مسلم ممالک کا فوجی اتحاد کسی ملک کے خلاف نہیں: راحیل شریف

اسلام آباد27نومبر (آئی این ایس انڈیا ) سعودی قیادت میں قائم مسلم ممالک کے عسکری اتحاد ’اسلامک ملٹری کاو¿نٹر ٹیررازم کولیشن‘ کے سربراہ اور پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل (ریٹائرڈ) راحیل شریف نے کہا ہے کہ اس اتحاد کا واحد مقصد دہشت گردی کے خلاف لڑنا ہے۔ اس فوجی اتحاد کے وزرائے دفاع کے سعودی عرب کے شہر ریاض میں ہونے والے اجلاس کے موقع پر راحیل شریف نے کہا کہ یہ اتحاد کسی ملک، مسلک یا دین کے خلاف نہیں بنایا گیا ہے ۔راحیل شریف نے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف اپنے اپنے طور پر لڑنے والے ممالک کی افواج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے محدود وسائل کے سبب بہت دباو¿ میں ہیں۔ا±ن کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف متحد ہو کر موثر کارروائی کی ضرورت ہے اور اسلامی ممالک کا یہ فوجی اتحاد رکن ممالک کو انٹیلی جنس معلومات کی فراہمی اور ا±ن کی فورسز کی استعدادِ کار میں اضا فے کے لیے تعاون فراہم کرے گا۔راحیل شریف کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر گزشتہ چھ برسوں میں دہشت گردی کے واقعات میں 70 فی صد سے زائد ہلاکتیں مسلم ممالک میں ہوئیں۔مسلم ممالک کے عسکری اتحاد کے کمانڈر کا کہنا تھا کہ انتہا پسند نظریے کے حامل پس پردہ یا چھپے ہوئے دشمن کا مقابلہ کرنا ایک پیچیدہ جنگ ہے۔ا±نھوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نمایاں کامیابی حا صل کی اور حالات کا رخ موڑ دیا۔ ریاض میں ہونے والے اجلاس میں وزیرِ دفاع خرم دستگیر خان کی قیادت میں پاکستان کے پانچ رکنی وفد نے شرکت کی۔ اجلاس کی صدارت سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کی۔اجلاس سے خطاب میں پاکستان کے وزیرِ دفاع خرم دستگیر نے کہا کہ دہشت گردی کے ناسور کو وسیع تر اتحاد ہی سے جڑ سے اکھاڑ پھینکا جا سکتا ہے۔ ا±نھوں نے کہا کہ پاکستان، سعودی عرب اور اسلامی اتحاد میں شامل ممالک کے ساتھ کھڑا ہے اور رکن ممالک کے متفقہ لائحہ عمل کا ساتھ دیا جائے گا۔سعودی قیادت میں بننے والے اس اتحاد کے قیام کا اعلان دسمبر 2015ء میں کیا گیا تھا۔ ابتدا میں اس کے رکن ممالک کی تعداد 34 تھی جو اب بڑھ کر 41 ہو چکی ہے۔تاہم اس میں شیعہ اکثریت والے ممالک بشمو ل ایران اور شام شامل نہیں ہیں۔ ریاض میں مسلم ممالک کے اس فوجی اتحاد کے وزرائے دفاع کے اجلاس میں انٹیلی جنس معلو مات کے تبادلے کے لیے ایک موثر نظام وضع کر نے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے ذر یعے انتہا پسندانہ سوچ کے خلاف ایک بیانیے کی تشہیر پر بھی غور کیا گیا۔