سعودی عرب کا فلسطین پر مؤقف غیرمتزلزل ہے: شاہ سلمان

جدہ ،20 جون(پی ایس آئی)سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے کہا ہے کہ فلسطینی نصب العین اور فلسطینی عوام کے جائز حقوق کے بارے میں سعودی عرب نے غیر متزلزل اور مضبوط مؤقف اختیار کررکھا ہے۔انھوں نے یہ بات جدہ میں اتوار کو فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات میں کہی ہے۔انھوں نے ملاقات میں فلسطینی علاقوں کی تازہ صورت حال پر تبادلہ خیال کیا ہے۔اس موقع پر فلسطینی صدر نے سعودی فرمانروا کو یادگاری تحفہ بھی دیا ہے۔عین اسی روز اسرائیلی حکومت نے مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آبادکاروں کی بستیوں کے لیے ایک کروڑ اسی لاکھ ڈالرز کی اضافی رقم کی منظوری دی ہے اور کہا ہے کہ یہ رقم سکیورٹی خطرات سے نمٹنے کے لیے مختص کی جائے گی۔اسرائیلی روزنامے ہارٹز کی رپورٹ کے مطابق بنیامین نیتن یاہو کی کابینہ اس مقصد کے لیے آٹھ کروڑ اسی لاکھ ڈالرز کی رقم پہلے ہی مختص کرچکی ہے اور اس کا یہ موقف رہا ہے کہ اکتوبر کے بعد مغربی کنارے کے علاقے میں چاقو حملوں ،فائرنگ اور کاریں چڑھانے کے واقعات کے بعد سے سکیورٹی تحفظات کے پیش نظر یہ رقم مختص کرنا ضروری تھا۔تاہم یہ رقم مختلف مقاصد کے لیے استعمال کی جائے گی اور نیتن یاہو نے کابینہ کے ہفت وار اجلاس کے آغاز میں بھی اس جانب اشارہ کیا ہے اور اس کو مغربی کنارے میں کمیونٹیوں کو مضبوط بنانے کے لیے ایک امدادی منصوبہ قرار دیا ہے۔انھوں نے کہا کہ اس رقم سے سکیورٹی کو مضبوط بنائے جائے گا،چھوٹے کاروباروں کے لیے معاونت کی جائے گی اور سیاحت کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔تنظیم آزادیِ فلسطین (پی ایل او) کے سیکریٹری جنرل صائب عریقات نے اس اقدام کو عالمی برادری کے منھ پر ایک طمانچہ قراردیا ہے۔انھوں نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل پائیدار امن کے قیام کی غرض سے کی جانے والی ہر کوشش کو سبوتاڑ کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کررہا ہے۔اسرائیلی پارلیمان میں حزب اختلاف کی جماعت صہیونیت یونین کے رکن عامر پیرز نے حکومت پر سیاسی مقاصد کے لیے سیٹلمنٹس پر رقوم ضائع کرنے کا الزام عاید کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اسرائیل میں خاندانوں کی مدد کے بجائے ایسا کررہی ہے۔یاد رہے کہ اسرائیل نے 1967ء کی جنگ میں بیت القدس ،غرب اردن اور غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لیا تھا۔اس نے بعد میں بیت المقدس کو اپنی ریاست میں ضم کر لیا تھا مگر اس اقدام کو بین الاقوامی برادری تسلیم نہیں کرتی ہے۔ اسرائیل اب تک کم وبیش چھے لاکھ یہودی آبادکاروں کو غرب اردن میں مختلف بستیوں میں بسا چکا ہے لیکن یورپی یونین سمیت عالمی برادری ان بستیوں کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتی ہے۔امریکا مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کی جانب سے یہودی آبادکاروں کے لیے مکانوں کی تعمیر پر تنقید کرتا رہتا ہے اور انھیں امن کی راہ میں حائل سمجھتا ہے۔دوسری جانب اس نے اسرائیل پر اقوام متحدہ کا دباؤ بڑھانے کے لیے فلسطینی کوششوں کی ہمیشہ مزاحمت کی ہے اور وہ سلامتی کونسل میں اسرائیل مخالف قراردادوں کو ویٹو کرتا چلا آرہا ہے۔