وہ چیزیں جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے

بلاشبہ رمضان کے روزے شریعت اسلامیہ کے اہم ارکان میں سے ایک ہیں۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں اس اہم اومہتم بالشان عبادت کے آداب و ضوابط ،شروط و قیود، موانع و نواہی اور مفطرات و محظورات کو تفصیلی طور پر بیان کردیا ہے۔یقینی طور پر یہ مذہب اسلام کا کمال ہی ہے کہ اس میں کسی بھی عبادت کے کسی بھی پہلو کو تشنہ نہیں چھوڑا ہے بلکہ اسے انتہائی شفافیت اور واضح شکل میں بیان کردیا ہے تاکہ مسلمانوں کو کسی طرح سے اسلامی احکامات کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں دشواری نہ ہو۔جی ہاں، اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے اندر اور جناب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیاری حدیثوں میں روزوں کے متعلق جملہ ہدایات اور احکامات تفصیلی شکل میں بیان فرمادیا ہے اور انتہائی واضح صورت میں بتادیا ہے کہ ایک روزے دار کے لئے کن چیزوں کی رعایت ضروری ہے اور کن باتوں سے اجتناب ضروری ہے۔نیز شریعت اسلامیہ نے ان چیزوں کو بالکل واضح شکل میں بیان کردیا ہے جن کے ارتکاب سے انسان کا روزہ فاسد یا باطل ہوجاتا ہے اور وہ شخص روزے دار کی فہرست سے باہر نکل جاتا ہے۔زیر نظر سطور میں ایسے ہی چند اعمال کو ذکر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جن کے بارے میں قرآن و سنت کے نصوص میں صراحتاََ وارد ہیں کہ وہ مفطرات صوم ہیں یعنی ان کے ارتکاب سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ * جماع اور صحبت کرنا:عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک شخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا اور اس نے عرض کیا کہ میں جہنم کی آگ میں جل گیا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا :’’کیا بات ہے؟‘‘اس نے کہا: میں نے رمضان میں اپنی بیوی کے ساتھ صحبت کرلی ہے۔اس دوران رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھجور کی ایک ٹوکری لائی گئی ، جسے عرق کہا جاتاہے تو آپ نے فرمایا:’’ دوزخ میں جلنے والا کہاں ہے؟‘‘ تو وہ شخص بولا: میں حاضرہوں۔آپ نے فرمایا :’’اس کھجور کو لے جاؤ اور اسے صدقہ کردو‘‘۔(صحیح بخاری؍۷۹۳۵، صحیح مسلم؍۱۱۱۲) اگر کوئی انسان رمضان کے دنوں میں اپنی بیوی سے ہمبستر ہوتا ہے تو ایسے شخص کا روزہ فاسد ہوجاتا ہے اور اس پر ضروری ٹھہرتا ہے کہ وہ اللہ سے توبہ کرے اور اس دن کے روزے کی قضاء کے ساتھ ساتھ کفارہ مغلظہ ادا کرے جسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں بیان فرمایا ہے ۔حدیث میں وارد ہے کہ ایک شخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:اللہ کے رسول! میں ہلاک ہوگیا۔ اللہ کے رسول نے دریافت کیا:کس چیز نے تمہیں ہلاک کردیا؟ اس نے عرض کیا: میں ماہ رمضان کے دن میں اپنی بیوی سے ہم بستر ہوگیا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’کیا تمہارے پاس ایک غلام کو آزاد کرنے کی طاقت ہے؟‘‘۔ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے پوچھا:’’کیا تم مسلسل دو مہینے کے روزے رکھ سکتے ہو۔وہ بولا:نہیں۔آپ نے پوچھا:کیا تم ساٹھ مسکین کو کھانا کھلاسکتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں….. (صحیح بخاری؍1936، صحیح مسلم؍1111) * استمناء (ہاتھ وغیرہ کے ذریعہ منی کا اخراج):استمناء یعنی ہاتھ یا کسی اور ذریعہ سے منی کے اخراج سے انسان کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے روزے دار کے بارے میں ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے ’’…. وہ (روزے دار)کھانا ،پانی اور شہوت کو میرے لئے ترک کرتا ہے…‘‘۔(صحیح بخاری؍1894، صحیح مسلم؍1151) بلاشبہ استمناء شہوت کا حصہ ہے جسے ہر روزے دار پر چھوڑنا ضروری ہے۔
اگر کوئی انسان روزے کی حالت میں استمناء (منی کا اخراج )کرتا ہے تو اس پر ضروری ہے کہ وہ اللہ سے توبہ و استغفار کرے اوربقیہ دن اس عمل سے باز رہے ،نیز رمضان کے بعد اس کی قضاء کرے۔ *عمداََ( جان بوجھ کر) کھانا پینا: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :’’وکلوا واشربوا حتی یتبین لکم الخیط الأبیض من الخیط الأسود من الفجر ثم أتموا الصیام الی اللیل‘‘ یعنی تم کھاتے پیتے رہو ، یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ظاہر ہوجائے پھر رات تک روزے کو پورا کرو‘‘۔ (سورۃ البقرۃ؍۱۸۷) البتہ اگر کوئی انسان بھول کرکھاپی لیتا ہے تو ایسی صورت میں اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا ، بلکہ اس شخص کے بارے میں شریعت نے رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ شخص اپنے روزے کو جاری رکھے اور اس کو نہ توڑے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب کوئی انسان بھول کر کھاپی لے تو اس کو چاہئے کہ وہ روزہ پورا کرلے، اس وجہ سے کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے کھلایا اور پلایا ہے۔(صحیح بخاری؍۱۹۳۳، صحیح مسلم؍۱۱۵۵) * ان چیزوں کا استعمال جن پر کھانے یا پینے کا اطلاق ہوتا ہے یا جو کھانے پینے کے مفہوم میں ہوں: اس میں دو طرح کی چیزیں شامل ہیں:پہلی چیز یہ ہے کہ روزے دار کو خون چڑھانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اس وجہ سے کہ کھانے اور پینے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ انسان کے جسم میں خون ہو، جس سے کی اس کی توانائی میں اضافہ ہو اور وہ اچھے ڈھنگ سے چل پھر سکے۔ دوسری چیز یہ ہے کہ غذائی یا آبی انجکشن کا استعمال جس سے استعمال سے انسان کوکھانے پینے کی ضرورت نہ پڑے۔اس وجہ سے کہ یہ کھانے اور پینے کے درجے ہی میں ہیں۔(مجالس شھر رمضان للشیخ ابن عثیمین ،ص؍70) ان کے علاوہ جو انجکشن علاج و معالجہ کے لئے دیئے جاتے ہیں،جیسے بنسولینن انجکشن، انسولین انجکشن، نشاط آور انجکشن وغیرہ تو اس کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں ہے چاہے انہیں عضلات (Muscles) میں دیا جائے یا پھررگ (Vein) میں۔(فتاوی محمدبن ابراہیم4؍189) ویسے احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ ان سبھی انجکشنس کا استعمال رات ہی میں کیا جائے۔ * عمداََ(جان بوجھ کر) قے کرنا:ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ جس شخص پر قے غالب آگئی اور اس نے روزے کی حالت میں قے کردیا تو اس پر قضاء نہیں ہے اور جس نے جان بوجھ کر قے کیا تو اسے چاہئے کہ وہ روزے کی قضاء کرے‘‘۔(سنن ابوداود؍۲۳۸۰، سنن ترمذی؍ ۷۲۰، سنن ابن ماجہ؍۱۶۷۶) امام ابن منذر نے کہا ہے کہ عمدا قے کرنے والے شخص کے روزہ کے باطل ہونے پر سبھی اہل علم کا اتفاق ہے۔(المغنی لابن قدامہ 4؍368) البتہ غیر ارادی قے کا آجانے سے روزہ باطل نہیں ہوتا بلکہ حدیثوں میں وارد ہے کہ ایسے شخص کا روزہ صحیح ہوگا۔عمر بن حکم بن ثوبان بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو بیان کرتے سنا کہ اگر کوئی قے کردے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ہے، کیونکہ ایسی حالت میں جسم سے باہر آتی ہے ، اندر نہیں جاتی۔(صحیح بخاری؍۳۸۳) * حیض و نفاس:مشہور حدیث ہے کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ اے عورتوں کی جماعت! تم لوگ زیادہ سے زیادہ صدقہ وخیرات کیا کرو، اس وجہ سے کہ میں نے دیکھا ہے کہ جہنم میں تم لوگوں کی تعداد ہی زیادہ ہے۔انہوں نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! ایسا کیوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ تم لوگ لعن و طعن زیادہ کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو، عقل و دین میں ناقص ہونے کے باوجود ، میں نے تم سے زیادہ کسی عقل مند اور تجربہ کار انسان کی عقل کو کھاجانے والا کسی دوسری مخلوق کو نہیں دیکھا۔عورتوں نے کہا کہ ہمارے عقل و دین میں ناقص ہونے کا مطلب کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: کیا عورت کی گواہی مردکی گواہی کی نصف نہیں ہے؟ انہوں نے کہا کہ بالکل معاملہ ایسا ہی ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورتوں کی عقل کم ہونے کا یہی مطلب ہے۔پھر آپ نے پوچھا کہ کیا عورت جب حیض و نفاس میں مبتلا ہوجاتی ہے تو نماز اور روزوں کو ترک نہیں دیتی ہے۔عورتیں بولیں:بالکل معاملہ ایسا ہی ہوتا ہے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ یہی ان کے دین کی کمی ہے‘‘۔(صحیح بخاری؍۳۰۴) یہ رہے بعض وہ امور جن کے بارے میں یاتو صراحتاََ کتاب و سنت میں وارد ہے کہ ان چیزوں سے روزہ ٹوٹ جائے گا یا علمائے کرام نے نصوص پر قیاس کرتے ہوئے فتویٰ دیا ہے کہ ان سے انسان کا روزہ فاسد یا باطل ہوجائے گا اور اس پر قضاء واجب ہوگی۔اس کے علاوہ حدیثوں میں بعض ایسے اعمال بھی وارد ہیں جن کے بارے میں موجودہ دور میں سمجھاجاتا ہے کہ وہ مفطرات میں سے ہیں اور ان کو انجام دینے سے انسان کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔زیر نظر سطور میں ایسی ہی چند چیزوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ ذکر کیاجارہا ہے، تاکہ جہالت کا سدباب ہو: * مسواک کرنا :روزے کی حالت میں مسواک کا استعمال مباح عمل ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کا حددرجہ اہتمام کیا کرتے تھے، بلکہ آپ نے فرمایا ہے کہ اگر یہ چیز میری امت کے لئے مشقت کا سبب نہ ہوتی تو میں ہر وضو کے وقت اپنی امت کو مسواک کا حکم دیتا ۔(صحیح بخاری) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان عام ہے ، جس میں روزے دار اور غیر روزے دار دونوں شامل ہیں، جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں روزے دار یاغیرروزے دار کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔
* غسل کرنا:عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں اس حال میں صبح کرتے کہ آپ جنبی ہوتے، اس کے بعد آپ غسل کیا کرتے تھے اور روزے رکھا کرتے تھے۔(صحیح بخاری؍۹۳۰، صحیح مسلم؍۱۱۰۹) * اگر نفس پر کنٹرول ہوتو اپنی بیوی سے بوس و کنار ہونا:ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں بوسہ لیاکرتے اورمباشرت کیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ نفس پر کنٹرول رکھنے والے تھے۔(صحیح بخاری؍۱۹۳۷) عائشہ رضی اللہ عنہا ایک دوسری روایت میں ارشاد فرماتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں اپنی بعض بیویوں کا بوسہ لے لیا کرتے تھے۔(صحیح بخاری؍۱۹۳۸، صحیح مسلم؍۱۱۰۶) * سینگی لگوانا:یوں تو روزے کی حالت میں سینگی لگوانے کے جواز اور عدم جواز کے تعلق سے علماء کرام کا اختلاف ہے لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے کہ آپ نے روزے کی حالت میں پچھنا لگوایا۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام اور روزے کی حالت میں پچھنا لگوایا۔(صحیح بخاری؍۱۹۳۸) البتہ بعض روایتوں میں وارد ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگی لگانے کے عمل کو روزہ کے منافی قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس عمل سے انسان کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے ،جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’’پچھنا لگانے والے اور پچھنالگوانے والے کا روزہ ٹوٹ گیا‘‘۔(سنن ابوداود؍2367، شیخ البانی نے صحیح سنن ابوداود؍2047میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔)
محدثین کرام نے ان حدیثوں کے مابین تطبیق کی مختلف صورتیں اختیار کی ہیں جن میں سب سے عمدہ اور بہتر موقف یہی ہے کہ جن روایتوں میں سینگی سے روزہ ٹوٹنے کی بات کہی گئی ہے ،وہ منسوخ ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ناسخ ہے۔ نیز اس کے منسوخ ہونے پر دوسری روایتیں بھی دلالت کرتی ہیں،جن میں سے ایک ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے جس میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ دار کے لئے بوسہ لینے اور سینگی لگوانے کی رخصت مرحمت فرمائی ہے۔(اسے دارقطنی اور ابن خزیمہ ؍1968نے روایت کیا ہے اور شیخ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔)اس روایت میں رخصت کی بات ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ ممانعت کے بعد اجازت دی گئی ہے۔ ہاں،اگر کسی شخص کے بارے خدشہ ہوکہ سینگی لگوانے کے بعد وہ کمزوری کا شکار ہوجائے گا تو پھر ایسے شخص کے حق میں اس کا استعمال مکروہ ہے،جیساکہ انس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ کیا آپ لوگ سینگی لگوانے کو ناپسند کیا کرتے تھے؟ انس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:نہیں، الایہ کہ انسان کے کمزور ہونے کا خدشہ ہو۔(صحیح بخاری؍1940)  اس کے علاوہ بھی بہت ساری ایسی چیزیں ہیں ، جن کے بارے میں اسلاف سے مروی ہے کہ ان کو کرنے سے انسان کا روزہ نہیں ٹوٹتا ، جیسے سر یا کان میں تیل ڈالنے، کنگھی کرنے ، بھیگا ہوا کپڑا سر پر رکھنے، کھانے سے نمک وغیرہ چکھنے اور حلق میں مکھی وغیرہ کے داخل ہونے وغیرہ سے انسان کا روزہ نہیں ٹوٹتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم روزے کے دوران ان سبھی چیزوں کی رعایت کریں تاکہ ہم روزے کی خیروبرکت سے فیضیاب ہوسکیں اور ہمارا روزہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں مقبول ہوسکے اور اسی طرح سے جن چیزوں کو روزے کی حالت میں انجام دینے کی اجازت ہے ، ہم انہیں انجام دیں اور اپنی جانوں پر بے جا تشدد اور سختی نہ کریں کیونکہ دینی معاملات میں تشدد اور بے جا سختی اسلامی اسپرٹ اور مزاج کے خلاف ہے۔ اللہ ہمیں توفیق ارزانی فرمائے۔آمین