اسلام آباد 2دسمبر (آئی این ایس انڈیا) ا±نھوں نے اپنے ہاتھوں میں دو عدد پوتوں کی تصا ویر اٹھا رکھی تھیں، جب کہ ا±ن کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ چند برس سے دونوں، سید مجتبیٰ اور سید اسماعیل افغان فوج میں خدمات بجا لا ر ہے تھے۔ جب داعش نے شام میں پیر پختہ کرنا شروع کیے، ایران نے افغانستان کی طرح اپنے دیگر ہمسایہ ملکو ں میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد پر اپنا مذہبی اثر و رسوخ استعمال کیا، تاکہ رضاکار عسکریت پسند تلاش کیے جائیں۔ مجتبیٰ اور اسماعیل جیسے کئی افراد تھے جنھوں نے یہ دعوت قبول کی۔ پھر یہ ہوا کہ گذشتہ سال، قمر بیبی کو خبر ملی کہ لڑتے ہوئے دونوں ہلاک ہوگئے ہیں ۔ ا±ن میں سے ایک نے نوجوان بیوی بیواہ چھوڑ ی، جب کہ ا±ن کا ایک کمسن بچہ یتیم ہوا۔اس سا ل اکتوبر میں ’ہیومن رائٹس واچ‘ نے اپنی رپور ٹ میں بتایا ہے کہ ”سنہ 2013 سے شام میں لڑ ائی کے لیے ایران نے ہزاروں افغانوں کو مدد اور تربیت فراہم کی“۔ا±ن کا اپنا ایک دستہ، ایک گروہ ہے جسے حکومتِ ایران کے قریبی روزنا مہ، ’کیہا ن‘ نے ’فاطمیوں برگیڈ‘ قرار دیا ہے، تاکہ مقدس زیارات کا دفاع کیا جاسکے، جن پر جذبے سے سرشار افغان مسلمان پہرہ دیتے ہیں“۔ چند رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دستے کا درجہ بڑھا کر اب ’ڈویڑن‘ کیا گیا ہے۔’تسنیم نیوز ایجنسی‘ نے، جو حکومتِ ایران سے وابستہ خبر رساں ادارہ ہے، فاطمیون کو مکمل طور پر ایک افغان یونٹ قرار دیا ہے۔’نیو یارک ٹائمز‘ میں شائع ہونے والی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، ’فاطمیون ڈویڑن‘ کے ارکان کے کاندھے پر ایک پٹی آویزاں ہوتی ہے، جس پر ایران کے رہبرِ اعلیٰ کی جانب سے عزت افزائی کا بیج ک±ندہ ہوتا ہے۔حالیہ دِنوں، افغانستان کے معاون چیف اگزیکٹو افسر، حاجی محمد محقق سے متعلق ا±س وقت تنازع کھڑا ہوا جب وہ دورئہ تہران پر تھے۔ ا±نھوں نے بشمول افغان لڑاکوں کے، رضاکاروں کی تعریف کی جو داعش کے خلاف شام کی لڑائی میں کمر بستہ ہیں۔
پہلی بار ایسا ہوا کہ ایک اعلیٰ افغان اہل کار نے یہ بات تسلیم کی کہ ایران نے افغانوں کو بھرتی کیا، جن کی تعداد ممکنہ طور پر ہزاروں میں ہے، جو شام کے تنازع میں شریک ہیں۔