خاصانِ خدا: مہرباں خدا کے دردمند بندے

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
آج کرہ ارض پر اربوں انسان موجود ہیں۔ ان میں سے اکثریت اپنے مزاج ،فطرت اور ضرورت کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں، زیادہ تر کھا یا پیا افزائش نسل کا حصہ بنے اور مٹی کا حصہ ہوئے۔ انسانوں کے اس ہجوم میں ایک خاص طبقہ اولیا اللہ کا ہوتا ہے یعنی اللہ کے دوست ۔یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی ترجیح اول اللہ تعالیٰ ہی ہوتا ہے، یہ لوگ اس رنگ برنگی کائنات میں صرف اللہ تعالیٰ کو ہی چنتے ہیں، اس کی ہی اطاعت کرتے ہیں، مختلف عبادات،مجاہدات اور تزکیہ نفس کے کٹھن سفر سے گزرنے کے بعد ظاہری اور باطنی پاکیزگی اور طہارت کے بعد خود کو بارگاہ الہٰی میں پیش کرتے ہیں اور پھر مالک کائنات ان کی محبت و اطاعت سے خوش ہو کر ان اولیا اللہ سے محبت فرماتا ہے، یہ اللہ کی عنایات پر خوش اور اللہ ان سے راضی ہو جاتا ہے۔ یہ اپنے خدا کی ہر بات دل و جان سے مانتے ہیں اور پھر انعام کے طور پر خدائے بزرگ و برتر ان کی کوئی بات نہیں ٹالتا۔ جب خدا ان سے راضی ہوتا ہے تو وہ ہواؤں،فضاؤں اور کائنات کی مخفی قوتوں کو حکم دیتا ہے کہ میرے ان بندوں کو محبوب رکھو ،پھر مخلوق کے قلوب اللہ تعالیٰ ان کے سامنے مسخر کر دیتا ہے ۔یہی وہ مقدس گروہ ہے جسے اولیا اللہ کہا جاتا ہے یہ خالق بے نیاز کے برگزیدہ اشخاص اور مخلوق کے پسندیدہ افراد ہوتے ہیں، دنیا اور دنیاداری کے تقاضوں سے بے نیاز یہ مقدس لوگ زمانے بھر سے نرالے اور الگ ہی نظر آتے ہیں۔ عام لوگ جن غموم وہموم پر ہلکان ہوتے ہیں، یہ انہی غموں کو سینے سے لگالیتے ہیں، زندگی کی آزمائشوں میں جہاں عام لوگ ڈگمگا جاتے ہیں، وہاں یہ ثابت قدمی دکھاتے ہیں۔ یہی اس مقدس گروہ کے عظیم لوگ ہیں جو ساری عمر خاک نشین رہے لیکن تاریخ کے اوراق میں امر ہو گئے، جو بے نشان رہے لیکن اُن کے آستانے بنے، یہی خاک نشین ہمسایہ جبرائیل بنے، انہی کی جھونپڑیوں میں کبھی چراغ بھی نہ جلتا تھا لیکن ان کی زندگیوں سے نور کے چشمے ابلتے رہے، جن کے پاس کبھی دو وقت کی روٹی بھی نہیں ہوتی تھی ،آج لاکھوں بھوکے ان کے نام پر پلتے ہیں۔ یہی لوگ کبھی ٹھنڈے پانی کے لیے ترستے تھے لیکن آج لاکھوں پیاسوں کی یہ جسمانی اور روحانی پیاس بجھاتے ہیں ۔یہی لوگ جو ساری عمر محرومِ التفات رہے، آج سب کے مرکز توجہات ہیں۔دنیا دار اقتدار کے دسترخوانوں کے پیچھے بھاگتے رہے ،یہ مٹی کے پیالوں پر راضی رہے،۔دنیا دار ریشمی مسہریوں اورگداز بستروں پر بے خوابی کا شکار رہے اور یہ بسترِ خاک پر میٹھی پر سکون نیندکے مزے لوٹتے رہے۔مادیت پرست دولت کے حصول میں سرگرداں رہے لیکن یہ خرقہ فقر پر شاداں رہے۔ سارے زمانے سے الگ اور نرالے یہ لوگ کانٹا کسی کو چبھتا، تڑپ یہ اپنے جسم پر محسوس کرتے ،پیاس کسی کو لگتی ہونٹ اِن کے خشک ہو جاتے، بھوک کس کو ہوتی، دل ان کا روتا،کسی کے دل سے اٹھتی بیماری اسے جکڑتی ،بے چینی وبے قراری ان کو ہوتی، مبتلائے درد کوئی ہوتا آہیں ان کی نکلتیں ، مسائل ِحیات کے صحراؤں،دلدلوں اور نوکیلی چٹانوں سے گزرتے ہوئے آنکھ کسی کی دُکھتی نیند ان کی اُڑتی، گمراہی کے سمندر میں غرق کوئی ہوتا، مصروفِ دعا یہ ہوتے، ٹھوکر کسی کو لگتی چوٹ سے زخمی ان کا دل ہوتا، تکلیف میں کوئی مبتلا ہوتا، نبض ان کی ٹوٹنے لگتی۔جو لوگ ان کو ٹھکراتے دھکے دیتے یہ اُنہیں گلے سے لگاتے، جو ان کی بے عزتی کرتے ،یہ وقت پڑنے پر انہیں اپنے پاس بٹھاتے، جو انہیں ٹھکراتے بد دعائیں دیتے ،یہ ان کی بلائیں لیتے، جو انہیں ذلیل و رسوا کر کے بستی بدرکرتے ،یہ اُنہیں اپنی آنکھوں پر بٹھاتے، جو ان کی عزت کو خراب اور شہرت بگاڑتے ،یہ ان کی قسمت سنوارنے کی دن رات کو شش کرتے، جو انہیں برا کہتے، یہ ان کا بھلا چاہتے ،جو ان کو دھکے دے کر دور کرتے ،ان سے بگڑتے ،یہ اُن سے جڑتے انسانوں کے ہجوم میں انوکھے نرالے یہ عجیب لوگ خدمت مخلوق کی کرتے، اُجرت خدا سے مانگتے۔قدم فرش پر جماتے، باتیں( قرآن وحدیث ) عرش کی باتیںسناتے،مزاج قلندرانہ، دماغ سکندرانہ رکھتے۔یہی وہ لوگ ہوتے جو شکر کی ایسی کیفیت کو جانتے ہیں جو نعمتوں کو دوام بخشتی ہے،دوران ِزندگی بے شمار مشکل مراحل میں بھی اپنے آپ کواللہ کی اطاعت و خوشنودی کی راہ سے ڈانواں ڈول نہیں ہونے دیتے۔ نسل انسانی کا یہی مقدس گروہ جب انہیں کوئی نعمت دی جاتی ہے تو مالک کے اِس احسان کا شکر ادا کرتے اور کبھی اگر کوئی آزمائش آتی تو خوشی سے صبر کرتے۔ انہی اولیا اللہ کے بارے میں حدیث مبارکہ ہے: حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ وہ سردارالانبیا ﷺ سے روایت کرتے ہیں اور آپ جبرائیل امین ؑسے اور وہ اپنے پروردگار سے کہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ جس نے میرے ولی کی اہانت کی تو اس نے مجھے جنگ کا چیلنج دیا اور میں کسی چیز کو کرنے والا ہوتا ہوں ،تردد نہیں کرتا جیسا کہ مومن کی جان قبض کرنے میں،کہ میں اس کو تکلیف دینا پسند نہیں کرتا اور اس سے کوئی چارہ بھی نہیں اور میرے بعض مومن بندے ایک نوع کی عبادت کرنا چاہتے ہیں لیکن میں اس کو اس سے روک دیتا ہوں تاکہ اس کے اندر عجب نہ داخل ہو جائے اور وہ اس کو تباہ کردے اور میرے بندے نے میرے فرض کی ادائیگی کے برابر کسی اورچیز سے میرا قرب حاصل نہیں کیا اور ہمیشہ میرا بندہ نفل ادا کرتا رہتا ہے،یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور میں جس سے محبت کرتا ہوں تو اس کا کان اور اس کی آنکھ اور اس کا ہاتھ اور اس کا مددگار ہوجاتا ہوں، وہ مجھ کو پکارتا ہے تو میں اس کی پکار کو قبول کرتا ہوں۔وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اس کو دیتا ہوں اور وہ میرے ساتھ خلوص اختیار کرتا ہے تو میں اس کا ساتھ خیر کا معاملہ کرتا ہوں اور میرے بعض مومن بندے ایسے ہیں کہ ان کے ایمان کو فقرواخلاص ہی دُرست رکھ سکتا ہے اور اگر میں اس کو کشادگی عطا کردوں تو وہ اس کو تباہ کردے اور میرے بعض بندے ایسے ہیں کہ جس کے ایمان کو غنا اور تونگری ہی دُرست رکھ سکتاہے اور اگر میں اس کو مفلس کردوں تو وہ اس کو تباہ کردے اور میرے بعض مومن بندے ایسے ہیں کہ جن کے ایمان کو بیماری ہی دُرست رکھ سکتی ہے اور اگر اس کو صحت عطا کردوں تو وہ اس کو تباہ کردے اور بعض مومن بندے ایسے ہیں کہ جس کو صحت ہی تندرست رکھ سکتی ہے اور اگر میں اس کو بیمار کردوں تو وہ اس کو تباہ کردے۔ میں چونکہ اپنے بندوں کے احوالِ قلوب کا علم رکھتا ہوں ،اس لئے اسی کے مطابق ان کے ساتھ معاملہ کرتا ہوں۔ یقینا میں علیم اور خبیر ہوں۔ ایک اور خوبصورت ایمان افروز حدیث مبارکہ جس سے اولیاء اللہ کی عظمت مقام اور شان کا اظہار اس طرح ہوتا ہے کہ وجد اور ایمان تازہ ہو جاتا ہے: حضرت انس سے روایت ہے کہ محبوب خدارسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ بے شک اللہ کے بعض بندے ایسے ہیں کہ اگر اللہ پر قسم کھا لیں تو اللہ تعالی اس کو ضرور پورا کر دے (بخاری،مسلم،ابوداود،نسائی، ابن ماجہ، احمد)۔