’’تاریک ڈی این اے‘‘ نے زندگی کا معما مزید الجھا دیا

Taasir Urdu News | Uploaded on 29-Aug-2017

برطانیہ: کیا ایسا ممکن ہے کہ ہمارے جسم میں کوئی پروٹین بنانے والا ڈی این اے موجود ہی نہ ہو لیکن پھر بھی وہ پروٹین مسلسل تیار ہورہی ہو؟ ماہرین کے خیال میں اس کا ممکنہ جواب ’’ہاں‘‘ میں ہے اور اس کی وجہ وہ ’’تاریک ڈی این اے‘‘ کو قرار دے رہے ہیں۔

’’دی کنورسیشن‘‘ نامی ویب سائٹ پر حال ہی میں آکسفورڈ یونیورسٹی، برطانیہ کے پوسٹ ڈاکٹرل ریسرچ فیلو ایڈم ہارگریوز کا ایک تفصیلی مضمون شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے تحقیق کے دوران پیش آنے والے ایسے ہی کچھ واقعات بیان کیے ہیں۔

ایڈم اور ان کے ساتھیوں نے صحرا میں پائے جانے والے خاص ’’ریتیلے چوہوں‘‘ (sand rats) پر تحقیق کے دوران دریافت کیا کہ اگرچہ ان میں انسولین بن رہی تھی جس کی مدد سے وہ اپنے جسم میں شکر کی مقدار کو بڑے آرام کنٹرول بھی کررہے تھے لیکن پھر بھی ان کے جینوم (جین کے مکمل مجموعے) میں وہ جین سرے سے موجود ہی نہیں تھا جو انسولین بنانے کے ’’جینیاتی احکامات‘‘ دیتا ہے۔

 جب انہوں نے اپنی تحقیق کا دائرہ انسولین اور متعلقہ جین سے آگے بڑھایا تو معلوم ہوا کہ ان چوہوں کے خون میں دیگر 87 اقسام کی ایسی پروٹینز بھی گردش کررہی تھیں جنہیں بنانے کے احکامات صادر کرنے والے متعلقہ جین اُن میں موجود ہی نہیں تھے۔

جب جین ہی نہیں تو یہ پروٹین کیسے بن رہی ہیں؟ مزید جستجو سے اس سوال کا جواب یہ ملا کہ ریتیلے چوہوں میں جسمانی بافتوں (ٹشوز) کے اندر ہی کچھ ایسے کیمیائی مرکبات پائے جاتے ہیں جو بظاہر ان غیر موجود جین کی کمی پوری کرتے ہیں؛ یعنی پروٹین بنانے کے احکامات نشر کرتے ہیں۔ مگر ان کیمیائی مادّوں کی اپنی موجودگی بھی جین سے آنے والی ہدایات کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتی تھی۔

اب اس کا مطلب صرف یہی نکل سکتا تھا کہ ان چوہوں میں وہ جین تو ضرور موجود ہیں لیکن ابھی تک ہم انہیں دریافت ہی نہیں کر سکے ہیں۔ اسی بات کو بنیاد بناتے ہوئے ایڈم ہارگریوز اور ان کے ساتھیوں نے ان نامعلوم جین کو ’’ڈارک ڈی این اے‘‘ (تاریک ڈی این اے) کا نام دے دیا کیونکہ جس طرح ہمیں کائنات میں ’’تاریک مادّے‘‘ (dark matter) کے ثقلی اثرات دکھائی دے رہے ہیں (جن کے باعث ہمیں اس کے موجود ہونے کا یقین ہے) لیکن ہم اس کا براہِ راست کوئی مشاہدہ نہیں کرسکتے؛ بالکل اسی طرح ہمیں جانوروں میں پروٹین تو مل رہی ہیں لیکن انہیں تیار کرنے کی ہدایات رکھنے والے جین ہمارے مشاہدے سے باہر ہیں۔

لیکن تاریک ڈی این اے کا معاملہ صرف چوہوں پر ہی نہیں رکا بلکہ بعد میں پرندوں پر تحقیق سے ایسے ہی 274 ’’گمشدہ جین‘‘ کا انکشاف ہوا جنہیں صرف تاریک ڈی این اے قرار دیا جاسکتا ہے۔ اسی بارے میں ایک اور سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اگر ایسے کوئی جین موجود ہیں تو جینیاتی سلسلہ بندی (جین سیکوینسنگ) کی جدید ترین ٹیکنالوجی کے باوجود ہم اب تک یہ جین دریافت کیوں نہیں کرسکے؟ اس کے جواب میں ایڈم ہارگریوز اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہم اپنی جدید ترین جین سیکوینسنگ ٹیکنالوجی کو بھی ہر اعتبار سے مکمل اور خامیوں سے پاک قرار نہیں دے سکتے۔

اس وقت بھی جینوم کے کچھ حصے ایسے ہیں جن کی سلسلہ بندی (جدید ترین ٹیکنالوجی کےلیے بھی) انتہائی مشکل اور تقریباً ناممکن ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ جینوم کے ان حصوں کی تشکیل کرنے والے ڈی این اے میں ’’سائٹوسین‘‘ (C) اور ’’گوانین‘‘ (G) کہلانے والے اساسی نیوکلیوٹائیڈ بہت بڑی تعداد میں بار بار آتے ہیں؛ نتیجتاً جین سیکوینسنگ کی بہترین اور جدید ترین تدابیر بھی ان حصوں کی سلسلہ بندی کرنے اور ان میں پوشیدہ جین کا سراغ لگانے میں کامیاب نہیں ہو پاتیں۔

ان تمام باتوں کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہم ’’تاریک ڈی این اے‘‘ کے راز سے پردہ اٹھانا چاہتے ہیں تو اس سے پہلے ہمیں جین سیکوینسنگ کے طریقوں کو اس انداز سے جدید تر بنانا ہوگا کہ وہ ’’C‘‘ اور ’’G‘‘ کی غیرمعمولی تکرار والے حصوں کو بھی درست طور پر پڑھ سکیں اور اگر ان میں کچھ جین موجود ہیں تو انہیں بھی سامنے لاسکیں۔ لیکن اگر پھر بھی ان حصوں میں کوئی گمشدہ جین نہ ملا تو کیا ہوگا؟ فی الحال کسی کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں۔

ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ زمین پر جانداروں کے ارتقاء میں، جو اندازاً چار ارب سال کے عرصے پر پھیلا ہوا ہے، سائٹوسین (C) اور گوانین (G) کی غیرمعمولی تکرار والے علاقے کیسے جینوم میں شامل ہوئے۔ البتہ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ ان علاقوں میں جینیاتی تغیرات (جین میں ہونے والی تبدیلیوں) کی شرح، جینوم کے دوسرے حصوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔

ایک وقت تھا جب جانداروں کے جینوم کا بڑا حصہ بے کار اور بے مصرف سمجھا جاتا تھا اور اسے ’’کچرا ڈی این اے‘‘ (Junk DNA) کہا جاتا تھا۔ لیکن حالیہ برسوں میں تحقیق سے ابتدائی طور پر اتنا ضرور معلوم ہوچکا ہے کہ جینوم کا یہ حصہ بھی بے مصرف ہر گز نہیں بلکہ مختلف اقسام کے ایسے آر این اے (RNA) تیار کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے جو زندگی سے متعلق اہم کام انجام دیتے ہیں۔ مستقبل کی مزید تحقیق اس ’’جنک ڈی این اے‘‘ کے اور کون کونسے رازوں سے پردہ اٹھائے گی؟ ہم نہیں جانتے۔

کم و بیش یہی معاملہ ’’تاریک ڈی این اے‘‘ کے ساتھ بھی محسوس ہوتا ہے کیونکہ اب تک ہمیں اس کے دریافت ہونے کی امید ضرور ہے لیکن پورے وثوق سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ مستقبل کی اور بھی جدید ترین جین سیکوینسنگ ٹیکنالوجی اسے دریافت کرلے گی۔

یوں لگتا ہے جیسے قدرت ہمیں دیدہ دانستہ یہ احساس دلا رہی ہو کہ ہمارا علم اپنے عروج پر پہنچنے کے باوجود بھی انتہائی ادھورا اور نامکمل ہے۔ یہ بات ہم جتنی اچھی طرح سمجھ لیں، ہمارے لیے اتنا ہی بہتر ہوگا۔