ماہ رمضان کے آخری عشرہ کے ایک ایک لمحہ کی قدر کریں

(اِنَّا اَنْزَلْنَاہٗ فِیْ لَےْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ) ہم نے ایک مبارک رات میں قرآن کریم کو اتارا ہے۔ اور سورۃ البقرہ کی آیت نمبر ۱۸۵ (شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فیہ القرآن رمضان کے مہینہ میں قرآن کریم نازل ہوا ہے) میں یہ مضمون صراحت کے ساتھ موجود ہے۔
شب قدر کے معنی: شب قدر کے دو معنی ہیں اور دونوں ہی یہاں مقصود ہیں۔ ایک یہ کہ یہ وہ رات ہے جس میں تقدیروں کے فیصلے کئے جاتے ہیں جیسا کہ سورۃ الدخان آیت نمبر ۴ میں ہے: فِےْہَا ےُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِےْمٍ یعنی اسی رات میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ یہ بڑی قدر ومنزلت اور عظمت وشرف رکھنے والی رات ہے، جیسا کہ سورۃ القدر میں تفصیل سے مذکور ہے ۔اس رات میں قرآن کریم کے نازل ہونے کا مطلب لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر اترنا ہے یا اس رات میں پورا قرآن کریم حامل وحی فرشتوں کے حوالہ کیا جانا مراد ہے یا یہ مطلب ہے کہ قرآن کریم کے نزول کی ابتدا اس رات میں ہوئی اور پھر واقعات اور حالات کے مطابق وقتاً فوقتاً ۲۳ سال کے عرصہ میں نبی اکرم پر نازل ہوا۔
شب قدر کی فضیلت نبی اکرم کی زبانی: شب قدر کی فضیلت واہمیت کے متعلق متعدد احایث کتب احادیث میں موجود ہیں، یہاں اختصار کی وجہ سے چند احادیث ذکر کررہا ہوں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کرنے والا بنائے، آمین-رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : جو شخص شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لئے) کھڑا ہو، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ (بخاری ومسلم) کھڑے ہونے کا مطلب: نماز پڑھنا، تلاوت قرآن اور ذکر وغیرہ میں مشغول ہونا ہے۔ ثواب کی امید رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ شہرت اور دکھاوے کے لئے نہیں بلکہ خالص اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے عمل کرنا ہے۔۔۔رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : تمہارے اوپر ایک مہینہ آیا ہے جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا گویا سارے ہی خیر سے محروم رہ گیا، اور اس کی بھلائی سے محروم نہیں رہتا مگر وہ شخص جو حقیقۃً محروم ہی ہے۔ (ابن ماجہ) رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : شب قدر کو رمضان کے اخیر عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کیا کرو۔ (بخاری) مذکورہ حدیث کے مطابق شب قدر کی تلاش ۲۱ ویں ، ۲۳ ویں، ۲۵ ویں، ۲۷ ویں، ۲۹ ویں راتوں میں کرنی چاہئے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضور اکرم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ اگر مجھے شب قدر کا پتہ چل جائے تو کیا دعا مانگوں؟ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا: پڑھو: اللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی(اے اللہ تو بیشک معاف کرنے والا ہے اور پسند کرتا ہے معاف کرنے کو ، پس مجھے بھی معاف فرمادے ۔ (مسند احمد ، ابن ماجہ، ترمذی)
شب قدر کی دو اہم علامتیں:شب قدر کی دو اہم علامتیں کتب احادیث میں مذکور ہیں: ایک یہ کہ رات نہ بہت زیادہ گرم اور نہ بہت زیادہ ٹھنڈی ہوتی ہے اور دوسری علامت یہ ہے کہ شب قدر کے بعد صبح کو سورج کے طلوع ہونے کے وقت سورج کی شعاعیں یعنی کرنیں نہیں ہوتی ہیں۔ نوٹ: اختلاف مطالع کے سبب مختلف ملکوں اور شہروں میں شب قدر مختلف دنوں میں ہو تو اس میں کوئی اشکال نہیں، کیونکہ ہر جگہ کے اعتبار سے جو رات شب قدر قرار پائے گی اس جگہ اسی رات میں شب قدر کی برکات حاصل ہوں گی،ان شاء اللہ۔
اعتکاف:ثواب کی نیت سے مسجد میں ٹھہرنے کو اعتکاف کہا جاتا ہے۔ اعتکاف میں انسان دنیاوی مشاغل چھوڑکر اللہ تعالیٰ کے در یعنی مسجد کا رخ کرتا ہے۔ پوری توجہ کے ساتھ عبادت میں مشغول رہنے سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو خاص تعلق اور قربت پیدا ہوتی ہے وہ تمام عبادتوں میں ایک نرالی شان رکھتی ہے۔ اعتکاف کی تین قسمیں ہیں: مسنون اعتکاف: یہ رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف ہے جو سنت علی الکفایہ ہے یعنی محلہ میں اگر ایک شخص بھی اعتکاف کرلے تو سب کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گا ورنہ سب ترک سنت کے گناہ گار ہوں گے۔ رمضان المبارک کی بیس تاریخ کو سورج غروب ہونے سے کچھ پہلے اعتکاف شروع کیا جاتا ہے اور عید کا چاند نظر آنے تک جاری رہتا ہے۔ اس اعتکاف کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے تقرب کے ساتھ شب قدر کی عبادت حاصل ہوجاتی ہے جس میں عبادت کرنا اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ہزار مہینوں یعنی ۸۳ سال کی عبادت سے بھی زیادہ بہتر ہے۔ ۲ہجری میں روزہ کی فرضیت کے بعد سے وفات تک نبی اکرم نے ہمیشہ رمضان میں اعتکاف فرمایا۔ واجب اعتکاف: یہ نذر ماننے کی وجہ سے لازم ہوتا ہے : مثلاً کوئی شخص کہے کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں اتنے دن کا اعتکاف کروں گا۔ نذر کے لئے روزہ کے ساتھ کم از کم ایک دن کا اعتکاف ضروری ہوتا ہے۔ مستحب اعتکاف: جب بھی آدمی مسجد میں داخل ہو تو یہ نیت کرلے کہ جب تک میں اس مسجد میں رہوں گا اعتکاف کی نیت کرتا ہوں۔ اس اعتکاف میں وقت اور روزہ کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ مسجد سے نکلنے پر اعتکاف ختم ہوجاتا ہے۔
مسنون اعتکاف سے متعلق بعض احادیث نبویہ:حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم نے رمضان کے پہلے عشرہ میں اعتکاف فرمایا اور پھر دوسرے عشرہ میں بھی، پھر خیمہ سے جس میں اعتکاف فرمارہے تھے، باہر سر نکال کر ارشاد فرمایا کہ میں نے پہلے عشرہ کا اعتکاف شب قدر کی تلاش اور اہتمام کی وجہ سے کیا تھا پھر اسی کی وجہ سے دوسرے عشرہ میں کیا، پھر مجھے کسی (یعنی فرشتہ) نے بتایا کہ وہ رات آخری عشرہ میں ہے، لہذا جو لوگ میرے ساتھ اعتکاف کررہے ہیں وہ آخری عشرہ کا بھی اعتکاف کریں۔ (بخاری مسلم) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے، وفات تک آپ کا یہ معمول رہا۔ آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات اہتمام سے اعتکاف کرتی رہیں۔ (بخاری ومسلم) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ہر رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے لیکن جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔ (بخاری) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے اعتکاف کرنے والے کے لئے فرمایا کہ وہ (اعتکاف کی وجہ سے مسجد میں مقید ہوجانے کی وجہ سے) گناہوں سے بچا رہتا ہے اور اس کے لئے نیکیاں اتنی ہی لکھی جاتی ہیں جتنی کرنے والے کے لئے (یعنی اعتکاف کرنے والا بہت سے نیک اعمال مثلاً جنازہ میں شرکت، مریض کی عیادت وغیرہ سے اعتکاف کی وجہ سے رکا رہتا ہے، ان اعمال کا اجروثواب اعتکاف کرنے والے کو کئے بغیر بھی ملتا رہتا ہے)۔ (ابن ماجہ)امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ مردوں کی طرح عورتیں بھی اعتکاف کرسکتی ہیں اور اگر عورت مسجد میں اعتکاف کرے تو بھی اس کا اعتکاف صحیح ہوجائے گا، مگر ۸۰ ہجری میں پیدا ہوئے حضرت امام ابوحنیفہ ؒ اور دیگر علماء کرام نے فرمایا کہ عورتوں کے اعتکاف کے لئے مساجد کے بجائے گھر کی وہ خاص جگہ جو عموماً نماز وغیرہ کے لئے مخصوص کرلی جاتی ہے زیادہ بہتر ہے۔صحیح بخاری ۔ باب اعتکاف النساء ، حدیث نمبر ۱۸۹۶ میں ہے کہ امہات المؤمنین کے مسجد میں اعتکاف کرنے کو حضوراکرم نے پسند نہیں فرمایا تھا۔