سے محروم ہوتا ہے ، وہ اسلام کے تعلق سے شک و شبہ میں ہوتا ہے ، بلکہ وہ شخص کفر و شرک سے مکمل طور پر بیزار نہیں ہوتا ہے ۔چنانچہ زکوٰۃ کے تعلق سے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’ویل للمشرکین ، الذین لا یؤتون الزکوٰۃ وھم بالآخرۃ ھم کافرون‘‘ یعنی مشرکوں کے لئے ویل (بربادی) ہے، جو زکوٰۃ نہیں ادا کرتے ہیں اور آخرت کا بھی انکارکرتے ہیں۔
بنواسرائیل کا مشہور واقعہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے تین افراد کو آزمانے کا ارادکیا ۔چنانچہ ان تینوں میں سے ایک کوڑھی تھا ، دوسرا اندھا تھا اور تیسرا گنجا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس ایک فرشتہ بھیجا ۔وہ فرشتہ سب سے پہلے کوڑھی کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کونسی چیز سب سے زیادہ پسندیدہ ہے؟ اس نے کہا کہ اچھا جسم ، اچھا رنگ اور مجھ سے وہ چیز ختم ہوجائے ، جس کی وجہ سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ چنانچہ فرشتے نے کوڑھی کے جسم پر ہاتھ پھیرا ، جس سے اس کی بیماری ختم ہوگئی ، پھر فرشتہ نے پوچھا کہ تمہیں کونسامال سب سے زیادہ پسندیدہ ہے؟ اس نے کہا کہ اونٹ، تو فرشتے نے اسے ایک حاملہ اونٹنی دے دی اور اس کے لئے برکت کی دعا کی ۔
اس کے بعد فرشتہ گنجے کے پاس گیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کونسی چیز سب سے زیادہ بھاتی ہے؟ اس نے کہا کہ خوبصورت بال اور میری آرزو ہے کہ مجھ سے وہ عیب زائل ہوجائے ، جس کی بناء پر لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔یہاں بھی فرشتے نے ہاتھ پھیرا، جس سے اس کا عیب جاتا رہا اور اسے خوبصورت بال دے دیا ۔پھر فرشتے نے گنجے سے پوچھا کہ تمہیں کونسا مال سب سے زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا کہ گائے، تو اسے ایک حاملہ گائے دے دی گئی اور فرشتے نے اس کے لئے برکت کی دعا کی ۔ اخیر میں وہ فرشتہ اندھے کے پاس گیا اور اس سے عرض پرداز ہوا کہ تمہارے نزدیک کونسی چیز محبوب ترین ہے؟ اس نے کہا : میرے نزدیک محبوب ترین چیز یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بینائی سے نواز دے ، تاکہ میں لوگوں کو دیکھ سکوں۔چنانچہ فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی واپس کردی ۔فرشتے نے پوچھا کہ تمہاری نگاہ میں کونسامال سب سے زیادہ عمدہ ہے؟ اس نے کہا کہ بکریاں، تو اسے ایک حاملہ بکری دے دی گئی اور فرشتے نے اس کے لئے دعاءِ برکت بھی کی۔ پھر تینوں جانوروں کے بچے پیدا ہوئے ، حتی کہ کوڑھی کے اونٹوں سے اس کی وادی بھر گئی ، گنجے کے گائے بیل سے اس کی وادی بھر گئی اور اندھے کی بکریوں سے اس کی وادی بھر گئی ۔ پھر فرشتہ اپنی پہلی شکل میں دوبارہ کوڑھی کے پاس آیا اور کہا : میں غریب اور لاچار انسان ہوں، سفر میں مال و اسباب ختم ہوگئے ہیں ، اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے حاجت پوری ہونے کی امید نہیں ہے ، لیکن میں تم سے اسی ذات کا واسطہ دے کر جس نے تم کو عمدہ رنگ ، اچھی جلد اور مال سے نوازا ہے، ایک اونٹ کا سوال کرتا ہوں، تاکہ اس سے میرا سفر پورا ہوجائے۔اس شخص نے کہا:میرے ذمہ دوسرے حقوق بھی ہیں۔فرشتے نے کہا: شاید میں تجھے پہچان رہا ہوں ، تمہیں کوڑھ کی بیماری تھی، جس کی وجہ سے لوگ تم سے نفرت کیا کرتے تھے اور تو قلاش انسان تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان چیزوں سے نواز ا؟ اس نے کہا کہ نہیں تو، مجھے یہ مال و دولت باپ دادا سے وراثت میں حاصل ہوئے ہیں۔فرشتے نے کہا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو، اللہ تعالیٰ تمہیں ویسا ہی کردے ، جیسا کہ تم تھے۔پھر وہ فرشتہ پہلی شکل و صورت میں گنجے کے پاس گیااور اس سے بھی وہیں باتیں کہی ، جو اس نے کوڑھی سے کہی تھی، مگر اس نے بھی وہی جواب دیا جو کہ کوڑھی نے دیا تھا تو فرشتے نے کہا : اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ ،تمہیں ویسا ہی بنادے ، جیسا کہ تم تھے۔اس کے بعد وہ فرشتہ اندھے کے پاس پہنچا اور اس سے کہا کہ غریب مسافر ہوں ۔طولِ سفر کی وجہ سے مال و اسباب ختم ہوگئے ہیں۔اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے حاجت پوری ہونے کی امید نہیں ہے۔میں تم سے اس ذات کے واسطہ سے ایک بکری کا سوال کرتا ہوں ، جس نے تمہیں بصارت عطا فرمائی ہے،تاکہ اس سے میں اپنا سفر مکمل کرسکوں ۔اندھے نے کہا کہ یقیناًمیں ایک نابینا انسان تھا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے مجھے بینائی سے نوازا اور حقیقی معنوں میں میں مسکین و لاچار تھا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے مالدار بنایا ۔تم جتنی بکریاں چاہتے ہو، لے سکتے ہو۔آج اللہ کے نام پر جتنا چاہو لے سکتے ہو، میں تمہیں ہرگز نہیں روکوں گا۔فرشتے نے کہا : تم اپنا مال اپنے پاس ہی رکھو ، یہ تو تم لوگوں کی آزمائش تھی، جس میں اللہ تعالیٰ تم سے خوش ہوا اور تمہارے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہوا ‘‘۔(صحیح بخاری؍۳۴۶۴، صحیح مسلم؍۲۹۶۴) * زکوٰۃ ادانہ کرنے والے لعنت زدہ ہیں: علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے، کھلانے، گواہی دینے اور کتابت کرنے والے نیز گوندنا گودنے اور گندوانے ، زکوٰۃ ادا نہ کرنے والے ، حلالہ کرنے اور کرانے والوں پر لعنت بھیجی ہے‘‘۔ (صحیح الترغیب والترہیب؍۷۵۶) * زکوٰۃ نہ دینے والے لوگوں کو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے: انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ زکوٰۃ نہ دینے والا انسان قیامت کے روز آگ میں ہوگا‘‘۔(صحیح الترغیب والترہیب للألبانی ؍۷۶۰) * زکوٰۃ ادانہ کرنا قحط اور خشک سالی کا سبب بنتا ہے: بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ زکوٰۃ نہ دینے والے لوگوں کو اللہ تعالیٰ قحط سالی میں مبتلا کردیتے ہیں‘‘۔ (صحیح الترغیب والترہیب ؍۷۶۱) عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ جو لوگ زکوٰۃ روک لیتے ہیں، ان سے بارش روک لی جاتی ہے‘‘۔ (صحیح الترغیب والترہیب؍۷۶۵) * زکوٰۃ ادانہ کرنے والوں کے خلاف قتال کیا جائے گا: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے تو عرب کے کچھ قبائل اسلام سے بیزار ہوگئے اور انہوں نے زکوٰۃ کا انکار کردیا۔جس کی وجہ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے قتال کا ارادہ کیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی موجودگی میں کیسے قتال کرسکتے ہیں، جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے قتال کروں ، جب تک کہ وہ ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کی گواہی نہ دے دیں اور جو اس کی گواہی دے دے، میری طرف سے ا س کا جان مال محفوظ ہوجائے گا،سوائے اس کے حق کے اور اس کا حساب کتاب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہوگا۔ عمر رضی اللہ عنہ کی بات کو سن کر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواباََ کہا :اللہ کی قسم! میں ہر اس شخص سے جنگ کروں گا ، جو نماز اور زکوٰۃ کے مابین فرق کرے گا ، اس وجہ سے کہ زکوٰۃ مال کا واجبی حق ہے۔اللہ کی قسم ! اگر انہوں نے زکوٰۃ میں جانوروں کی رسی کو دینے سے منع کیا، جسے وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے تو میں ان سے قتال کروں گا۔ یہ سن کر عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایسی بات اس وجہ سے کہی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے سینے کو اسلام کے لئے کھول دیا تھااور بعد میں مجھے بھی معلوم ہوگیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی حق پر تھے۔(صحیح بخاری؍۱۳۹۹،۱۴۰۰، صحیح مسلم؍۲۰) یہ رہے بعض وہ نصوص ، جن میں زکوٰۃ نہ دینے والوں کے تعلق سے سزاؤں اور وعیدوں کو بیان کیا گیا ہے، جن سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ زکوٰۃ دینے میں ٹال مٹول کرنا یا اسے ادا نہ کرنا کس قدر سنگین جرم ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مبارک حدیثوں میں ایسے لوگوں کے بارے کتنی سخت وعیدیں بیان فرمائی ہیں۔ہمیں چاہئے کہ ہم زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کریں اور اگر اس تعلق سے سستی برتتے رہے ہوں تو اس سے تائب ہوں اور یہ عزم کریں کہ ہمیشہ ہمیش اپنے مالوں میں زکوٰۃ ادا کریں گے۔اللہ ہمیں اس کی توفیق ارزانی فرمائے۔آمین