مساجد کی معنویت اور ائمہ کرام کی ذمہ داریاں

(مو لانا رضوان احمد ند وی :امارت شرعیہ پھلواری شریف ،پٹنہ)

مساجد ملت اسلامیہ کا دھڑ کتا ہوادل ہے، یہ اسلام کی اساستی تعلیمات کی اہم ترین نشر گاہ ہیں۔انہیں مساجد سے بڑے بڑے مدارس اور علمی مر اکز کا وجود قائم ہے۔ ابتدائی زمانے میں ائمہ فن ، کبار محدثین وفقہاء مسلمانو ں کے دینی معاملات ، مقدمات اور ان کے باہمی تنازعات بھی یہیں فیصل کیا کر تے تھے، خود جناب محمد رسول اللہ ﷺ مسلمانو ں کیلئے کوئی نئی ہدایت اور نئی رہنمائی کی ضرورت محسوس کر تے تو حکم دیتے کہ مسلمانو ں میں اعلان کر دیا جائے ’دوسرے محلے اور دور دراز کے مسلمان بھی آج نما ز مسجد نیوی میں پڑھیں کہ کوئی اہم بات کہنی ہے۔ ‘ گو یا اجتماعی نظام کا ایک ایسا مر کز تھا جہا ں حفاظت دین اور حمایت دین کا کام لیا جا تاتھا اور مسجدو ں کے ممبرو ں اور محرابو ں سے زندگی کے مختلف شعبو ں اور مختلف مہموں کے احکام جاری کئے جا تے تھے۔ جب مسلمانوں کے ذہن ودماغ پر دینوی تقاضے اور مادی خیالات و تصورات کا رنگ غالب ہو گیاتو آہستہ آہستہ مساجد کی جا معیت اور مر کز یت ختم ہو نے لگی، بلکہ آج یہ نو بت آگئی ہے کہ مسجد چند معذور لوگو ں کیلئے چند رکعات ادا کر نے کی جگہ بن کر رہ گی ہے۔ در انجا لیکہ کتاب وسنت میں مساجد کی عظمت اہمیت اور آداب و حقوق کا تعلیم دی گئی کہ مساجد اللہ کا گھر ہیں حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فر ما یا، المساجد بیوت اللہ فی الار ض ، مسجد یں رو ئے زمین پر اللہ تعالیٰ کے گھر ہیں اور شعار دین میں سے ہیں اللہ رب العزت کا رشاد ہے اللہ کی مسجد و ں کو آباد کر نے والے وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو ں، نماز قائم کر تے ہو ں، زکو ۃ دیتے ہو ں اور اللہ کے کے سوا کسی سے نہ ڈر تے ہو ں ایسے ہی لوگو ں سے یہ تو قع کی جاسکتی ہے کہ وہ سیدھی راہ پر چلیں گے۔ ( سورہ تو بہ)اس آیت میں یہ بتل یاگیاکہ مساجد کی حقیقی آبادی یہ ہے کہ ذکر اللہ نے کر نے والے کثرت سے مو جو د ہو ں اور خدا کے سواکسی سے نہیں ڈر تے ہو ں ۔ ایک موقع پر حضور اکر م ﷺ نے ارشاد فرما یاکہ کب تم کسی شخص کو دیکھ کہ وہ مسجد سے تعلق رکھتا ہے اور اس کی خدمت اور نگہداشت رکھتاہے اس کیلئے ایمان کی شہادت ………دو سری حدیث شریف میں فر مایاکہ تم جنت کے باغو ں سے گزر و تو آسو دہ ہو کر کھاپی لو ، صحابہ نے در یافت کیاجنت کے باغات کیاہیں،؟ ارشاد ہو ا ،مساجد …….پھر پو چھا گیا کہ آسو دہ ہو کر وہا ں کھانا کیو نکر؟ ارشاد فر ما یاسبحا اللہ و لحمد اللہ و لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر کا ورد کرن ا ہے ۔
ان حادیث کی رو شنی میں ہم کو اپنے قلوب کا جائزہ اور اعمال کامحاسبہ کر ناچاہئے کہ غفلت اور بے حسی کس قدر آچکی ہے، بلکہ میں کہتا ہو کہ آج مسلم معاشرہ کا سارا بگاڑ اور ساری خرابیاں اور ہر طر ح کی برائیوں اور فسادات کاسر چشمہ صر مساجد سے بے تعلقی کا نتیجہ ہے صاحب ایمان اور دینی شعور اور ایمانی بصیرت رکھنے والے مسلمانو ں پر ل زم ہے کہ وہ مساجد کو نما ز اور سجدہ تلاوت ذکر و تسبیح کے رو حانی نی ماحول سے آباد رکھیں اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گاکہ اس سے دلو ں میں رقت پیدا ہو گی اور اللہ کی خوشنودی وتابعداری کااظہار ہو گا دو سری طرف ائمہ مساجد اپنی ذمہ داریو ں میں رقت پیدا ہو گی اور اللہ کی خوشنودی و تا بعداری کااظہار ہو ا دو سری طرف ائمہ مساجد اپنی ذمہ داریو ں کو محسوس کر یں اورمنصب امامت جو ایک عظیم امانت اور مقدس ذمہ داری ہے اس کو عبادت اور دین و ملت کی خدمت سمجھ کر انجام دیں حضور اکر م ﷺ نے ارشاد فر مایاکہ کہ امام نما زیو ں کی نما ز کا ذمہ دارہوتا ہے اس حیثیت سے صفو ں کی نگرانی، مقتدیو ں کالحاظ، تعدیل ار کان، تلاوت قر آن پاک میں صحت الفاظ اور نماز میں خشوع وخضوع یہ سب امام کے فرائض اور ذمہ داریو ں میں داخل ہے اس وقت مساجد کے حقیقی کر دارکو زندہ کر نے کیلئے مندر جہ ذیل طریقہ کا ر کو اختیار کر نے کی ضرورت ہے۔ امام کو مسائل نما ز سے پوری واقفیت ہو نی اہئے تاکہ وہ نما ز کو اس کے پورے حقوق کے ساتھ ادا کرسکے یہی وجہ ہیکہ فقہا کرام نے مستحقین امامت میں علم الناس کو اول در جہ دیا ہے۔ تقویٰ و پر ہیز گاری اور محاسن اخلاق جیسی صفات کے لحاظ سے مامو ں کو ممتا ز ہو نا چاہئے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضوراکر م ﷺ نے ارشاد فر ما یاکہ تم میں جو اچھے اور بہتر ہو ں ان کو اپنا امام بناؤ کیوکہ تمہارے رب اور مالک کے حضور میں نمائندہ ہو تے ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ اۂ مساجد کو باوقار اور باوزن ہو نا چاہئے بلکہ ظا ہری ہیئت بھی ذرا عمدہ اور نمایا بنا ئے جس سے لوگو ں میں عزت و احترام کا جذبہ اور سمع وطاعت کی کیفیت پیدا ہو ۔جمعہ کو ہفتہ وار اجتماع ہو تاہے اس اجتما ع سے ہمیشہ قو م وملک کو فائدے پہنچتے رہے ہیں ۔ اس موقع پر ائمہ کرام امت میں نظم وضبط پیدا کر یں ، شریعت کی پابندی اور اتباع سنت کااہتمام کرنے پر زور دیں، نیز مسلکی اور گرو ہی اختلافات سے گریز کریں۔ بلکہ صرف اسلام کی اساسی تعلیمات اور بنیا دی عقائدہ عبادات اور اخلاقی ہدایات اور پھر معاشرے میں اس کے کامیاب اثرات کے موضوع پر تقریر کر یں۔
یہ بات ذہن نشیں ہو نی چاہئے کہ وعظ و تقر یر محض ذہانت کی بنیاد پر یاقیاس آرائی پر ہر گز نہ کر یں بلکہ قر آن و حدیث کی رو شنی میں قر آنی آیات اور احادیث کی رو شنی میں قر آنی آیات اور حادیث نبوی ﷺ کو ذہن میں مرتب کر لیں تاکہ تقر یر میں اعتدال و توازن باقی رہے اور اس سے جذبہ عمل بہ عمل اور خود اعتمادی کی کیفیت پیدا ہو۔
مساجد دینی تعلیم و تربیت کا بہتر ین مر کز ہیں اس لئے وہا ں خود کفیل مدارس و مکاتب قائم کئے جا ئیں۔ مساجد کو مسلمانو ں کی ملی و دینی سر گر میو ں کا مر کز بنانے کی کو شش کر یں ۔ والتو فیق من اللہ العزیز الکریم۔
ائمہ مساجد سے متعلق یہ مختصر سا خاکہ بطور تمثیل پیش کیاگیاہے تاکہ اس کی رو شنی میں کام کی اہمیت اور نوعیت واضح ہو جائے ۔