اسلام وحدت ، مودت اوراخوت کا دین

سید سجاد حسین ۔۔۔ منور آباد سرینگر کشمیر
     اسلام اپنی جگہ مکمل اور جامع سیاسی اور معاشرتی نظام ہے، اس مسئلے پر گفتگوکرتے ہوئے معروف و مشہور اطالوی خاتون صحافی فلاسی سے اپنے انٹرویو میں مرحوم و مغفور امام خمینیؒ فرماتے ہیںـ ’’ لفظِ اسلام جمہوریت یا اس قسم کے کسی دوسریپوند کا محتاج نہیں ہے ۔مختصراً اسلام ہر چیز ہے اور اس میں سب کچھ شامل ہے۔یہ بات ہمارے لئے افسوس ناک ہوگی اگر ہم اسلام کے ساتھ کوئی اور لفظ استعمال کریں۔ یہ لفظ (اسلام) خود ہی کامل ہے جب کہ لفظ جمہوریت جسے( اہلِ مغرب ) بہت قیمتی تصور کرتے ہیں اور جو آپ کو پیارا لگتا ہے، کسی مخصوص معنی و مفہوم کا حامل نہیں۔ ارسطو کی جمہوریت ایک چیز ہے اور سوویت جمہوریت دوسری چیز جب کہ سرمایہ داروں کی جمہوریت ایک اور مختلف چیز ہے‘‘۔اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اسلام اپنی جگہ ایک مکمل نظامِ حیات ہے مکمل ضابطہ الحیات ہے۔ جمہوریت کی طرح اس کے مختلف مفاہیم مراد نہیں لئے جا سکتے ۔ اسلام میں اللہ تعالیٰ کے اقتدار اعلیٰ کے ساتھ خلافت کا تصور پایا جاتا ہے ۔س بارے میں مرحوم امام خمینی ؒ فرماتے ہیں ۔ ’’ اسلام میں خلافت ہی ولایت ہے۔ خلیفہ محض واضع قانونی یا مبلغ قانونی نہیں ہوتا بلکہ خلیفہ کے ہاتھ میں وہ طاقت و اختیار ہوتا ہے جس سے وہ ملک میں قانون نافظ کرتا ہے اور اس حکومت کے قیام اور اس میں نافذ کرنے والے اداروں کی تشکیل و تنطیم کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے جس میں ولایت فقیہ کا عقیدہ جزو ایمان ہے۔ اسلام نہ صرف مظلوم و ستم رسیدہ عوام کو محروم کر دینے والی بے حساب و کتاب ظالمانہ سرمایہ داری کا مخالف ہے بلکہ کتاب و سنت میں پوری تاکید کے ساتھ اس کی مذمت بھی کرتا ہے اور اسے سماجی انصاف کے خلاف تصور کرتا ہے۔اسلامی نظام میں اگرچہ سرمایہ داری کی مخالفت کی گئی ہے لیکن انفرادی ملکیت کو تحفظ دیا گیا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں کمیو نزم میں بھی ملکیت کے خاتمے اور اجتماعی ریاستی ملکیت پر زور دیا جاتا ہے لیکن اسلامی نظام حکومت میں اس قسم کے نظام کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسلام معتدل نظام ہے جو حق مِلکیت کو تسلیم کرتا ہے اور اس کا احترام کرتا ہے لیکن ملکیت کے با وجود میں آنے کے اسباب اور اس کے استعمال میں محدودیت کا قائل ہے۔ اگر اس پر واقعی اورصحیح  طریقے سے عمل کیا جائے تو صحت مند ، معیشت کا پہیے حرکت میں آجائیں گے اور سماجی انصاف جو ایک مسلمہ نظام کا لازمہ ہے ، وجود میں آجائے گا۔‘‘ نجی ملکیت کے تحفظ اور سرمایہ کی گردش کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے امام خمینی ؒ ارکانِ حکومت سے یہ ارشاد کرتے ہیں:’’ خدا وند متعال کے احکام کے آگے سر تسلیم خم رکھنے اور ظالم و لٹیرے سرماییہ دار بلاک یا متحد  کمیونسٹ اشتراک کی بلاک دونوں کے کھوکھلے پروپیگنڈے سے متاثر نہ ہو جائے۔ اسلامی حدود کے اندر جائز سرمایوں یا ملکیت کا احترام کیجئے اور ملت کو اطمنان دلائے تاکہ تعمیری سرگرمیاں اور سرمائے حرکت میں آجائیں اور ملک و حکوت کو خود کفیل اور چھوٹی بڑی سنعتوں سے مالا مال کریں۔‘‘
اس ساری مختصر بحث سے یہی کچھ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام کے نظام سیاست و حکومت میں کسی سیاسی مخصوص سیاسی نظام کے اعتبار کرنے پر زور نہیں دیا گیا ۔ یہ در اصل ایک ایسا نظام ہے جس میں ریاست اسلامی جمہوریہ ہوتی ہے۔اسلامی ریاست کا سربراہ منتخب ہوتا ہے اور اقتدارِ اعلیٰ کا سرچشمہ خدای تعالیٰ کی ذات ہوتی ہے عوام کے ووٹوں سے منتخب شخص (سربراہ ملک) اللہ تعالیٰ کے نائب یا خلیفہ کی حیثیت سے کام کرتا ہے۔ اسلامی ریاست کے سربراہ اور ارکان کے لئے ضروری ہے کہ مخصوص صلاحیتوں کے حامل ہوں، اور اپنے مقصد میں مخلص ہوں اور ملک و قوم کے مفاد کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں۔ صدر جمہوریہ اور پارلیمنٹ کے اراکین اس طبقے سے تعلق رکھتے ہوںجنہوں نے معاشرے کے محروموں اور مستضعفوں کی محرومیت کومحسوس کیا ہو ، ان کی فلاح و بہبود کا خیال ہو وہ سرمایہ دار ، جاگیر دار ، یا عیش و عشرت اور لذت میں غرق طبقے سے تعلق نہ رکھتے ہوں کیونکہ ایسے لوگ بھوکوں اور غریبوں کی محرومیت اور ان کے رنج و الم کی تلخی محسوس نہیں کر سکتے۔‘‘
 جب فروری ۱۹۷۹ء میں انقلاب ایران کامیابی کے ساتھ ہمکنار ہوا تو بانی انقلاب امام خمینیؒ نے اولین فرصت میں عوام سے رجوع کیا۔ ایران میں ریفرنڈم کروا دیا تاکہ ملک ایران میں اسلامی جمہوری نظام کا قیام ہو۔ %۹۸ آراء یا ووٹ اسلامیہ جمہوریہ نظام ِ حکومت کے حق میں آئے ۔اس طرح مملکت ایران ملوکیت اور بادشاہت سے نکل کر جمہوری اِسلامی ایران قرار پایا۔ اس کے فوراً بعد صدارتی اور پارلیمینٹ یا مجلس کے انتخابات شیڈول کے مطابق عمل میں لائے گئے ۔ آج تقریباً ۳۸ سال گذر نے پربھی اسلامی جمہوریہ ایران میں صدر اور مجلس یعنی پارلیمنٹ کے انتخابات نہایت خوش اسلوبی اور پر امن طریقے سے عمل میں لائے جاتے ہیں ۔واضح رہے ۱۹۷۹ کے تاریخ ساز انقلاب  ایران کے فوراً بعد ستمبر ۱۹۸۱ء میں امریکہ ، برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کی ایماء پر عراق کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران پر جنگ مسلط کر دیا گیا اور یہ مسلط کردہ تباہ کن اور خونریز جنگ پورے آٹھ سال تک جاری رہی ۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے ۔ اس آٹھ سالہ مسلط کر دہ جنگ میں دونوں جانب (ایران و عراق) سے لاکھوں افراد جان بحق ہوئے اور اربوں ڈالروں کا زبردست مالی نقصان ہوا۔بانی انقلاب ایران امام خمینیؒ ہمیشہ عالمی صہنونیت اور طاغوتی قوتوں کے خلاف مسلم اتحاد و اتفاق کی دعوت دیتے رہے۔ آج بھی ایران دنیا کا واحد اسلامی ملک ہے جو ڈنکے کی چوٹ پر عالمی صہونیت یعنی اسرائیلی جارحیت کے خلاف اپنی حمیت و غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مظلومین و مستعضفین کے حق میں آواز بلند کرتا ہے۔ ایران کا اصولی موقف ہے کہ کلمہ توحید کا برملا اور پورے یقین و اعتماد کے ساتھ اظہار کرنا اللہ اور رسولؐ کے بتائے ہوئے راستہ پر پوری طرح عمل کرنا، اتحاد و اتفاق و یکجہتی کی شاہراہ پر پورے استقامت اور خلوص کے ساتھ گامزن ہونا ، عقلِ سلیم ،علم و حلیم علم و بردباری سے دشمنانِ اسلام کا بھر پور مقابلہ کرنا اور ان کے خلاف سیسہ پلائی دیوار کی طرح صف و آراء ہونا۔ یہ سب ملت اسلامیہ کے لئے وقت کی اہم ترین ضرورتیں ہیں۔