چین میں دو سال کے اندر 13 ہزار ویب سائٹس بند کیں

بیجنگ24 دسمبر (آئی این ایس انڈیا ) چین نے انٹرنیٹ سے متعلق ملکی قوانین کی مبینہ خلاف ورزی پر 2015ءسے لے کر اب تک 13 ہزار و یب سائٹس کو یا تو بند کردیا یا ان کےلا ئسینس منسوخ کردیئے۔یہ خبر ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب کیمونسٹ ملک چین انٹرنیٹ پر پہلے سے لاگو سخت قوانین کو مزید سخت کر رہا ہے اور ناقدین کا کہنا ہے کہ صدر شی جنپنگ کے 2012ءمیں صدر بننے کے بعد یہ پالیسی مزید سخت ہونا شروع ہوئی۔چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی شنخوا کی اتوار کی رپورٹ کے مطابق ملک میں’سروس پروٹوکول کی خلاف ورزی‘پر تقریباً ایک کروڑ انٹرنیٹ اکاو¿نٹس کو بند کر دیا گیا جو کہ ممنکہ طور پر سماجی میڈیا کے اکاونٹس ہو سکتے ہیں۔شنخوا نے چین کی نیشنل پیپلز کانگرس (این پی سی) کی قائمہ کمیٹی کے وائس چئیرمین وانگ شین جن کے حوالے سے بتایا ہے کہ’ یہ اقداما ت روک تھام کے لیے موثر ہیں‘۔امر یکہ میں قائم ‘فریڈم ہاو¿س’ نامی تنظیم کی 2015ءکی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ انٹر نیٹ اکاو¿نٹ رکھنے کے باوجود اس ملک کی انٹرنیٹ کی پالیسیاں نہایت ہی سخت ہیں اور چین کی درجہ بندی اس حوالے سے ایران اور شام سے بھی نیچے ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق رواں سال چین نے نئے قواعد و ضوابط مرتب کیے جن کے تحت ٹیکنالو جی کی غیر ملکی کمپنیوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ انٹر نیٹ استعمال کرنے والے کے ڈیٹا کو ملک کے اندر ہی اسٹور کریں۔ اس کے علاوہ دیگر کئی ایسے اقدامات بھی کیے گئے جن کی وجہ سے ایسے سافٹ وئیر ٹولز کو استعمال کرنا مشکل ہو گیا جو سینسر سے بچنے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔چین میں گوگل، فیس بک، ٹوئٹر اور موقر امریکی اخبار نیویارک ٹائمز اور ان گنت غیر ملکی ویب سائٹس بند ہیں۔چین کا موقف ہے کہ ’سائبر خود مختاری‘کے تحت ملک کی قومی سلامتی کے لیے ویب سینسر شپ کے مختلف طریقے برقرار رکھنا ضروری ہے۔چین میں 2000ءسے نافذ قواعد و ضوابط کے تحت ویب سائٹس کو متعلقہ حکام کے پاس رجسٹر کروانا ضروری ہے اور ان پر پوسٹ ہونے والے مواد کی قانونی حیثیت کو یقینی بنانا ان کی ذمہ داری ہے۔اگر ان قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی میں کوئی مواد ان ویب سائیٹ پر پوسٹ کیا جاتا ہے تو انہیں بند کیا جا سکتا ہے۔اس کے علاوہ ملک میں پرائیویٹ نیٹ ورک استعمال کرنے پر بھی پابندی ہے جس کی مدد سے کوئی بھی شخص دیگر ملکوں کی ویب سائٹ استعمال کر سکتا ہے۔