دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں : مولانا مشہود احمد

پٹنہ، 23اکتوبر (طارق حسن)۔ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم امن کا پیغام لیکر اس دنیا میں آئے ، صبر و ضبط کی ایک بہترین مثال انہوں نے فتح مکہ کے بعد دیا ، جب ظلم و ستم کرنے والوں و اذیت پہچانے والوں کو عام معافی دے دیا۔ ہندوستان گنگا جمنی تہذیب کی ایک زندہ مثال ہے جہاں سارے مذاہب کے لوگ دور قدیم سے آپسی بھائی چارگی اور محبت کے ساتھ رہتے آئے ہیں ۔ اسلام غیر مسلموں کی بھی جان و مال ، عزت و آبرو کی حفاظت کی تعلیم دیتا ہے ۔ اسلام امن ،صلح ، عدل اور انصاف کا مذہب ہے اور اس نے ہر زمانے مین بہتری کی طرف رہنمائی کی ہے ۔ عدل و انصاف ، امن و امان اور اخوت اور مساوات بھی دراصل اسلام کا سماجی و معاشرتی پیغام ہے ۔ دین اسلام کے متعلق دہشت گردی کا تصور کیا ہی نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ جو بھی دہشت گرد ہیں اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔مذکورہ باتیں مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ کے پرنسپل مولانا سید شاہ مشہود احمد قادری ندوی نے پیس فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام بہار اردو اکیڈمی میں منعقد ’’اسلام اور امن کا پیغام‘‘موضوع پر ایک پر مغز معلوماتی گفتگو تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔اس موقع پر جماعت اسلامی ہند پٹنہ کے امیر مقامی مولانا رضوان اصلاحی نے کہا کہ دنیا کا ہر انسان آپس میں بھائی ہے کیونکہ سب ایک ہیں اور ایک ہی آدم اور حوا کی اولاد ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیونکہ اسلام امن پسند مذہب ہے جو آپسی رواداری اور بھائی چارہ کا درس دیتا ہے ۔ انہوں نے سماج میں منافرت دور کرنے کیلئے عدل و انصاف کو عام کرنے کیلئے اسلامی تعلیمات کو گھر گھر پہنچانے پر زور دیا ۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ ایک سچا مسلمان وہ ہے جن کے کردار اور عمل سے ان کا پڑوس بھی محفوظ رہے۔ادارہ شرعیہ بہار کے نائب مہتمم مولانا سید احمد رضا نے کہا کہ اسلام مذہب تلوار کے زور سے نہیں پھیلا ہے بلکہ صوفیائے کرام اور اولیاء کے کردار اور انکی نرم کلامی کی وجہ سے پھیلا ہے ۔ انہون نے فرمایا کہ ایک سچا مسلمان کبھی دہشت گرد ہو ہی نہیں سکتا ۔ کیونکہ اسلام امن ، صبر، عاجزی اور انکساری کا پیغام دیتا ہے۔ مجلس علماء و خطباء امامیہ ، پٹنہ کے جنرل سکریٹری مولانا سید امانت حسین نے کہا کہ قران نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ جو مجرم ہوگا وہ مسلمان ہو ہی نہیں سکتا ہے ۔ فکری اور نظریاتی اختلاف ہمیشہ ترقی کا ضامن ہوتا ہے اس کیلئے آپس میں ملکر ایک دوسرے کے فکر اور نظریات پر گفتگو ہونی چاہیئے اس سے جو روشنی نکل کر ائے گی وہ ہم سب کیلئے مشعل راہ ہوگا۔ انہوں نے رسول کی سیرت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایک سچا مسلمان دور گردش میں بھی رسول اللہ کے نقش قدم پر چلیں۔ اپنی صدارتی تقریر میں سابق ائی اے ایس ڈاکٹر ایم اے ابراہیمی نے کہا کہ اسلام کی تعلیمات کو عام کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دنیا کے سارے مذاہب کا نچوڑ ایک ہے جو کہ انصاف ، امن ، عدل پر قائم ہے ۔ انہوں نے یہ بھی فرمایاکہ اصلاح معاشرہ وقت کی اہم ضرورت ہے اور ہر ہندوستانی کو ایک اچھا انسان بننے کیلئے ملک کے قانون ، سماجی اقدار ، اور مذہب کی تعلیمات کو اپنی ذاتی زندگی میں ڈھالنا چاہیئے اور اس طرح کے پروگرام کرکے لوگوں کے درمیان پھیلی بد گمانیوں کو دور کرنا چاہیئے۔موضوع کا تعارف پیس فاؤنڈیشن کے صدر نوشاد انصاری نے پیش کیا ۔ پروگرام کاآغاز حافظ محب اللہ عرفانی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا ۔ ترجمہ مولانا سعد احمد قاسمی نے پیش کیا۔ جبکہ نطامت کے فرائض محمد شہنواز کیفی نے ادا کئے ۔اس موقع پر پیس فاؤنڈیشن کے نائب صدر انوارالہدی نے دہشت گردی کے خلاف ایک مزمتی تجویز پیش کی ۔ مولانا شان الدین نے بھی اس موقع پر خطاب کیا ۔ شاعر حسن نواب حسن نے چلو تو سارے زمانہ کا ساتھ لیکر چلو کی زمین پر ایک زبردست نظم پڑھی۔ اس موقع پر ڈاکٹر محامد عبد الحئی ، مولانا مصباح الدین، محمد فخر الدین، ڈاکٹر ذاکر حسین،ماسٹر عظیم الدین، ڈاکٹر اشرف النبی قیصر، غلام رسول، انججینئر منصور عالم، معین گریڈیہوی، ارشد متین، فیروز صدیقی، ادین رائے، ڈاکٹر شتروگھن کشور، ڈاکٹر ایم کیو جوہر، محمد انور ڈائریکٹر الحراء اسکول۔ مفتی خلیل الرحمان قاسمی، مبین الہدیٰ وغیرہ شریک ہوئے ۔