علی گڑہ مسلم یونیورسٹی کو بے جا نشانہ بنایا جارہا ہے :علی اشرف فاطمی

نئی دہلی 4 اکتوبر [یو این آئی] انسانی وسائل کے فروغ کے سابق مرکزی وزیر علی اشرف فاطمی نے علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی سے متعلق ایک آڈٹ رپورٹ کو جسے حال ہی میں یونیورسیٹی گرانٹس کمیشن کو پیش کیا گیا ہے ،ایک ایسے اقلیتی ادارے میں بے جا مداخلت پر محمول کیا ہے جسے حال ہی میں ٹائمس ہایئر ایجوکیشن ورلڈ نے ہندستان کی چوٹی کی یونیورسٹیوں میں شمار کیا ہے ۔یہاں یو این آئی سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ اے ایم یو کا قومی کردار بھی ثابت شدہ ہے اور اسے ہندستان کی چوٹی کی یونیورسیٹی قرار دیئے جانے بعد جہاں حکومت کی طرف سے اس کی پذیرائی اور حوصلہ افزائی ہونی چاہئے تھی وہیں موجودہ حکومت نے ”غیر اخلاقی سیاست” کے لئے استعمال میں لائے جانے والے اداروں میں مبینہ طور پر یو جی سی کو شامل کر لیا ہے ۔مسٹر فاطمی نے کہا کہ اے ایم یو کا کردار اور وہاں ایک سے زیادہ عہدوں پر تقرری اور داخلے کے طے شدہ ضابطے کسی سے پوشیدہ نہیں اور وائس چانسلر سمیت کسی بھی عہدیدار کو ان ضابطوں میں اپنی مرضی شامل کرنے کا اختیار نہیں۔یو جی سی کو پیش کردہ آڈٹ رپورٹ میں اے ایم یو کے وائس چانسلر کے انتخاب کے طریقے پر اعتراض کرتے ہوئے دیگر سنٹرل یونیورسٹیوں میں اختیار کئے جانے والے طریقیے سے موافقت پر زور دیا گیا ہے ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مرکزی فنڈ سے چلنے والی دیگر یونیوراسٹیوں کے بر عکس اے ایم یو میں وائس چانسلر کے انتخاب کا طریقہ جداگانہ ہے ۔ یو نیورسیٹی کی مجلس عاملہ پانچ امیدواروں کا ایک پینل بنا کر اے ایم یو کورٹ کے سپر دکر تی ہے اور کورٹ کی طرف سے ان میں تین نام چن کر فہرست انسانی وسائل کے فروغ کی وزارت کو بھیج دی جا تی ہے ۔مسٹر فاطمی نے کہا کہ یو نیورسٹی میں تقرریوں اور داخلوں کے وضع کردہ صاف اورشفاف طریقے پر یہ اعتراض برائے اعتراض ہے جس سے بے جا مداخلت کی بو آتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کو اس سے گریز کرتے ہوئے تعلیمی ترقی کی ضمانت دینے والے اداروں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے ۔انہوں نے اے ایم یو کے میڈیکل شعبے کو ملک میں پانچواں مقام رکھنے والا طبی تعلیم و تحقیق گاہ بتاتے ہوئے کہا کہ اس پر یہ اعتراض غلط ہے کہ وہاں ”نیٹ” کو فالو نہیں کیا جاتا ۔انجنیرنگ اور دوسرے عصری تعلیمی شعبوں میں اے ایم یو نے اپنی جو پہچان قائم کی ہے ، مسٹر فاطمی نے اس کی عوامی ستائش اورسرکاری اعتراف اور حوصلہ افزائی پر بھی زور دیا۔انہوں نے کہا کہ اے ایم یو کی قائم کی جانے والی پانچ شاخوں میں سے اگر دو اب تک فعال نہیں تو اس کی ذمہ دار بھی حکومتیں ہیں، یہ قومی ادارہ نہیں، جہاں ملک کی 29 ریاستوں کے بچے پڑھتے ہیں ۔