3 طلاق پر سپریم کورٹ کافیصلہ محفوظ

نئی دہلی، 18 مئی (یو این آئی) سپریم کورٹ میں آج طلاق ثلاثہ کے معاملے میں سماعت مکمل ہونے پر آئینی بنچ نے اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اعتراف کیا ہے کہ وہ تمام قاضیوں کو ایک ایڈوائزری جاری کرے گا کہ تین طلاق پر نہ صرف خواتین کی رائے لی جائے بلکہ اسے نکاح نامہ میں بھی شامل کیا جائے۔ چیف جسٹس جے ایس کیہر کی زیر صدارت پانچ رکنی آئینی بینچ نے 11 مئی سے تین طلاق پر روزانہ سماعت شروع کی تھی۔سماعت کا یہ سلسلہ 19 مئی تک جاری رکھنا طے کیا گیا تھا، لیکن آج اس معاملے میں تمام فریقوں کی دلیلیں پوری ہو جانے کے بعد آئینی بنچ نے فیصلہ محفوظ رکھ لیا۔اس سے قبل منگل کے روز سماعت کے دوران حکومت نے بنچ کے سامنے کہا تھا کہ اگر عدالت عظمی تین طلاق کو غیر قانونی قرار دے تو حکومت طلاق اور شادی کے دوسرے ضوابط کو سیکولر نقطہ نظر سے منضبط کرنے کے لئے قانون بنانے کو تیار ہے۔ اس معاملے میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کی جانب سے دلیلیں پیش کرنے کے دوران سینئر وکیل کپّل سبل نے تین طلاق کو ایمان و عقیدے سے وابستہ مسئلہ قرار دیا تھا۔ اس معاملے میں کل آئینی بنچ نے بورڈ سے سوال کیا تھا کہ کیا نکاح کے وقت “نکاح نامہ” میں عورت کو تین طلاق مسترد کرنے کا اختیار دیا جا سکتا ہے؟ چیف جسٹس نے مسٹر کپّل سبل سے یہ سوال کیا تھا کہ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ کسی عورت کو نکاح کے وقت یہ حق دیا جائے کہ وہ تین طلاق کو قبول نہیں کرے گی۔ عدالت عظمی نے بورڈ سے یہ بھی جاننا چاہا تھا کہ کیا وہ تمام قاضیوں کو ایسی ہدایات جاری کر سکتا ہے کہ نکاح نامہ میں تین طلاق پر عورت کی رائے کو بھی شامل کیا جائے۔ بنچ کے اس سوال پر مسٹر سبل نے کہا تھا کہ بورڈ کے تمام اراکین سے صلاح و مشورہ کرنے کے بعد ہی اس کا جواب دیا جا سکتا ہے۔ مسٹر سبل نے آج سماعت کے دوران آئینی بنچ کو بتایا کہ پرسنل لاء بورڈ قاضیوں کو ایڈوائزری جاری کرنے کو تیار ہے لیکن عدالت کو اس رواج کا جواز جاننے میں نہیں پڑنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی خاص طبقہ کے رسم و رواج کا جواز ایک بہت نازک مسئلہ ہے اور عدالت کو اس میں نہیں پڑنا چاہیے۔ مسٹر سبل کی اس دلیل پر بنچ کا کہنا تھا کہ ایک رواج جو مذہبی کتابوں کے مطابق گناہ ہے ،اسے بالآخر کس طرح سے کمیونٹی کے رسم رواج کا حصہ سمجھا جا سکتا ہے؟اس معاملے میں اصل درخواست دہندہ سائرہ بانو کے وکیل کی دلیل تھی کہ ان کی نظر میں تین طلاق گناہ ہے۔ گزشتہ ہفتے ہونے والی سماعت کے دوران کانگریس کے سینئر لیڈر اور سابق وزیر قانون سلمان خورشید نے اس معاملے میں رفیق عدالت کی حیثیت سے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ بورڈ کی نظر میں طلاق ایک ناپسندیدہ لیکن جائز رواج ہے۔ مسٹر سلمان خورشید نے کہا تھا کہ ان کی ذاتی رائے میں تین طلاق “گناہ” ہے اور اسلام کسی بھی گناہ کی اجازت نہیں دیتا۔ سینئر وکیل اور سابق وزیر قانون رام جیٹھ ملانی نے بھی طلاق ثلاثہ کو آئین کے آرٹیکل 14 کے تحت فراہم کردہ بنیادی مساوی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ مسٹر جیٹھ ملانی نے کہا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 14 اور 15 تمام شہریوں کو برابری کا حق دیتے ہیں اور ان کی روشنی میں تین طلاق غیر آئینی ہے۔ انہوں نے دعوی کیا کہ وہ دیگر مذاہب کی طرح اسلام کے بھی طالب علم ہیں۔ انہوں نے حضرت محمد کو اللہ تعالی کے عظیم ترین پیغمبروں میں سے ایک گردانتے ہوئے کہا کہ ان کے پیغام تعریف کے قابل ہیں۔ سابق وزیر قانون نے کہا کہ خواتین سے صرف ان کی جنس کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں ہو سکتا ہے۔ سماعت کے دوران پیر کے روز اٹارنی جنرل مکل روہتگی نے آئینی بنچ سے درخواست کی تھی کہ تعدد ازدواج اور حلالہ کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے۔اس پر بنچ نے کہا تھا کہ اس کا بھی جائزہ لیا جائے گا لیکن ابھی وقت محدود ہے ، بقیہ تینوں معاملوں کا بعد میں جائزہ لیا جائے گا۔ آئینی بنچ کے دیگر ارکان میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس کورین جوزف، جسٹس ایف نریمن، جسٹس اودے امیش للت اور جسٹس عبد النظیر شامل ہیں۔