رحمتہ للعالمینﷺ اور تعلیم خواتین

خورشید عالم مدنی ،پھلواری شریف ،پٹنہ
رابطہ:9934671798
عوت کی حیثیت ایک پھول کی ہے جس طرح گلشن کی رونق اور چمک دمک پھولو ںسے ہوتی ہے اسی طرح دنیا کی رونق اور رنگینی عورت سے ہوتی ہے۔ وجود زن سے ہے کائنات میں رنگ، اگر اس کا وجود نہ ہوتا تو کائنات بے رنگ ہوتی ۔نسلوں اور خاندان کا تسلسل قائم نہیں رہتا ،تہذیب و تمدن کی ترقی نہ ہوتی ، تعلیم وادب پروان نہیں چڑھتے اور نہ قومو ںاور ملکوں کی تاریخ لکھی جاتی۔
اسلام نے بلا امتیاز مردو زن تمام مسلمانوں پر علم کا حصول ضروری قرار دیا ہے۔ جس طرح مردوں کو علم دین کے حصول اور ا س کی نشر و اشاعت کی ترغیب دی اسی طرح عورتوں کو بھی زیور علم سے آراستہ ہونے کی تلقین کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مقصد تخلیق انسانی بیان کرتے ہوئے فرمایا:”وما خلقت الجن ولانس الا لیعبددون (الذاریات)میں نے جن وانس کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے ،اس آیت میں انسانوں سے مراد صرف مرد نہیں بلکہ خواتین بھی ہیں ۔ان پر بھی لازم ہے کہ وہ توحیدر اختیار کریں اور شرک سے بچیں ۔اسی طرح پوری شریعت اور احکام دین کا معاملہ ہے جس طرح مردوں پر نمازیں فرض ہیں عورتوں پر بھی ہیں، مردوں کی طرح عورتیں بھی روزے کی مکلف ہیں ، اگر مردوں پر بشرط استطاعت زکوة اور حج کی فرضیت عائد ہوتی ہے تو خواتین بھی اس حکم سے مستثنیٰ نہیں ہیںاور جس طرح مردوں کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ صحیح علم کے بغیر اپنے فرائض و حقوق کو ادا کرسکے تو خواتین کے لیے کیسے ممکن ہوسکتی ہے ۔تعلیم رجال جتنی ضروری اور اہمیت و افادیت کی حامل ہے ،تعلیم نسواں بھی اسی قدر ضروری اور اہمیت و افادیت کی حامل ہے۔
معاشرہ کی اصلاح میں تعلیم یافتہ خواتین کا بڑا اہم رول ہوتاہے۔ایسی عورتیں کیا کردار ادا کرسکتی ہیں جو خود صاحب کردار نہیں ہیں۔ جو تعلیم سے نابلدہیں ،جیسے کفر و شرک، حلال و حرام کی تمیز نہیں اور جو اللہ اور اس کے رسول کے مقام ومرتبہ کو نہیں پہنچانتی؟ کیا ایسی عورتیں سماج کے لیے باعث ننگ وعار کلنک کا ٹیکہ نہیں ہیں جو رسم و رواج کی بندشوں میں گرفتار ،بے حجابی وعریانیت کی دلدادہ ہیں۔ شوہروں کی نافرمانی، سسرالی رشتے داروں اور پڑوسیوں کے حقوق کی پامالی جن کا شیوہ ہے۔ تعلیم نسواں اس لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اسلام کے ابدی اور آفاقی پیغام کو سمجھے، رسول رحمت کے دلنشیں ارشادات کو جانے، اپنے ماحول میں دعوت وارشاد کا فریضہ انجام دے، اپنی ازدواجی و عائلی زندگی کو پرامن و پر بہار بنائے اور اپنے جگر کے ٹکڑوں کی صالح تربیت کرے، اگر ماں تعلیم یافتہ ،اخلاق وآداب سے مزین ہوگی تو ظلم و جہالت کی تاریکیاں چھٹ جائیں گی ، صالح معاشرہ کی تشکیل ہوگی اوراس کے بچوں کی زندگی پر خوشگوار اثرات ظاہر ہوں گے اور وہ سحر نمودار ہوگی جس کا زاویہ نگاہ توحید، رسالت اور آخرت پر ہوگا ، علامہ اقبال نے کہا تھا:
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود
ہوتی ہے بندئہ مومن کی اذاں سے پیدا
قارئین کرام! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور سیرت طیبہ میں تعلیم نسواں کا ایجاب ، تاکید اور تلقین بھر پور انداز میں موجود ہے۔ آپ کا یہ مشہور ارشاد ہے ”طلب العلم فریضة علی کل مسلم“ (ابن ماجہ) علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ، اس ارشاد گرامی میں مسلم کے عموم میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شامل ہیں۔آپ نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کو دو آیتوں سے ختم کیا ہے جو مجھے عرش کے تلے خزانہ سے دی گئی ہیں فتعلمو ھن وعلموھن نساءکم تم سورہ بقرہ خود سیکھو اور اپنی خواتین کو بھی سکھاﺅ (دارمی :3430) یہ لونڈی جس کی عرب معاشرے میں کوئی حیثیت نہیں تھی، نبی کریم نے نہ صرف اس کی تعلیم و تربیت اور اس کے ساتھ حسن معاملہ کی تعلیم دی بلکہ اسے آزاد کرکے اس سے شادی کرلینے پر دوہرے اجر کا مستحق قرار دیا۔ (بخاری)آپ نے مختلف موقعوں پر عورتوں کی تعلیم و تربیت پروالدین کو جنت کی خوشخبری سنائی ہے فرمایا” جس نے تین لڑکیوں کی بہترین انداز میں پرورش کی ،ان کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھا اوران کی شادی کردی، ان کے ساتھ حسن سکول کیا توا س کے لیے جنت ہے۔ (ابو داﺅد) اسی طرح حضرت ابوسعید خدریؓ کی روایت ہے کہ عورتوں نے نبی سے کہا کہ آپ کے پاس ہمیشہ مردوں کا ہجوم رہتا ہے، لہذا آپ ہماری تعلیم و تربیت کے لیے الگ سے ایک دن مقرر کیجئے، چنانچہ آپ نے ان کے لیے ایک دن متعین کردیا، ان کے پاس تشریف لے گئے، وعظ و نصیحت فرمائی اور انہیں نیک کاموں کا حکم دیا۔ (بخاری :101)
حضرت عائشہ ؓ انصاری صحابیات کے تفقہ فی الدین کے شوق و طلب کا ذکر کرتی ہوئی کہتی ہیں: ”عورتوں میں انصاری عورتیں کتنی اچھی ہیں کہ دین کی سمجھ حاصل کرنے کے سلسلے میں حیا ان کے آڑے نہیں آتی “(مسلم ،کتاب الحیض:332) آپ نے عید کا خطبہ دیا اور آپ کو یہ احساس ہوا کہ ہماری آواز عورتوں تک نہیں پہنچ سکی تو آپ ان کے قریب گئے اورخطاب فرمایا ۔ آپ نے حضرت شفاءبنت عبداللہ کو جو لکھنا جانتی تھی یہ حکم دیا کہ وہ حضرت حفصہ کو لکھنا سکھائیں، آپ نے مسجدمیں عورتوں کی آمد کا دروازہ کھلا رکھا، مردوں کو واضح تنبیہ کی کہ اللہ کی بندیوں کو مساجد میں جانے سے نہ روکو” لا تمنعو ایاءاللہ مساجد اللہ“ (ابو داﺅد) چنانچہ یہ صحابیات پنچ وقتہ نمازوں میں گہن کی نمازوں میں ،عیدین میں شریک ہوتی تھیں اور خطبوں ، دروس و تعلیمات سے استفادہ کرتی تھیں۔
رسول گرامی کی اس تعلیم و ترغیب کا فیض ہے کہ ہر دور اور زمانے میں ایسی خواتین گذری ہیں جنہو ں نے علم دین کے حصول اور اس کی نشرو اشاعت میں گرانقدر اور نمایاں خدمات انجام دی ہیں اور یادگار تابندہ نقوش چھوڑے ہیں ۔ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ جو حدیث، فرائض ،احکام ، حلال وحرام، احبار و اشفار میں سب سے فائق تھیں اجلاّ صحابہ کرام ان سے رجوع فرماتے ، اسی طرح ام المومنین ام سلمہ، حفصہ، ام حبیبہ، اسما بنت ابی بکراور ام عطیہ انصاریہ جیسی صحابیات میدان علم میں نمایاں مقام کی حامل تھیں اور ان سے سارے کبار تابعین نے حدیثیں روایت کی ہیں۔ یہ سلسلہ صرف صحابیات تک محدونہ رہا بلکہ بعد کے ادوار میں ایسی خواتین پیدا ہوتی رہیں جنہوں نے روایت حدیث، درس و افتاء،تصنیف و تالیف،وعظ و تذکیر کے سلسلے میں گرانقدر خدمات انجام دی ہیں اور ہزاروں تشنگان علوم ان سے فیضیاب ہوئے ۔جسے علماءطبقات ورجال نے اپنی کتابوں میں ان کی خدمات اور جلالت شان کو خاص طور سے ذکر کیا ہے۔ یہ اسماءبنت یزید بن السکن مشہور خطیبہ تھیں۔ شفاءبنت حارث اسلام کی پہلی استانی ام سلیم بنت ملحان اور ام شریک اسلام کی مشہور داعیہ تھیں۔ تابعات میں حفصہ بنت سیرین ، عبادت ، فقہ اور قرآن وحدیث میں علم کے بلند مقام پر فائز تھیں۔امام شافعی ؒ نفیسہ بنت الحسن کے دروس میں شریک ہوتے اور ان سے حدیث سنتے تھے۔ حافظ ابن عساکر نے ۰۸سے زائد عورتوں سے حدیث روایت کیا ہے وغیرہ۔
ان خواتین اسلام کے تذکرے میں متعدد اور مستقل کتابیں تصنیف کی گئی ہیں جن کے مطالعے سے ہمیں اپنے شاندار ماضی اور روشن تاریخ کا احساس ہوگا ۔ان میں چند کتابوں کے نام یہ ہیں عشرة النسائطبرانی، آداب النسائجوزی ،کتاب النساءابن قاسم اندلسی، اشعارا لنسا، اعلام النسائعمر رضا کحالة، المرا¿ة المسلمةوھبی سلیان غاوجی، المرا¿ة فی القرا¿ن عباس محمود عقاد، المرا¿ة المسلمة فریدوجدی خاص طو رپر قابل ذکر ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ تعلیم نسواں قرآن کا بھی حکم ہے ،احادیث کا بھی ،عقل و فطرت کا تقاضا ہے اور اسلامی تاریخ بھی اس کے زبردست نمونے اور مثالیں پیش کرتی ہیں۔ اس لیے بچیوں کی تعلیم و تربیت کے متعلق ہم بیدار ہوں ،ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا نہ بنیں ورنہ ہماری نسلیں برباد ہوسکتی ہیں اور خاندان و معاشرہ کے سارے تانے بانے بگڑ سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭