اب یکساں کام کیلئے یکساں تنخواہ

پٹنہ 31 اکتوبر (تاثیر بیورو): پٹنہ ہائی کورٹ نے منگل کو اپنے ایک تاریخی فیصلے میں کہا کہ اب یکساں کام کیلئے یکساں تنخواہ کا اصول نافذ ہوگا۔ چیف جسٹس راجندر مینن اور جسٹس ڈاکٹر انیل کمار اپادھیائے کی بنچ نے کنٹریکٹ اساتذہ کی طرف سے دائر عرضی پر سنوائی کے بعد یہ فیصلہ سنایا۔ عدالت نے کہا کہ یہ فیصلہ حتمی طور پر نافذ ہونا چاہئے۔ ورنہ اسے آئین کی خلاف ورزی مانا جائے گا۔عدالت کے اس فیصلے سے ریاست کے 405347 اساتذہ کو فائدہ ہوگااور اس سے ریاستی حکومت پر 2948.49 کروڑ روپئے کا اضافی بوجھ پڑئے گا۔ ہائی کورٹ نے کنٹریکٹ اساتذہ کے یکساں کام کےلئے یکساں تنخواہ کی عرضی کو صحیح ٹھہراتے ہوئے اساتذہ سے متعلق 2006 کے ضابطے کے دفعہ 6 اور 8 کو آئین کے مخالف قرار دیا ہے۔ عدالت نے حکومت پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسا نظم ہے کہ ایک ٹیچر ماہانہ 25 ہزار روپئے تنخواہ لے اور اسی اسکول کا دوسرا ٹیچر صرف 8 ہزار روپئے پر قناعت کرے ۔ عدالت نے سرکاری وکیل سے کہا کہ اس کنٹریکٹ پرنسپل کے بارے میں سوچئے جس کے دستخط سے چپراسی ماہانہ 25 ہزار روپئے تنخواہ اٹھاتا ہو اور وہ خود محض 8ہزار روپئے لے کر صبر کرتا ہے۔ اس سے بڑی نابرابری اور کیا ہوسکتی ہے۔ عدالت کے اس فیصلے سے کنٹریکٹ اساتذہ کو بڑی راحت ملی ہے اور ان میں جشن کا ماحول ہے۔ خیال رہے کہ بہار کے کنٹریکٹ اساتذہ اپنے اس مطالبے پر کافی دنوں سے تحریک چلارہے تھے۔ عدالت کے اس فیصلے کا اساتذہ کی مختلف تنظیموں نے خیر مقدم کرتے ہوئے اسے انصاف کی جیت قرار دیا ہے۔عدالت نے اس معاملے پر گذشتہ 9 اکتوبر کو سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جسے آج سنایا گیا۔ اس سے قبل عدالت کے سامنے اساتذہ کا موقف رکھتے ہوئے ایڈووکیٹ سنجیو کمار نے کہا کہ ریاستی حکومت اساتذہ کے ساتھ سوتیلا سلوک کررہی ہے۔ جبکہ کئی ریاستوں میں اس طرح کی نابرابری کو ختم کردیا گیا ہے۔ عرضی گزاروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ سیکنڈری اسکولوں میں کام کررہے اساتذہ سے کام تو یکساں طور پر لیا جارہا ہے لیکن تنخواہ برابر نہیں دیا جارہا ہے۔ کنٹریکٹ اساتذہ کی تنخواہ اسکول میں کام کرنے والے چوتھے درجے کے ملازمین سے بھی کم ہے۔ ریاست کے وزیرتعلیم کرشن نندن پرساد ورما نے کہا ہے کہ اساتذہ کو یکساں تنخواہ اور سہولیات مہیا کرانے کے سلسلے میں عدالت نے جو فیصلہ دیا ہے ریاستی حکومت اس کا جائزہ لینے کے بعد مناسب قدم اٹھائے گی۔