بے خوابی کی وجوہات اور اثرات

*۔ عامر حسن
جب کسی شخص کو نیند بالکل ہی نہ آئے تو اسے ’’ خوابی کی کیفیت ‘‘ کہاجاتا ہے۔ اگر چند دن یہی کیفیت بدستور قائم رہے تو اس حالت میں جسم میں رطوبتوں کی تشکیل اور ان کے اخراج کا نظام بری طرح بگڑ جاتا ہے۔ کیونکہ بیداری کی حالت میں کام کاج، محنت ومشقت اور اعضاء کی حرکات وسکنات سے اندرونی رطوبت تحلیل ہوتی رہتی ہے جس سے تھکاوٹ ہونے لگتی ہے۔
بے خوابی (Insomnia)
جب کسی شخص کو نیند بالکل ہی نہ آئے تو اسے ’’ خوابی کی کیفیت ‘‘ کہاجاتا ہے۔ اگر چند دن یہی کیفیت بدستور قائم رہے تو اس حالت میں جسم میں رطوبتوں کی تشکیل اور ان کے اخراج کا نظام بری طرح بگڑ جاتا ہے۔ کیونکہ بیداری کی حالت میں کام کاج، محنت ومشقت اور اعضاء4 کی حرکات وسکنات سے اندرونی رطوبت تحلیل ہوتی رہتی ہے جس سے تھکاوٹ ہونے لگتی ہے۔ نیند کی صورت میں تحلیل شدہ رطوبت کی کمی پوری ہوجاتی ہے اور انسان نیند کے بعد تروتازہ ہوجاتا ہے۔ کئی دن نیند نہ آنے سے مطلوبہ نیند نہ لینے سے یاپرسکون نیند نہ سونے کے باعث جسم میں تحلیل شدہ رطوبت کی کمی پوری نہیں ہوتی جس کی وجہ سے کئی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔
دماغی خرابی (Mental Disturbance)
قبض (Constipation)
دست (Diarrhoea)
مرگی (Leprosy)
بے خوابی دراصل ایک نفسی وبدنی ( Psycho۔Somatic) بیماری ہے، یعنی اس میں نفس (روح ذہن ) اوربدن ، دونوں مبتلاہوتے ہیں۔ اس خرابی کاآغاز ذہنی مسائل سے ہوتا ہے بعد میں جسمانی علامات کی شکل اختیار کرجاتی ہے۔ اس اعتبار سے بے خوای کاعلاج ان عوامل کے تدارک سے ہونا چاہیے جوذہنی انتشار اور بے آرامی پیدا کرتے ہیں۔
کم خوابی ایک نفسیاتی مرض ہے جو مختلف سوچوں، اندیشوں اور منفی خیالات کے باعث لاحق ہوجاتا ہے اس کیفیت میں انسانی اعصاب میں تناؤ ذہن پر دباؤ غدودوں میں کھچاؤ پیداہوجاتا ہے۔ خون کی گردش میں بے قاعدگی پیداہوجاتی ہے۔
جدید میڈیکل ریسرچ اور نفسیاتی تحقیق اوردیگر سروے رپورٹوں نے ثابت کیا ہے کہ کم خوابی اور بے خوابی کے سبب انسانی جسم کے تمام تر نظام متاثر ہوتے ہیں۔ خاص طور پر دل ، دماغ ، معدہ جگر اور اعصاب پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ اعضائے رئیسہ پر کم خوابی یابے خوابی کے منفی اثرات کے علاوہ انسان کی قوت اعتماد ، قوت مدافعت اور قوت فیصلہ بھی کمزور پڑجاتی ہے۔ نیم خوابی اور بے خوابی کے باعث ڈپریشن ، وہم اور ہسٹریا جیسے عضایاتی اور نفسیاتی امراض بھی پیداہوجاتے ہیں۔
کئی لوگ جنہیں نیم خوابی یابے خوابی کی شکایت ہوتی ہے جونفسیاتی کلینک کا رخ کرتے ہیں۔ وہاں خاص سائنسی اور نفسیاتی طریقوں اور مخصوص حالات کے تحت ایسے لوگوں کے ذہن میں ٹھہراؤ اور سوچوں کے سلسلہ کوایک سکوت مہیاکیاجاتا ہے اور ایسی مصنوعی کیفیات پیداکی جاتی ہیں کہ مریض سوجاتا ہے اور بیدار ہونے کے بعداپنے جسم میں تازگی اور ذہن میں ہلکا پن محسوس کرتا ہے۔ بعض نفسیاتی طریقوں کے تحت ایسے لوگوں سے جسمانی ورزش کرائی جاتی ہے، جسم کو تھکا کرسلانے کے عمل میں آسانی پیدا ہوجاتی ہے۔
بعض نفسیاتی طریقے ایسے ہیں جن کے تحت مخصوص عمل کے ذریعے ذہنی لہروں کے ارتعاش سے مریض کے ذہن کوسہلاکرہیپنا ٹائزکیاجاتاہے اور اسے ذہنی طور پر مرتکز کرکے ایک طرف تو اس پر نیند طاری کی جاتی ہے اور متوازی طور پر نیم خوابی کی کیفیت میں ا س کے ذہن سے لاشعوری منفی خیالات مکالے جاتے ہیں۔ اس کے بعد بتدریج مثبت خیالات بیدارکیے جاتے ہیں اور پھر نیند کی مخصوص لہریں پیدا کی جاتی ہیں اور اس طرح دودفعہ کے ذہنی ٹھہراؤ کے دورانیہ کے اثنا میں جو کچھ کہاجاتا ہے وہ مریض کے لاشعور کا حصہ بن جاتا ہے۔
مسلسل بے خوابی اور بیداری کی کیفیت انسانوں کے لیے خطرناک حدتک مضر ہے۔ بے خوابی کے باعث جسم کے وزن میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ قدرتی حرارت بدنی کم ہوجاتی ہے۔ شورین اور فاسفورس کی مقدار زیادہ خارج ہوجاتی ہے۔ ابتداََ میں نظام عضلی اور پھر نظام عصبی کا ردعمل اور فعالیت سست پڑ جاتی ہے۔ بینائی میں واضح طور پر کمی واقع ہوجاتی ہے۔ حواس خمسہ کی حساسیت کے معیار میں فرق آنے لگتا ہے۔