نئی دہلی 08نومبر(ابصار احمد صدیقی)جامعہ ملےہ اسلامےہ ےونےور سٹی 1920مےں قائم ہوئی۔جامعہ کے بانےان مےں سے مولانامحمدعلی جوہر،حکےم اجمل خاں اورڈاکٹرمختاراحمدانصاری کے نام قابل ذکر ہےں ۔ان شخصےات کے ساتھ ساتھ ان اکا برےن کے خدمات کو بھی نظر انداز نہےں کےاجاسکتاہے۔ جن کے کندھوں پر جامعہ ملےہ اسلامےہ کو آگے بڑھانے کی سونپی گی¿ی تھی آ ج ان سب کے خوابوں کا جامعہ شر مندی¿ہ تعبےر ہوتا نظر آرہا ہے ،آج جامعہ فارغےن کی بڑی تعداد طلباوہ طالبات ملک کے تقرےباً ہرشعبے مےں اپنی خدما ت انجام آرہے ہےں ہے۔جامعہ ملےہ اےک اقلےتی ادارہ کے طورپرقےام عمل مےں لاےاگےاتھالےکن مرکزی حکومت کی ہمےشہ کوشس رہی ہےکہ جامعہ کے اقلےتی کردار کو ختم کردی جائے۔جامعہ ملےہ 017مےں 97وےں ےوم تا سےس بھی منالےاہے لےکن ہم جانناچاہتے ہےں کہ جامعہ ملےہ اقلےتی طلبا کےلئے کےاکےا اورمستبقل میں کےاکرناچاہتے ہےں۔جامعہ قےام سے لےکر اب تک کتنی ترقےاں حاصل کہےں ،ان کے عزائم کےا ہے ، اس سلسلے مےں پروفےسرمجتبیٰ خان اواےس ڈی (آن اسپےشل ڈےوٹی ) ارجن سنگھ سےنٹرفارڈسٹنس اوپن لرننگ اےجوکےشن سے ابصار احمد صد ےقی مےنےجنگ اےڈےٹر’روزنامہ تاثےر‘سے خاص بات چےت کے اہم اقتبا سات:
جامعہ نے کافی ترقی کی ہےں ،تمام چےزےں آپ کے سامنے ہے۔ جب مےں 1978مےں جامعہ آےاتھااس لوگوں میں ےہ خےال ہوتا تھاکہ جامعہ اےک مدرسہ ہے۔اورمےں جانتاہوں اس وقت ےہاں اےک وائس چانسلرکی ضرورت تھی ،اس زمانے میں۔تواےک بہت سےنئرلےڈی وائس چانسلررہے ہےں،ان سے جامعہ والوں نے بات کی تھی کہ آپ ےہاں آئےے اورجامعہ کی ترقی کےجئے۔ان کا خےال تھاکہ مےں 12صدی کی انسٹی ٹےوشن مےں جانانہےں چاہوں گا۔اےک دوروہ تھااےک دورےہ ہے کہ ےہاں وائس چانسلربننے کےلئے لوگ لائن لگائے رہتے ہےں۔اس سے آپ کواندازہ ہوجاتاہے کہ جامعہ نے اس 35-30سالوں مےں کس قدر ترقی کی ہے۔جامعہ 1987 میں جب سےنٹرل ےونےورسٹی بنی تھی،اس کے بعدسے جامعہ کاگراف اےکدم اوپرچڑھ نے لگاےا۔اورےہاں جوپہلااسٹےپ تھااےم سی آرسی ماس کمےونی کےشن ڈپارٹمنٹ سے جامعہ اوپن ہوا۔اوراس کے بعد جامعہ جس طرح رےکورٹمنٹ ہوئے ہےں آل انڈےالےول پراسکی چھا پ آج بھی قای¿م ہے ،،اورآج جامعہ موجودہ وی سی طلعت احمد کے سر براہی مےں ترقی کی راہ پرگامزن ہے۔اورمےں ےہاں پر اےک بات جوڑناچاہوں گا کہ مےں جس وقت علی گڑھ مےں پڑ ھتا تھا اوراس وقت علی گڑھ کااےک نےشنل کلچرتھا،جس مےں ہندوستان کے کو نے کونے سے لوگ آ تے تھے،آج کاعلی گڑھ وہ علی گڑھ سے مختلف ہے، مگرجامعہ نے اپنے آپکوآگے بڑھانے مےں توجہ دےا ،جس کا نتےجہ ہم سب کے سامنے موجود ہے ،۔جب مےں جامعہ مےں آےاتھااس وقت جامعہ کنفائن تھی صرف اترپردےش اوردہلی کے اطراف کے طلبا وطالبات جامعہ کا رخ کرتے تھے ، لےکن آج جا معہ مےں کےرل، تمل ناڈو،آندھراپردےش سے بچے آتے ہےں بہا ر ،بنگال اوراترپردےش سے شروعاتی دور سے آتے رہے ہےں ۔
سوال:شےخ الجامعہ طلعت ا حمدنے اےک نےوزچےنل کو انٹروےودےتے ہوئے کہا تھاکہ جامعہ ابھی دہلی ےونےورسٹی اورجے اےن ےوسے کچھ پےچھے ہے ،ےہ کہنے کی کےاوجوہات ہےں۔
جواب:دےکھئے مےں نہےں سمجھتاکہ جامعہ پےچھے ہے۔ےہ صرف اےک خےال ہے۔لوگوں کے ذہنوں مےں ہے۔جامعہ والوں کا بھی خےال ہے کہ ہم ان سے پےچھے ہےں لےکن اےسے بہت سے ادارے ہےں جس مےں ہم ان سے بہت آگے ہےں۔
سوال :جس شخص کے نام سے ارجن سنگھ سےنٹربناہے،ان کی شخصےت پورے ملک مےں عام ہے۔لےکن جس طرےقے سے اگنونے اپنی ز مےن کوپھےلاےاہے،ےعنی ادارے کوبڑھاےاہے،کےا اس طرےقے سے ار جن سنگھ سےنٹرکوبڑھانے کاآپ کے پاس کوئی منصوبہ ہے کہ ارجن سنگھ کو بھی اسے طرےقے سے پھےلاےاجائے؟اورجس طرےقے سے آ پ فورسزکورس لےکرآئے اوراس کوبھی آپ نے نئے طرےقے سے لا نچ کےا،کےااس طرح سے اوربھی کوئی کورسزلانے کامنصوبہ ہے؟
جواب:دےکھئے اس وقت ہم لوگوں نے ڈےفنس سروسےزکے تےنوں سرو سزکوفاصلاتی اےجوکےشنز سے فائدہ پہنچارہے ہےں۔اورہمارے ہند و ستان مےں بہت سے اسٹےڈےزسےنٹرزہےں ،ان کے اوربھی سےنٹر س بڑھ ر ہے ہےں،اوربےچ مےں تھوڑاکچھ سےنٹرس کوےوجی سی کی پالےسی کی وجہ سے بندکرناپڑا۔مگراس کے بارے مےں بات چےت چل ر ہی ہے اس کے بعدوہ سےنٹرس بحال ہوجائےں گے۔اورجس طرح کی پالےسی ہے گو ر نمنٹ کی کہ اس مےں صرف گورنمنٹ کی ر ےکو نا ئز ڈ کالجزکو ہی سےنٹر بناےاجائے گا۔ہم اس پالےسی کوہی فالو کرتے ہوئے انہےں سےنٹرزکورکھ رہے ہےں،اورہماراپروگرام بھی ہے کہ ہم ساو¿تھ انڈےامےں بھی پہنچے اورہندوستان کے کونے کونے مےں ہم اپنا سےنٹر قائم کرسکےں۔
سوال:جس طرح آپ نے کہاکہ جامعہ ملےہ اسلامےہ نے بہت ترقی حاصل کی ہے،رےسرچ اور نی¿ی ٹکنالوجی کے مےدان مےں جامعہ دےگر اداروں سے کتنا آگے ہے؟ جامعہ طلباکوےہ شکاےت رہتی ہے کہ جامعہ پلےسمنٹ مےں نہےں کراتے ہےں ۔اس بارے مےں آپ کی کےارائے ہے؟
جواب:پلےسمنٹ توہورہاہے لےکن جس پےمانے پر پلےسمنٹ ہونا چا ہئے تھاوہ نہےں ہوپارہاہے۔اس کے مختلف وجوہات ہوسکتے ہےں ،اس کےلئے ہم لوگوں نے پلےسمنٹ سےل بنارکھاہے وہ سےل اپناکام بخو بی کررہاہے۔بہت سے کمپنےوں سے رابطہ کےاجارہے اوربہت سے کمپنےاں آبھی رہی ہےں۔پلےسمنٹ بھی ہورہے ہےں۔ہمارے وا ئس چانسلرصاحب کاےہ بھی خےال ہے کہ ہماراجوالمونےائی ہے بےرونی ممالک مےں ،ان کی مددسے بھی ہم لوگ پلےسمنٹ کرےں گے۔
سوال :جامعہ ملےہ اسلامےہ کی بنےادرکھی گئی تھی اےک ڈےموکرےٹک اند ا زمےں،جمہوری اندازمےں اورجامعہ کوہمےشہ سے اےک بات کے لئے ماناگےاہے جامعہ اےک مشترکہ تہذےب کا گہوارہ ہے اورےہاں ہر مذاہب کے طلباپڑھتے ہےں،کےاوجہ ہے کہ ےونےن کےلئے طلبا دھر نے پر بےٹھے ہوئے ہےں،کےااس ڈےموکرےٹک پہلوکوبحال نہےں کےا جاسکتا؟
جواب:دےکھئے ےہ معاملہ اس وقت عدالت مےں ہے ۔کےونکہ کچھ طلبا ےونےن کے حماےت مےں ہےں اورکچھ مخالفت مےں ۔ےعنی مجھے خبرہے کہ اےک کےس چل رہاہے ۔کچھ طلبانے کہاہے کہ ےونےن کےلئے الےکشن ہوناچاہئے اورکچھ طلباکہہ رہے ہےں الےکشن نہےں ہوناچاہئے۔ےہ پراناکےس چل رہاہے اورشاےدجامعہ انتظامےہ اسکو حل کرنے کی کوشش مےں ہےں۔اورجامعہ کاجمہوری کردارشروع سے رہاہے اورانشاءاللہ آگے بھی رہے گا۔ہماراجوسےکولراورڈےموکرےٹک کےرکٹر ہے وہ قائم ہے۔مےں ےہاں بات بتاتے چلوں کہ مےں اےک لےکچر اٹےنڈ گےاتھا جو دہلی امبےڈکرےونےورسٹی کے وائس چا نسلر ہےں ،انہوں نے پروگرام مےں اےک بات کہی تھی کہ جامعہ اےک اےساادارہ جوکمپوز ٹ کلچرکوپروموٹ کررہاہے اوراس کمپوزٹ کلچرکوپرموٹ کرنے کی اس وقت ہندوستان مےں سخت ضرورت ہے اورجامعہ اسے لےڈ کررہاہے۔
سراخےرمےں اےک اورسوال جامعہ ےوم تاسےس کے موقع تعلےمی مےلے پرارجن سنگھ کے طرف سے بھی بک اسٹال لگاےاگےا توجامعہ کے طلباکوخاص کرجہاں جہاں سےنٹرہے ان کوکےاپےغام دےناچاہتے ہےں؟
جواب :بہت سے لوگ سےنٹرمےں آئے تھے ،ہم نے وہاں پراےک او پن اےڈمےشن اسپاٹ رجسٹرےشن پالےسی اختےارکی، ان دودنوں مےں ہم بغےرکسی لےٹ فےس کے ان کواےڈمےشن دے رہے ہےں ۔کئی فارم فروخت بھی ہوئے اوربہت سے لوگ رجسٹرےشن کرکے گئے۔ان کے علاوہ ہم لوگ مےٹرےل بھی آن اسپوٹ دے رہے ہےں۔
، تمام۔ اےشوز پر پروفےسر مجتبی خان نے اپنے خےالات کا اطہار کرتے ہوی¿ے کہا کہ جامعہ ملےہ اسلامےہ مشترکہ تہزےب کا گہوارہ رہا ہے ، ہم سب کو اس بات کی بحدخوشی ہے کہ اور ےہاں کے فارغےن طلبا و طالبا ت پور ی دنےا مےں جامعہ کا نام روشن کر رہے ہےں ،اور جو ےہاں کا کلچر ہے ، اسے مدھم نہےں ہونے دےا ہے ،آ ج جامعہ کے ہر فرد کو مبارکباد جنہو نے اپنا کچھ لمحہ بھی جامعہ مےں گذارا ہو،