منی پور میں اے ایف اس پی اے کے غلط استعمال پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا ایس ڈی پی آئی نے کیا خیر مقدم

نئی دہلی
( پریس ریلیز)
سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا نے منی پور میں AFSPAکے غلط استعمال پر سپریم کور ٹ کے حالیہ فیصلے کا مقدم کیا ہے ۔ جس میں سپریم کورٹ نے فوج پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذکورہ کالے قانون کے آڑ میں فوج نے ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا ہے۔ منی پور کو گذشتہ 35سالوں سے باغی علاقہ قرار دیکر شورش پسندی کا مقابلہ کیا جارہا ہے۔عدالت نے اپنے فیصلے میں گولی مار کر ہلاک کرنے کے فوج کے خصوصی اختیارات کے تعلق سے سخت ترین ملامت کیا ہے۔پارٹی نے اس بات کی طرف خصوصی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوج کو حاصل شدہ مذکورہ خصوصی اختیارات درا صل یہ برطانوی دور کا دستور ہے جو1942کےQuit India Movement کو دبانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ عدالت کا یہ فیصلہ فوج کے لیے ایک دھچکا ہے۔ اس سلسلے میں عدالت میں سی بی آئی یا خصوصی جانچ ٹیم کے ذریعے جانچ کرنے کے لیے درخواست نامے داخل کئے گئے ، جس میں فوج پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ منی پور میں سال 2000اور 2012کے درمیان مبینہ طور پر 1,528 “Extra Judicial Killings”کے واقعات پیش آئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے منی پور میں اس طرح کے فرضی انکاﺅنٹرزکے الزامات کی تحقیقات کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ اس ضمن میں ایس ڈی پی آئی قومی صدر اے سعید نے اپنے اخباری بیان میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کوکشمیر میں بھی اسی طرح کے نقطہ نظر کو اپنانا چاہئے ۔ کشمیر میں بھی AFSPAکا غلط استعمال کیا جارہا ہے اور کشمیریوں کی ایک عام اور محفوظ زندگی گذارنے کی خواہشات کا گلا گھوٹا جارہا ہے۔ منی پور معاملہ میں جسٹس سنتوش ہیگڈے سپریم کورٹ کے ہدایت کے مطابق تحقیقات کرکے پتہ لگایا کہ 58واقعات فرضی انکاﺅنٹر ہیں اورانہوں نے سفارش کی کہ منی پور میں فوج کے ذریعے مارے گئے 1500 افراد کے مقدمات کی دوبارہ تحقیقات کی جائے۔ اب جبکہ سپریم کورٹ نے اس معاملہ میں جو فیصلہ سنایا ہے اس سے جسٹس سنتوش ہیگڈے مبارکباد کے قابل ہیں۔ اب سپریم کورٹ کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ کشمیر معاملہ میں بھی اسی طرح مداخلت کرے کیونکہ کشمیر میں موجودہ صورتحال بہت خطرناک ہے ، جہاں گزشتہ دو دنوں سے ایمولینس اور اسپتالوں پر حملے ہورہے ہیںاور وادی کشمیر میں شہری آزادی کا وجود نہیں ہے۔ کشمیر میں فوج کی بھاری تعداد میں تعینات جمہوریت کی کمزور حالت کی منافی کررہا ہے۔ یہ صورتحال ایک جمہوری ملک میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے۔ ملک کی جمہوریت بازیافتی کے لیے فوری طور پر سپریم کورٹ کی جانب سے از خود مداخلت کی ضرورت ہے۔ قومی صدر اے سعید نے کہا کہ منی پورکے تعلق سے عدالت کااس فیصلے کے گہرے معنی یہ ہے کہ فوج کو امن و امان بحال کرنے کے لیے استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ امن و امان کی بحالی کی ذمہ داری پولیس ، بیوروکریٹس ، ( آئی پی ایس ، آئی اے ایس ) ،ان کو ہی امن امان کی بحالی لیے فوج کی بجائے پولیس کو استعمال کیا جانا چاہئے۔ فوج کو چاہئے کہ وہ واپس اپنے بیرکوں میں چلے جائے اور سول انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ اپنی ذمہ داری نبھانے کے لیے واپس اپنے کام پر لگ جائے۔ قومی صدر اے سعید نے کہا ہے کہ AFSPAکا طویل عرصہ تک استعمال کرنا جمہوریت پر ایک داغ ہے۔ بدقسمتی سے فوج کو اس قانون کے استعمال کے لیے کھلی چھوٹ دی گئی ہے اور ان میں اکثریت اپنی ذمہ داری کا غلط استعمال کرتے ہیں وہ دن اب نہیں رہے ہیں کہ جب ہر ایک فوجی کو عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ انہوں نے اس کی بات کی طرف زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ منی پور سے AFSPA ہٹا دیا جائے اور لوگوں کو راحت کی زندگی بسر کرنے دیا جائے۔ وعدے کے مطابق منی پور میں ایک اسپورٹس یونیورسٹی کی تعمیر کی جائے ، اس میں کوئی شک نہیں کے منی پور ملک کا اسپورٹس پاور ہاﺅز بن سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک عارضی اقدام کے لیے 35سال سے منی پور میں AFSPAکا استعمال بہت طویل ہے۔ مرکزی اور ریاستی حکومت دونوں کو چاہئے کہ وہ صورتحال کا جائزہ لیکر ایک مستقل لائحہ عمل کے تحت ریاستی پولیس فورس کو امن واما ن برقرار رکھنے کی ذمہ داری دے اوراسی دوران فوج کو ہٹادینا چاہئے۔ اگر مرکزی حکومت کو اس کے لیے فنڈ جاری کرنا پڑے تو فنڈ جاری کرے۔ سپریم کورٹ نے منی پور کے Disturbed Areaکے حیثیت دیئے جانے کے تعلق سے جو سوال اٹھایا ہے وہ مناسب سوال ہے ، کیونکہ منی پور میں ایک منتخب حکومت ہے اور کیا یہ حکومت منی پور میں امن و امان کو منظم کر نے لیے نا اہل ہے ؟۔ اگر ایسا ہے تو ان نا اہلوں سے ذمہ داری چھین کر منی پور میں مرکزی حکومت کا نافذ کیوں نہیں کیا جاسکتا ہے؟ ۔ہر حال میں AFSPAکا طویل استعمال جمہوری ملک کے لیے شرم کی بات ہے۔ منی پور اگر اشانت ریاست ہے تو ہر ایک ریاست جیسے دہلی، بہار، اتر پردیش، ہریانہ، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، اڈیسہ اور پنجاب وغیرہ بھی اشانت ریاستیں ہیں یہاں بھی AFSPAنافذ کیا جانا چاہئے۔ ایس ڈی پی آئی قومی صدر اے سعید نے اپنے بیان میں اس بات کی طرف خصوصی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ انسانی حقوق کی سر گرم کارکن اروم شرمیلا AFSPAکے ہٹائے جانے کے مطالبے کو لیکرگذشتہ 15سال بھوک ہڑتال کررہی ہیں۔ اروم شرمیلا کو امپھال کے ایک سرکاری اسپتال میں زبردستی خوراک ٹھونسا جارہا ہے۔ شرمیلا کا بھوک ہڑتال نا انصافی کے خلاف ایک جرات مندانہ جدوجہدہے۔ AFSPAکے نفاذ سے کئی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوئی ہیں جیسے گمشدگی، ماورائے عدالت قتل، تشدد اور جنسی استحصال، کے واقعات ہمارے سامنے ہیں۔ AFSPA صرف شک کی بنیاد پر قتل کرکے ہلاکتوں کے جواز کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے اور ایک شق کے تحت قانونی کارروائی کی ممانعت بھی حاصل ہے۔