بہار اردو اکادمی کی سہ روزہ قومی خواتین کانفرنس اختتام پذیر

پٹنہ25 ستمبر( پریس ریلیز)بہار اردو اکادمی کے زیر اہتمام ”اکیسویں صدی کا نسائی ادب: نوعیت و اہمیت “ کے موضوع پر ہونے والی سہ روزہ قومی خواتین کانفرنس کے تیسرے اور آخری دن مقالہ خوانی و افسانہ خوانی کے اجلاس کا آغاز وقت مقررہ کے ساتھ ہوا۔ محترمہ نگار عظیم کی صدارت میںہونے والے آج کے پہلے اور سابقہ ترتیب کے لحاظ سے ”چھٹے“ اجلاس میں محترمہ شہناز نبی نے ”نسایت اور تانیثیت کے نظریہ“ پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ”تانیثیت“ کی اصطلاح بہرحال ”نسائیت“ سے زیادہ بلیغ ہے اور اس موضوع پر احتیاط سے توجہ دینے اور سچے فیمنزم کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
بعدازیں محترمہ طلعت پروین نے ”معاصر نسائی ادب پر طائرنہ نظر“ کے عنوان سے اپنا مقالہ نذر سامعین کیا اور کہا کہ آج کا اردو ادب نسائی ادب سے مالامال ہے اور رواں صدی میںفاتحانہ شان سے تخلیق مراحل طے کر رہا ہے۔ اس اجلاس میں محترمہ ترنم جہاں شبنم نے اپنا افسانہ ”تاج محل کی نیلامی“ سے نوازا اور محترمہ عذرا نقوی نے اپنے مقالے میںچار معاصر شاعرات شہناز نبی ، کہکشاں تبسم، اسنٰی بدر اورعلینہ عترت کی شاعری پر ان کی نظموں کے حوالے سے روشنی ڈالی اور تانیثیت کے تعلق سے ان کے فکری و فنی رویے میںمشترکہ موثر عناصر اور حسی و فکری تجربات کی نشاندہی کی اور محترمہ نعمت شمع نے ”اکیسویں صدی میں معاصر خواتین افسانہ نگار“ کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم عصر خواتین افسانہ نگاروں کا فکری دائرہ وسیع ہے اور ان کے یہاں نفسیاتی و معاشرتی موضوعات کو بخوبی برتا گیا ہے۔ اس اجلاس میں جہاں، محترمہ آشا پربھات نے اپنے افسانہ ”سیلاب“ سے سامعین کی ضیافت کی، وہیں محترمہ افسانہ خاتون نے ناصرہ شرما کے تازہ ناول ”زندہ محاورے “ پر اپنا مقالہ پیش کیا اور اسے استعارے کی زبان میںروشنی کی ایک لکیر بتایا ۔ انہوں نے کہا کہ تقسیم کے موضوع پر یہ اپنے طرز کا منفرد ناول ہے۔ محترمہ ثریا جبیں نے ”آج کا نسائی ادب“ پر اپنا مقالہ نذر سامعین کرتے ہوئے کہا کہ اس میں نسائی شعور و ادراک کی پرا ثر کارفرمائی اور فنی پیش کش کی لطافت سے انکار مشکل ہے۔اس اجلاس میںمحترمہ نگار عظیم نے ازراہِ عنایت اپنا افسانہ ”ابارشن“ حاضرین کی سماعت کے حوالے کیا۔
سوال و جواب کے وقفہ میں جناب مشرف عالم ذوقی، جناب صفدر امام قادری، جناب انجم باری اور دیگر حضرات نے حصہ لیا اور اپنے خیالات و تاثرات پیش کرتے ہوئے کئی اہم نکات کی نشاندہی کی۔ اس طرح متفرق سوالات اور ان کے بروقت جوابات سے یہ باتیں کھل کر سامنے آئیں کہ مقالات نویسی میںمواد کی صحت و متانت اور مقالہ خوانی میںصحت تلفظ پر توجہ رہنی چاہئے۔ ساتھ ہی ساتھ پیش کش کے آداب موضوع کی پاسداری اور اس کے انتخاب میںحد بندی کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ جناب ذوقی نے برسبیل گفتگو کہا کہ عورت کو آج بھی آزادی حاصل نہیں ہے اور جناب قادری نے کہا کہ خواتین کے ادب کی دانشورانہ جہت بہر حال ابھر رہی ہے۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ نیک نیتی کے ساتھ تنقید سے بہر حال اکادمی کے پروگرام کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ بیشک ایک مثالی اور لائق تحسین موثر کوشش ہے۔
اس موقع پر بعض ضروری وضاحت کرتے ہوئے سکریٹری اکادمی مشتاق احمد نوری نے کہا کہ ہمیں ہمیشہ منفی سوچ سے بچنا اور مثبت تنقید سے کام لینا چاہئے۔ اس کانفرنس کا ایک اہم مقصد خواتین کے حوصلے بڑھانا ہے۔
وقفہ سوال و جواب کے بعد محترمہ نگار عظیم نے اپنے جامع صدارتی خطاب کے دوران خوبصورت اور بامعنی استعارے کی زبان سے کام لیتے ہوئے کہا کہ ”سوال و جواب“ کا وقفہ ادبی محفل کے لئے ”ہاضمولہ“ کے مصداق ہوتا ہے۔ اکادمی کی اس سہ روزہ کانفرنس سے گویا تین دن میں نسائی ادب کی سونامی آئی ہے۔ ہم سب دراصل فکشن کی تاریخ مرتب کرنے نہیں بلکہ بولنے کی آزادی کا چراغ جلانے آئی ہیں۔ محترمہ نگار نے مزید کہا کہ ہمیں اپنی اہمیت منوانے کاگر آنا چاہئے۔ سوچ کو متعدل بنائے رکھنا، مثبت سوچ اپنانا اور آخری دم تک سیکھنے ، سکھانے کے جذبے سے کام لیتے رہنا ضروری ہے۔ انہوںنے بعض نکات کی طرف توضیحی اشارے اور اس اجلاس میں پڑھے گئے مقالوں اور افسانوں کا مختصر تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ انتخاب موضوع کے تعلق سے اہم مشورے دیے اور اس اجلاس کی مقالہ خواں اور افسانہ خواں خواتین کو مبارک باد اور حوصلہ افزا کلمات سے نوازا۔ آج کے اس اجلاس کی نظامت کے فرائض محترمہ نسترن فتیحی نے انجام دیے اور دوران نظامت کہا کہ اس کانفرنس کی صورت میں اکادمی نے ہمارے لئے گویا عملی تربیت گاہ مہیا کردی ہے۔ وقفہ طعام کے بعد محترمہ عذرا نقوی کی صدارت میں ایک خوبصورت شعری نشست کا انعقاد ہوا، جس کی نظامت کے فرائض محترمہ تسنیم کوثرنے انجام دیا۔ اس نشست میں عذرا نقوی ، نکہت فاروق، شیریں دلوی، شازیہ عمیر، صادقہ نواب سحر ، مہہ جبیں غزال، تبسم فاطمہ ، نگار عظیم، شبنم عشائی، کہکشاں تبسم ، سیدہ ماہ نور، رخسانہ صدیقی، تحسین روزی، شبانہ عشرت اورطلعت پروین وغیرہ نے حصہ لیا اور اپنے نظمیہ و غزلیہ کلام سے سامعین کو نوازا۔