پانی اللہ کی عظیم نعمت،انمول تحفہ

اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بڑی نعت پانی بھی ہے۔ یہ انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ہے اور اس پر تمام جاندار کی حیات و بقاءکا دار ومدار ہے۔کہا جاتا ہے کہ جل ہی جیون ہے ، یہ آب حیات ہے ،انسان کو اس کی اہمیت و ضرورت اس وقت سمجھ میں آتی ہے جب وہ پیاسا ہوتا ہے اور اس کی شدت اسے بے چین و بے قرار کردیتی ہے۔ انسان کی بہت ساری ضرورتیں پانی سے ہی پوری ہوتی ہیں۔ اس سے مردہ زمینیں سرسبز وشاداب ہوتی ہیں اور باغوں میں پھل اور پھول لہلہانے لگتے ہیں، اس سے انسان پاک وصاف ہوتا ہے اور ظاہری نجاست میل کچیل کو دور کرتا ہے۔ اگر یہ پانی نہ ہو تو آباد بستیاں ویران جنگل میں تبدیل ہو جائیں، کاروبار حیات متاثر ہوجائے، چرند وپرند تڑپ جائیں اور تعمیر عمارت کا لامتناہی سلسلہ ٹھپ پڑجائے۔
یہ پانی قدرت کا انمول تحفہ اور اس کی لازوال نعمت اور رحمت ہے ، قرآن کریم میں اسے رحمت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ترجمہ:”ور وہی ہے جو باران رحمت سے پہلے خوش خبری دینے والی ہواﺅں کو بھیجتا ہے۔“(الفرقان:84) اس پانی سے وضو کرتے ہوئے انسانی اعضا گناہوں سے پاک ہوجاتے ہیں اور ا س پانی کو اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر میں مسلمانوں کی فتح کے لیے نازل فرمایاترجمہ:” اورتم پر آسمان سے پانی برسارہا تھا تاکہ اس پانی کے ذریعہ تم کو پاک کردے اور تم سے شیطانی وسوسہ کو دفع کردے اور تمہارے دلوں کو مضبوط کردے اورتمہارے پاﺅں جمادے۔“(انفال:11)
اس پانی کو اللہ تعالیٰ آسمان سے نازل فرماتا ہے جس کے نزول کو ہماری آنکھیں دیکھتی ہیں تاکہ ہم اس کا شکریہ ادا کریں”کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم پانی کو بنجر (غیر آباد) زمین کی طرف بہاکر لے جاتے ہیں۔ (سجدة:27) اس کے قطرے زمین اور زمین والوں کو زندگی میں تابندگی پیدا کردیتے ہیں اور اگر اس کا نزول چٹیل زمین پر ہو تواسے بھی سہانا ودلکش منظر بنادیتے ہیں۔ ترجمہ” کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی برساتا ہے ،پس زمین سرسبز ہوجاتی ہے، بے شک اللہ تعالیٰ مہربان اور باخبر ہے۔“(الحج:63)
یہ بارش اللہ کے حکم سے ہوتی ہے، انسان اس سلسلے میں مجبو ر محض ہے اس کے بس میں نہیں کہ وہ جب چاہے اور جہاں چاہے آسمان سے پانی برسالے، جب انسان بارش سے مایوس ہوجاتا ہے ، اس وقت اللہ باران رحمت نازل کرتا ہے اور اپنی رحمت کے آثار چاروں طرف پھیلا دیتا ہے۔ ترجمہ” اور وہی ہے جو لوگوں کے ناامید ہوجانے کے بعد بارش برساتا ہے اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے وہی ہے کارساز اور قابل حمد وثنا “(شوری:28)اس بارش کا علم یقینی علم اللہ کے سواکسی کو نہیں، بسا اوقات محکمہ موسمیات کے ماہرین کے اعلانات بھی غلط ثابت ہوتے ہیں، مانسون آرہا ہے ، کیرالہ تک بنگال تک آگیا لیکن اس کا کوئی پتہ نہیں ہوتا۔تشنہ لبوں کو تر کرنا اور دھوپ کی تمازت سے بے قرار پیاسوں کے حلق کو ترکرنا یقینا ایک عظیم خدمت ہے افضل صدقہ ہے اور بڑے اجر و ثواب کا کام ہے۔ زمانہ جاہلیت میں بھی ایسے لوگوں کو عزت کی نگاہوںسے دیکھا جاتاتھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ”جو مسلمان کسی کو عریانی کی حالت میں کپڑا پہنائے ،اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے سبز جوڑے عطا فرمائے گااور جو کسی مسلمان کو بھوک کی حالت میں کھانا کھلائے، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے پھل اور میوے کھلائے گااور جو مسلمان کسی مسلمان کو پیاس کی حالت میں پانی پلائے اللہ تعالیٰ اس کو نفیس جنت کی شراب طہور پلائے گا، جس پر غیبی مہر لگی ہوگی۔ (ابوداﺅد:1434) آپ نے فرمایا کہ ایک فاحشہ عورت نے ایک پیاسا کتا کو پانی پلایا تو اللہ تعالیٰ نے ا س کی مغفرت کردی (دیکھیںبخاری:2363) اور جانوروں کے پانی پلانے میں بھی اجر و ثواب کی بشارت دیتے ہوئے رسول گرامی نے عام انسانوں ،جانورں کو پانی مہیا کرائے جانے کی ترغیب کے ساتھ اس کی حفاظت کرنے، آلودگی سے بچانے اور استعمال میں اسراف و فضول خرچی سے بچنے کا بھی حکم دیا ہے جبکہ آج مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے گھروں، مسجدوں میں بھی بڑی بے دردی سے پانی کو ضائع کررہے ہیں۔ ہماری آنکھیں سرکاری نلو ںسے پانی گرتا ہوا دیکھتی ہیں لیکن ہمیں احساس زیاں نہیں ہوتا اور صورتحال یہ ہے کہ ہمارے اس ملک میں پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ کئی علاقوں میں پانی ریل گاڑی سے پہنچایا جارہا ہے۔ کسان خود کشی کررہے ہیں۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پانی کی سطح مسلسل گرتی جارہی ہے۔ بارش کی قلت ہے اور ندیاں خشک ہورہی ہیں۔ ایسے حالات میں اسوئہ نبوی پر عمل پیرا ہونا چاہئے کہ آپ حضرت سعد بن ابی وقاص کے پاس سے گذرے دیکھا کہ وہ وضو کرنے میں اسراف سے کام لے رہے ہیں۔ تو آپ نے تنبیہ کرتے ہوئے فرمایاکہ اگر تم کسی جاری نہر کے کنارے بھی وضو کرلو پھر بھی فضول خرچی سے بچنا (احمد، ابن ماجہ) اور پانی کے استعمال میں احتیاط کا یہ عالم تھا کہ خود آپ ایک مد پانی (ایک لوٹا) اور ایک صاع(ایک بالٹی) سے غسل فرماتے تھے۔ برتن میں سانس لے کر پانی پینے سے منع فرماتے ہیں۔ (بخاری:153) ممکن ہے سانس کے ذریعہ جراثیم پانی کے برتن میں داخل ہوجائیں اور صحت انسانی متاثر ہوجائے۔
اس کے ساتھ ہی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام حرکات واعمال پر پابندی لگائی ہے جس سے پانی کے ناپاک، گندہ اور آلودہ ہونے کے امکانات ہیں۔ آپ نے فرمایا ” کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے“ ممکن ہے اس پانی سے اسے غسل کرنا پڑے۔ اس فرمان نبوی میں پیشاب کے ساتھ وہ تمام ناپاک اشیاءاور غلیظ چیزیں شامل ہیں جو آبی آلودگی کا سبب بن سکتی ہیں۔نیزپانی کے برتن کو رات میں ڈھانکنے کا حکم دراصل اس کی نظافت و صفائی کی تعلیم ہے ۔چونکہ پانی گندہ ہونے سے بدترین قسم کے امراض میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے۔ آج فضائی آلودگی کے ساتھ آلودہ پانی کی بھی حالت کم خراب نہیں ہے۔ واٹر ایڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان کی 80 فیصد سرفیس واٹر خطرناک آلودہ ہوچکا ہے۔ مرکزی پلوشن کنٹرول بورڈ کے مطابق 75سے 80 فیصد آلودہ پانی کی وجہ گھروں سے نکلنے والے سیورج کے آلودہ پانی صاف پانی پائپوں میں بے روک ٹول ملتا ہے ۔اس وجہ سے جان لیوا بیماریوں، کالرا، ہیضہ ، جونڈس اور دیگر بیماریوں میں اضافہ ہورہا ہے۔
پانی کی قلت سے نکلنے کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ ہم پانی کے استعمال میں اسراف سے بچیں جس کا سب سے زیادہ اسراف فلم انڈسٹری میں مصنوعی جھرنا، بارش، سیلاب اور تباہی کے مناظرد کھانے میں کیا جارہا ہے۔ تالابوں کو پاٹنے اور درختوں کو کاٹ کر اپارٹمنٹ بنانے سے پرہیز کیا جائے اور جنگی پیمانے پر شجر کاری اور درخت لگانے کی کوشش کی جائے اور عام لوگوں تک صاف پانی پہنچانے کے لیے ہینڈ پمپ لگائے جانے کا اہتمام کیا جائے۔ علاوہ ازیں نزول باران رحمت سے محرومی، خشک سالی اور قحط سالی سے بچنے کے لیے اللہ کے حضور توبہ و استغفار بھی کریں۔اپنے گناہوں پر ندامت کے آنسو بہائیں اور آئندہ مسلم وفرمانبردار بن کر زندگی گذارنے کا عہد و پیمان کریں۔پھر دیکھیں، بجلی چمکے گی، بادل گرجے گا اور جھم جھم بارش ہمیں سیراب کرے گی۔ نوح علیہ السلام نے کہاکہ اپنے رب سے معافی مانگووہ یقینا بڑا بخشنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان کو برستا چھوڑ دے گا ۔(نوح:10-11) آسمان سے بارش رک جانے کی ایک بڑی وجہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوة بتائی ہے ۔ فرماتے ہیںسنو! ”جب تم زکوة روک لوگے تو اللہ آسمان سے پانی روک لے گا۔“ (ابن ماجہ) واضح رہے کہ انسان اگر اپنے مقصد حیات اور مقصد تخلیق کو فرامو ش کردیتا ہے اللہ کے تعین کردہ حدود و حقوق کو پامال اوربداعمالیوں کی سرحد کوپار کرنے لگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی یاد دہانی کے لیے اپنی طاقت وقدرت کامظاہرہ کرتا ہے اور اسے اپنے آباءو خوشنما کائنات کو اجاڑنے میں دیر بھی نہیں لگتی۔ اس لیے قدرت کے الٹی میٹم کو، اس کی گوشمالی کو اوراس کے وارننگ بیل کو ہمیں سمجھنے اور خود کو سنوارنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ وباللہ توفیقی