اردو رسم الحظ سے دوری نہایت خطرناک

پٹنہ، 22مارچ (پریس ریلیز)۔ بہار اردو اکادمی کے زیر اہتمام دو روزہ عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے دن ۲۲ مارچ کو حسب اعلان اکادمی سمینار ہال میں’’تیسرے‘‘، ’’چوتھے ‘‘اور ’’پانچویں‘‘ اجلاس کا انعقاد ہوا اور بعد ازیں شعری نشست بھی منعقد ہوئی۔ پابندی وقت کے ساتھ، جناب شفیع مشہدی اور پروفیسر اعجاز علی ارشد کی مشترکہ صدارت میں ’’تیسرے اجلاس‘‘ کی شروعات ساڑھے دس بجے سے ہوئی۔ اس میں جناب عتیق انظر (دوحہ) نے ’’ادب مہجر‘‘ کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ بیسویں صدی میں ہجرت کا خاص تعلق معاشیاتی اسباب و عوامل سے ہے اور مہجری ادب خصوصاً شاعری میں نوع بنوع انداز سے ہجرت کے موضوعات نظم ہوئے ہیں اور اپنی مٹی سے رابطہ رکھنے کی بات کہی گئی ہے۔ڈاکٹر خالد سیف اللہ (علی گڑھ) نے ’’مردم شماری اور اردو کی صورتحال‘‘ کے موضوع پر اپنے مقالے میں اعدادوشمار کے ساتھ بعض اہم تجزیے پیش کئے اور برجستہ امکانات و خدشات کی طرف توجہ دلائی۔ انہوں نے کہا کہ اردو کا ذریعہ تعلیم ہونا اور اردو پڑھنا پڑھانا الگ الگ بات ہے آج ایسی تنظیمیں بنانے کی ضرورت ہے جو رضا کارانہ طور پر مقامی مسائل کے تجزیے اور ان کے حل سامنے لائیں۔ڈاکٹر زر نگار یاسمین نے ’’اردو افسانہ: مشرق بنام مغرب‘‘ کے عنوان سے اپنا جامع مقالہ نذر سامعین کرتے ہوئے کئی اہم اور تاریخی و تقابلی نکات کی طرف توجہ دلائی اور بہار کے مہاجر افسانہ نگاروں کویاد کرتے ہوئے کہا کہ مغرب کی طرف ہجرت کرنے والوں نے بہر صورت نری جذباتی وا بستگی سے یک گونہ دوری بنائے رکھا ہے، اور بعض افسانہ نگاروں کے یہاں بیانیہ سے قدرے انحراف بھی ملتا ڈاکٹر ریحان غنی (پٹنہ) نے اردو تحریک کے عالمی منظرنامہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کئی اہم سوالات اٹھائے اور بروقت بیداری لانے اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ اردو تحریک کا کوئی قومی یا عالمی منظر نامہ نہیں۔ البتہ بہار کے حوالے سے اس کا منظر نامہ روشن ہے اور اردو تحریک آج بھی یہاں زندہ ہے۔ جناب ریحان غنی نے نام بنام اردو تحریک کے محسنین کو بھی یاد کیا۔محترمہ وفایزدان منش (تہران) نے ’’نئی بستیوں میں اردو ‘‘کے عنوان پر اپنے خیالات و مطالعات کا اظہار کرتے ہوئے بیرون ملک سفر کے اسباب و عوامل کی جہتوں کا جائزہ لیا اور کہا کہ بہر صورت مہجری ادب ہمارا بڑا سرمایہ ہے اور اس پر بالا ستیعاب تنقیدی و تجزیاتی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ایران کے خصوصی حوالے سے بھی بعض نکات کی نشاندہی کی۔صدارتی خطابات سے پہلے سوال و جواب کے مختصر وقفہ میں جناب جمشید قمر، ڈاکٹر محمد بشیر الدین، محمد اظہار الحق اور جناب شموئل احمد نے حصہ لیا اور ان کے جوابات کی صورت میں یہ نکات چھن کر سامنے آئے کہ اردو رسم الحظ سے دوری جو ہمیں ہندی کی طرف لے جارہی ہے، نہایت خطرناک ہے اور یہ کہ اردو اصناف شعر و ادب کا فارسی پر کچھ خاص اثر نہیں پڑا ہے۔ نیز یہ کہ لسانی اتحاد بنانا آج کی اہم ضرورت ہے۔اس موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں ڈاکٹر اعجا ز علی ارشد نے پیش کردہ مقالات کو معیاری بتایا اور سوال و جواب کے تعلق سے کہا کہ اس پروگرام میں نئی نسل کی حصہ داری ہماری سب سے بڑی کامیابی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جناب ریحان غنی کی اس بات سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا کہ اردو تحریک کا کوئی عالمی منظرنامہ نہیں ہے۔ یوروپ اور گلف کے مہاجر فنکار و دانشور بہرحال اردو کے فروغ میں حصہ لے رہے ہیں اور قومی سطح پر بھی ہمارے بعض مشاہیر اردو کے لئے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے جہاں وفایزدان منش کے مقالے کی ستائش کی وہیں یہ بھی کہا کہ ڈاکٹر زرنگار یاسمین بھی موضوع سے انصاف کرنے میں نمایاں حدتک کامیاب رہیں۔جناب شفیع مشہدی نے اپنے صدارتی کلمات سے نوازتے ہوئے کہا کہ جناب عتیق انظر کے مقالے میں ہجرت کے کرب کی پیش کش نہایت پر اثر ہے۔ مہجری ادب نے بلاشبہ اردو ادب کو نئے زاویہ نظر سے باثروت بنادیا ہے۔ مردم شماری کے اعداد و شمار کی نوعیت کو انہوں نے قطعاً غیر حتمی بتاتے ہوئے کہا کہ اصلاً اردو کے تعلق سے بہت سارے المیے کی چادر ہم نے خود اوڑھ رکھی ہے۔ فروغ زبان پر خرچ کے لئے ہمیں اپنے بجٹ میں ترجیحی گنجائش رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ ادب کے لئے کام کرنے کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن زبان کے لئے کام کرنا خصوصاً اہم ہے۔ اردو ہمارے بزرگوں کی امانت ہے اور ہمیں اسے اگلی نسلوں تک پہونچانے میں کسی طرح کی خیانت کا مرتکب نہیں ہونا چاہئے۔اس اجلاس کے اختتام پر سکریٹری اکادمی جناب مشتاق احمد نوری نے کلمات تشکر کے ساتھ برسبیل تذکرہ یہ بھی وضاحت کی کہ بہت سارے معاملوں اور مطالبوں میں ضابطہ کی بندش ہمارے سامنے ہوتی ہے انہوں نے کہا کہ بہر حال جو باتیں سامنے آرہی ہیں ان کی اہمیت کے پیش نظر ان پر ہماری توجہ اور کاوش مسلسل جاری ہے ۔ اردو کی ترقیاتی فکر میں ہمیں انشاء اللہ کامیابی ضرور ملے گی۔’’چوتھا اجلاس‘‘ جناب جاوید دانش (کناڈا) پروفیسر صغیر افراہیم (علی گڑھ) اور ڈاکٹر جاوید حیات کی مشترکہ صدارت میں ڈھائی بجے دن سے شروع ہوا ۔ اس میں ڈاکٹر ہمایون اشرف (ہزاری باغ) نے ’’ہند اور بیرون ہند میں اردو زبان و ادب کی موجودہ صورتحال ‘‘ پر نہایت شرح و بسط سے روشنی ڈالی اور وسیع عصری تناظر میں متنوع جہتوں سے نفس موضوع کا جائزہ لیا۔ انہوں نے اپنے مقالے میں نئے حالات کا گہرائی سے مطالبہ کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آج جو نئے امکانات ابھر رہے ہیں انہیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اردو کے چند کمزور عصری کا احوال کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اصل مسئلہ قومی زبان کا ہے ۔ اردو کو فقط مادری زبان کے خانے میں ڈھکیل رکھنا کچھ زیادہ مستحسن نہیں کہا جاسکتا ۔جناب انوارالحسن وسطوی (حاجی پور) نے ’’اردو تحریک عالمی تناظر میں‘‘ کے عنوان پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ اس کے دونوں بڑے پڑوسی ملک کے علاوہ برطانیہ اور دیگر ممالک میں بھی اردو اپنے عہد پیش رفت سے گزر رہی ہے۔ اردو تحریک نے نہ صرف بہار کا منظر نامہ بدلا بلکہ اس کے ثمرات دیگر ریاستوں میں بھی سامنے آئے۔ انہوں نے نہ صرف اردو تحریک کی تاریخ کا اجمالی جائزہ لیا بلکہ عصر حاضر میں اردو کے سرگرم اداروں کی خدمات کا بھی ذکر کیا۔جناب احمد اشفاق (دوحہ) نے خلیجی ریاست خصوصا قطر میں اردو کے تازہ احوال پر روشنی ڈالی اور کہا کہ خلیج میں قطر اردو کی راجدھانی ہے ۔ یہاں اب تک بہت سارے اہل قلم مدعو کئے جا چکے ہیں اور سرکاری سرپرستی میں اردو کی تدریس کا نظم ہے جس سے بڑی تعداد میں طلبا وطالبات استفادہ کر رہے ہیں۔ڈاکٹر جاوید حیات (پٹنہ) نے اپنے صدارتی تاثرات میں اس بات پر خوشی ظاہر کی کہ اس اجلاس میں زبان کے حوالے سے مفید مطلب باتیں ہوئیں۔ انہوں نے ڈاکٹر ہمایون اشرف کی پیش کش کو اردو کے عالمی منظر نامہ پر بھرپور مقالہ بتایا اور کہا کہ جناب انوارالحسن وسطوی نے جناب ریحان غنی کی باتوں کو بڑے سلیقے سے آگے بڑھایا اور جناب احمد اشفاق کے ذریعہ بھی بہت حوصلہ افزا معلومات ملی۔پروفیسر صغیر افراہیم (علی گڑھ) نے اپنے صدارتی خطاب میں ڈاکٹر ہمایون اشرف کے مقالے میں بعض پہلوؤں کی خصوصی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں کسی بھی طرح ہندو اور بیرون ہند میں اردو زبان و ادب کے حال و مستقبل سے مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ جناب جاوید دانش نے اپنی صدارتی تقریر میں کناڈا کی ادبی و سماجی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یوروپ میں تارکین وطن کو دوسرے یا تیسرے درجے کا شہری سمجھے جانے کی بات قطعا غلط ہے، انہوں نے ڈاکٹر ہمایون اشرف کے مقالے میں ڈرامہ کا ذکر چھوٹ جانے کی نشاندہی کی اور اپنے تجربات بتاتے ہوئے کہا کہ بچوں کی تعلیمی دلچسپی کے لئے محض متون پڑھا دینا کافی نہیں بلکہ ان کے لئے دیگر مفید تعلیم و دلچسپ سرگرمیوں کا اہتمام بھی ہونا چاہئے۔وقفہ طعام کے بعد تین بجے سے جناب شموئل احمد (پٹنہ) اور پروفیسر رئیس انور (دربھنگہ) کی مشترکہ صدارت میں’’پانچویں اجلاس‘‘ کا آغاز ہوا۔ اس میں ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی (پٹنہ) نے امریکی خاتون افسانہ نگار لالی چودھری کے فکر و فن اور خصوصاً ان کے یہاں تانیثیت کے واضح عناصر کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے مجموعہ ’’حد چاہئے سزا میں‘‘ کے حوالے سے نہایت جامع گفتگو کی اور تنقیدی اور تازہ مطالعاتی حوالوں کے ساتھ ان کی کہانیوں کے متنوع موضوعات اور اسلوبی خصائص پر روشنی ڈالی۔ جناب اعظمی نے کہا کہ لالی چودھری بہر حال مغرب کی جنسی افراتفری سے متنفر ہیں اور انہیں بلا تکلف شعور ذات کی حامل اور قصہ گوئی کے آرٹ سے واقف مغربی تہذیب کی سنجیدہ سفیر افسانہ نگار کہا جا سکتا ہے۔ڈاکٹر زاہد الحق (حیدرآباد) نے ’’مہجری ادب کے نئے تصورات اور جاوید دانش کے نئے پرانے ڈرامے‘‘ پر اپنا پر مغز مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ترک وطن جناب دانش کا خاص موضوع ہے اور ان کے ڈراموں نے مہجری ڈرامے کا نیا تصور سامنے لایا ہے۔ ان کا مجموعہ ’’ہجرت کے تماشے‘‘ کردار نگاری میں ان کے سلیقہ پر گواہ ہے۔ وہ ڈرامے کے لسانی آہنگ پر پوری گرفت رکھتے ہیں۔ ان کے یہاں تجسس کی خوبیاں بھی نمایاں ہیں اور بعض ڈراموں میں گلف کے کچھ مسائل بھی آگئے جناب ریاض عظیم آبادی نے ’’اردو تحریک عالمی تناظر میں‘‘ کے موضوع پر اپنے خیالات پیش کرتے ہوئے کہا کہ اردو تحریک اصلاً اردو کی بقا و جدوجہد کا نام ہے۔ انہوں نے جمہوری عہد میں تحریک کی اہمیت و اقسام کی طرف جامع اشارے کئے اور بتایا کہ اردو کے شیدائی ہمیشہ ہی متحرک رہے ہیں اور اردو کی تحریک کسی نہ کسی انداز سے آج بھی دنیا کے مختلف ملکوں میں پروان چڑھ رہی ڈاکٹر ممتاز احمد خاں (حاجی پور) نے اپنی گفتگو میں اردو تحریک کی نوعیت و اثرات کے تعلق سے برجستہ سوالات سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ آج کہیں کوئی اردو تحریک نہیں ہے انہوں نے مزید کہا کہ آج اصلاًیہ دیکھنا ہے کہ اردو تعلیم و تدریسی کا کام کس پیمانے پر ہو رہا ہے۔ آج کی بے حسی کیسے دور ہو سکتی ہے اور نئی نسل میں اردو رسم الحظ سے جو دوری بڑھ رہی ہے اسے کس طرح ختم کیا جاسکتا ہے۔ پروفیسر رئیس انور (دربھنگہ) نے اپنے صدارتی خطاب میں ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی اور ڈاکٹر زاہد الحق کے مقالات کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ جناب ریاض عظیم آبادی کا خیال درست ہے کہ صحافت اور شخصیات سے اردو تحریک کو مسلسل سہارا ملا ، البتہ ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کی اس بات سے اتفاق مشکل ہے کہ اس وقت اردو تحریک ناپید ہو چکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مشاعرے بھی یک گونہ تحریک کا حصہ ہوتے ہیں اور حکومت کی توجہ مبذول کرانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر چوتھی ، آٹھویں اور دسویں جماعت کے طلبا و طالبات میں اردو کا شعور پیدا کیا جائے اور بیت بازی کا اہتمام کرکے انہیں انعامات دیے جائیں تو اس سے بہتر نتائج سامنے آنا یقینی ہے۔جناب شموئل احمد نے اپنے صدارتی کلمات سے نوازتے ہوئے کہا کہ اکادمی کے زیر اہتمام منعقدہ اس دو روزہ کانفرنس کا موضوع نہایت ہی وسیع اور اہم ہے۔ انہوں نے مہجری ادب کے تعلق سے یہاں اور وہاں کے مسائل و معاملات کو کامیابی سے دیکھنا ہی اور دکھانا اہم قرار دیا اور کہا کہ سجاد ظہیر کے ناولٹ سے بیرون ملک کے ادب کی شروعات ہوئی ۔ ڈاکٹر شہاب ظفر کی پیش کش کو تخلیقی تنقید کا نمونہ قرار دیتے ہوئے اور تانیثیت کی ضرورت بتاتے ہوئے جناب شموئل احمد نے قدرے تفصیل اور حوالہ متون کے ساتھ بیرونی شاعرات کی نظموں کے تیور سمجھنے کی طرف توجہ دلائی اور کہا کہ ادب اور مذہب کی اخلاقیات بہر حال الگ الگ ہے۔ انہوں نے واضح لفظوں میں یہ بھی کہا کہ اردو بہر حال زندہ ہے اور خصوصاً نچلے اور متوسط طبقے سے زندہ ہے کیونکہ وہ اردو پڑھتا ہے۔ ہمیں کسی مایوسی میں پڑنے کی ضرورت نہیں ۔جناب سلطان اختر نائب صدر اکادمی نے شکریہ کی تجویز پیش کرتے ہوئے اردو کے بارے میں اپنے برجستہ اور یقین افزا اشعار سے نوازا۔ واضح رہے کہ آج کے تینوں اجلاس کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر زاہدالحق نے نہایت حسن و خوبی اور ادبی شگفتگی کے ساتھ انجام دئے۔شام چھ بجے سے ایک شعری نشست کا اہمتام ہوا جس میں بیرون ملک مہمان شعرائے کرام کے علاوہ متعدد و مقامی شعرائے کرام نے اپنے کلام سے سامعین کو تادیر محظوظ کیا۔