بسم اللہ کے فضائل

شبنم پروین :نائب صدرسیولائف فاو¿نڈیشن
بسم اللّٰہ ۔۔۔ یوں توایک چھوٹا سا جملہ ہے لیکن معنی کے لحاظ سے اپنی وسعت رکھتا ہے کہ گویا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے ۔یہ ایک سدا بہار گلستان ہے،جس میں قسم قسم کے شیریں اور لذیز پھلوں سے لدے سر سبزو شاداب درخت اور دلکش رنگوں والے طرح طرح کے پھول کھلے ہیں۔ جن سے آنکھوں کو فرحت اور تازگی ملتی ہے اور ان کی پیاری پیاری خوشبو سے دل جھومتا ہے اور روح رقص کرتی ہے۔ ۹۱ حرفوں پر مشتمل یہ جملہ نہایت عظیم اور شان و شوکت رکھتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس کو ۴۱۱ مرتبہ بیان فرمایا ہے۔
پیارے دوستوں! اسلام سے قبل عربوں کا رواج تھا کہ جو کام بھی شروع کرے اپنے بتوں ،بادشاہوں یا سرداروں کا نام لیتے تھے اور ان کا نام لینے سے ان کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ وہ کسی کام کو ان کی مدد سے کر رہے ہیں،لیکن اسلام نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے، ہمارے پیارے نبی حضڑت محمد ﷺ نے ہر کام کو اللہ کے نام یعنی بسم اللّٰہ پڑھ کر شروع کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو کام بغیر بسم اللہ کے شروع کیا جائے وہ دم بریدہ ہے۔ اس کا کوئی ثواب نہ ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی برکت نہ ہوگی۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضور ﷺ کسی جگہ تشریف فرماتھے اور ایک شخص بغیر بسم اللہ پڑھے کھانا کھانے لگا، حتیٰ کے اس کے کھانے میں سے ایک لقمہ باقی رہ گیا ، جب وہ آخری لقمہ اپنے منھ میں ڈالنے لگا تو اسے یاد آیا کہ ابتداءمیں اس نے بسم اللہ نہیں پڑھی تھی چنانچہ اس نے کہا بسم اللّٰہ اوّلہ¾ و آخرہ¾۔ اس پر آپ ﷺ مسکرا دیئے اور فرمایا کہ اب تک شیطان نے جو کچھ اس کے پیٹ میں تھا قئے کر دیا۔
پیارے دوستو! ہمیں چاہئے کہ ہم ہر نیک کام کی ابتداءاللہ تعالیٰ کے با برکت نام کے ساتھ یعنی بسم اللہ پڑھ کر کیا کریں۔ کچھ کھائیں، کچھ پئیں، لکھیں تو پہلے بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم پڑھیں۔ اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق دے۔ (آمین)
حضورﷺ کا بچوں سے پیار
شبنم پروین :نائب صدرسیولائف فاو¿نڈیشن
بچے کبھی کافر اور ظالم نہیں ہوتے، صرف معصوم اور بچے ہی ہوتے ہیں۔ کسی کافر اور ظالم کے گھر پیدا ہونے والا بچہ بھی کس شعور تک پہنچنے سے پہلے پاکیزہ فطرت کا حامل ہوتاہے۔رحمةلّلعالمینﷺ نے فرمایا :ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتاہے۔ اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں۔ اصلی فطرت تو وہی ہے، جس پر اللہ انسانوں کو پیدا فرماتا ہے۔ (بخاری شریف، باب الجنائز) دوران جنگ میدان کارزار میں لڑنے والوں کی ذہنی و قلبی اور مزاجی کیفیت نارمل نہیں ہوتی، جیسا کہ امن و امان کے پر سکون ماحول میں انسانی مزاج سرد اور معتدل ہوتا ہے۔ لیکن حالت جنگ میں بھی رحمة لّلعالمینﷺ کا حکم ہے کہ بچوں، بزرگوں، خواتین، کم زوروں، بیماروں، امن کے خواہاں اور عبادت گاہوں کے اندر موجود لوگوں پر حملہ نہ کیا جائے۔ حتیٰ کے پھل دار درختوں، فصلوں اور جانوروں کو بھی نقصان پہنچانا نہ صرف غیر اسلامی بلکہ انسانی نقطہ نظر سے بھی جنگی جرم ہے۔ کیا کسی صحیح کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ایک غلط راستہ اور طریقہ کار اختیارکیا جا سکتاہے؟ قطعاً نہیں، بلکہ قرآن حکیم کے مطابق سختی سے تاکید کی گئی ہے کہ: کسی قوم کی دشمنی اور عداوت تمہیں اس بات پر مجبور نہ کرے کہ تم عدل نہ کرو بلکہ عدل کو لازم پکڑو۔ یہی تقویٰ اور خوف خدا کے قریب ترہے۔ حدیث نبوی ﷺ کے مطابق خوف خدا حکمت کی جڑ ہے۔ خوف خدا رکھنے کا دعویٰ کر کے حکمت سے عاری افعال و اعمال پروان چڑھا کر معاشرے میں فساد اور انا کی پیدا کرنا دراصل تقویٰ نہیں، بلکہ تقویٰ کی حد درجہ پامالی ہے۔ جس کی مثال تاریخ انسانی میں نہیں مل سکتی۔
بچے سب کے سانجھے، یکساں شفقت و پیار کے مستحق اور قومی و ملّی اثاثہ ہوتے ہیں۔ تعلیمی و تربیتی مقاصد کے لئے بھی بچوںپر تشدددکرنا قرآن حکیم اور اسوہ حسنہ کے منافی ہے۔ چہ جائیکہ حصول علم میں مصروف بچوںکو شہید کرکے ظالمانہ و بزرگانہ فعل کی تائید میں قرآن و سنت سے استدلال اور جواز کی مذموم اور ناپاک جسارت کی جائے۔ البتہ اسلام سے صدیوں پہلے فرعونی لشکروں نے ضرور معصوم بچوں کو موت کی نیند سلایا تھا تاکہ فرعونیت کو چیلنج کرنے کے لئے موسیٰ سر نہ اُٹھا سکے۔ لیکن مشیت ایزدی اور قانون فطرت سے ٹکرانے والے خود تو غرقاب نیل ہو سکتے ہیں مگر موسیٰ جیسے معصوم کو سرکش موجوں پر بھی تیرنے سے نہیں روک سکتے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ نبی اکرم رحمة لّلعالمین کی شفقت و رحمت تمام مخلوقات اور جہانو ں کے لئے عام ہو اس کے سایہ رحمت سے معصوم بچے کیسے محروم رہ سکتے ہیں۔
برّاق جیسی اعلیٰ ترین سواری پر عرش بریں تک سوار ہونے والے رحمة لّلعالمینﷺ بچوںکے لئے خود سواری بنے۔یہاں تک کہ حالت نماز میںجب آپ ﷺ دنیائے رنگ و بو سے بے نیاز اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز ہوتے تھے تو اس وقت بھی پشت مبارک پر بچوں کی موجودگی محسوس فرماکر اپنے سجدے کو طویل فرمادیتے تھے۔ نبی اکرم ﷺکا عمر بھر یہ معمول رہا کہ مردوں اور خواتین سے بیعت لیتے وقت ان سے یہ عہد بھی لیا کرتے کہ وہ اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گے۔ قرآن حکیم نے بھی اس حلف برداری کوماو¿ں کے حوالے سے ہمیشہ کے لئے اپنے اندر محفوظ کر لیا ہے۔اور وہ اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی (سورة الممتحنہ) رحمة لّلعالمین نے فریاما: خبردار! بچے کسی کے بھی ہوں، انہیں قتل مت کرو۔(بحوالہ : سیرت نبویﷺ کے منہاج)