ذیا بیطس اور زمانۂ حج

حج ایک مبارک مگر مشقت آزما عبادت ہے اور ذیابیطس ایک اہم مرض ہے۔چناں چہ عزمِ سفر سے قبل ایک مستند معالج سے اپنا طبّی معائنہ کرالیا جائے،تاکہ اس ضمن میں آپ کو اپنے دماغ ،قلب ،فشارِ خون،آنکھوں،گردوں اور پاؤں کی صحیح کیفیت کا اندازہ ہو جائے اور آپ کو مناسب ہدایات حاصل ہوجائیں۔
عازمین حج کے لیے لازم ہے کہ وہ ایک کلائی بند اپنی کلائی سے پیوستہ رکھیں،جس پر تحریر ہو:’’مجھے ذیا بیطس ہے‘‘تاکہ ضرورت کے وقت آپ کو فوری طبی امداد مل سکے،کیوں کہ ذیا بیطس میں ہنگامی صورتِ حال کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
دوران حج پیدل چلنے اور دیگر قسم کی فعالیت میں اضافہ ہوسکتا ہے،نتیجتاً شکرِ خون میں کمی ہوسکتی ہے،جس کی اصلاح کے لئے کچھ خوردنی اشیاء ہر وقت آپ کے پاس ہونی چاہییں۔آپ کے ساتھ ایک گلوکوس پیما بھی ضروری ہے،تاکہ ضرورت کے وقت آپ کی شکرِ خون کی فوری پیمایش ہوسکے اور ایک بستہ گلوکو جن کا بھی ہو،جس کے استعمال سے شکرِخون میں اضافہ ہوا اور جسے آپ کا کوئی رفیق استعمال کرسکتا ہو۔
شکرِخون کو مناسب رکھنے کے لیے آپ کے لیے چلنا پھرنا بھی ضروری ہے،تاکہ ضرورت کے وقت آپ کی شکرِخون کی فوری پیمائش ہوسکے اور ایک بستہ گلوکوجن کا بھی ہو،جس کے استعمال سے شکرِخون میں اضافہ ہوا اور جسے آپ کا کوئی رفیق استعمال کرسکتا ہو۔
شکرِ خون کو مناسب رکھنے کے لئے آپ کے لیے چلنا پھرنا بھی ضروری ہے ،مگر یہ کھانا کھانے کے فوراََ بعد نہ ہو،کیوں کہ کھانا کھانے کے فوراََ بعد مشقت دل کے لئے نامناسب ہوتی ہے،خصوصا متوسط العمر افراد کے لیے۔
اگر آپ بغیر کچھ کھائے پیے زیادہ چلیں گے تو شکرِخون کم ہوسکتی ہے،اس لیے چلنے پھرنے کے دورانیے مختصر ہوں۔جن افراد کو چلنے پھرنے کی رفتہ رفتہ عادت ڈالیں۔
حج پر روانگی سے قبل اپنے دل کی کیفیت سے متعلق معالج قلب سے معائنہ کرانا ضروری ہے۔جن افراد کے لیے چلنا پھرنا دشوار یا پاؤں کے مسائل درپیش ہوں،وہ دوران حج پہیے دار کرسی کا استعمال کر سکتا ہے۔
زمانۂ حج سے قبل بعض اقسام کے ٹیکے بھی لگوانے ضروری ہیں۔وہاں امراضِ سینہ کابھی امکان ہوتا ہے،اس لیے انفلوئنز اسے تحفظ کے لئے بھی ٹیکہ لگوانا چاہیے۔سعودی عرب میں بعض دیگر ٹیکے بھی لگوانے ضروری ہیں،مثلا سوزشِ غلافِ مغز کی ویکسین،یہ ہر تین سال بعد ضرورہوتی ہے،جو سفرِ حج سے دس دن قبل لگوائی جاتی ہے۔
سعودی عرب میں امراض سینہ،اسہال(جلاب)اور امراضِ گردہ(پتھری وغیرہ) کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔وہاں درجۂ حرارت بھی زیادہ ہوتا ہے،پسینا بھی زیادہ آتا ہے،اس لیے جسم میں پانی کی قلت نہیں ہونی چاہیے۔بہتر ہوگا کہ زیادہ تر سائے میں رہیں۔سفید چھتری استعمال کریں۔
خورونوش:تازہ غذائیں(سبزیاں،دالیں،روٹی) اور پھل کھائیں۔کھجور صرف تبرک کے لیے مناسب ہے۔آم کھانے مناسب نہیں ہیں۔پھل اور سبزیاں گلی سڑی نہ ہوں۔
ادویہ: آپ کے ساتھ ادویہ معالج کے نسخے کے مطابق ہونی چاہییں۔دورانِ حج زیادہ مشقت کی وجہ سے شکرِخون میں کمی ہوسکتی ہے اور اسی لیے ادویہ میں کمی ضروری ہوسکتی ہے۔معالج کے مشورے سے درد،نزلہ زکام،اسہال اور الرجی دور کرنے والی عام ادویہ ساتھ رکھنا مناسب ہے۔
ذیا بیطس اور غذا: مریض کی غذا اس کی جسمانی مشقت کے لحاظ سے تجویز کی جائے،جو ظاہر ہے کہ سڑک پر پتھر کوٹنے والے مزدور اور دفتر میں کرسی نشین کی غذا اسے مختلف ہوگی۔
شکر والی مٹھائیاں،سردمشروبات،مصنوعی شیرینی اور چکنائیوں سے پرہیز کریں۔ان سے وزن اور کولیسٹرول میں اضافہ ہوسکتا ہے۔تلی ہوئی اشیا بھی غیر مناسب ہیں۔مریض دن میں تین بارکھانا کھانے کے بجائے کم مقدار میں وقفے وقفے سے کئی بار مقررہ غذا کھائے ،تاکہ شکرِخون مناسب رہے۔
جوتے:
اپنے ساتھ استعمال شدہ مزید جوتے بھی رکھیں۔وہاں گرم فرش پر چلنے سے پاؤں میں زخم پڑنے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔